This Content Is Only For Subscribers
وہ آڈیٹوریم سے با ہر آ چکی تھی۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ ویک اینڈ ہونے کے با عث سڑکوں پر رش تھا۔ گاڑیاں بھگاتے لوگ اپنی اپنی منزلوں کی طرف گا مزن تھے۔ وہ چلتی چلتی مین روڈ تک آئی ،خوشی اور تشکر کے ملے جلے جذبات اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہے تھے۔ وہ اب رک کر ماضی کو یاد کر کے خود کو بتانا چاہتی تھی کہ وہ ماضی کی بیوقوف لڑکی سے حال کی سمجھ دار لڑکی بن چکی ہے، وہ ناممکن کو ممکن بنا آئی ہے۔
وہ اپنے خیالوں میں گم تھی جب سامنے سے آتی گاڑی کی تیزروشنیوں نے اس کی آنکھوں کو چندھیانے پر مجبور کر دیا تھا۔ گاڑی اس کے قر یب آ کر رکی، اندر سے ایک ادھیڑ عمر آدمی نے با ہر نکل کر اس کے لیے دروازہ کھولا تو وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے با ہر آ ئی ۔وہ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔گاڑی کے اندر کی خاموشی اس کے اندر کی دنیا سے برعکس تھی۔
سفر یوں ہی گزرتا گیا، یہاں تک کہ گاڑی سوسائٹی میں داخل ہوئی جہاں اس کا گھر تھا۔گیٹ سے داخل ہوتے ہی سامنے اس جگہ کو دیکھ کر اسے بہت کچھ یاد آیا تھا۔
’’گاڑی یہیں روک دیں‘‘۔
اس نے فوراً کہا،وہ یہاں کچھ و قت گزارنا چاہتی تھی۔ڈرائیور کو ادائیگی کرکےاس نے دروازہ کھولا اور گاڑی سے با ہر آ گئی۔سڑک پار کرکے وہ اس گیٹ پر پہنچی جس کے اوپر جلی حروف میں ’’ باغِ گل مہر ‘‘ جگمگ کر رہا تھا۔ یہ جگہ اس کے دل سے بہت قر یب تھی۔ وہ یہاں صرف رونے آتی تھی۔ اس باغ کے در خت ،پھول ،پودے اور چرند پرند سب کے سب اس کے آنسوؤں کے گواہ تھے۔ وہ چلتی ہوئی اپنی من پسند جگہ پر آ کر بیٹھ گئی جو اس طرز پر بنی ہوئی تھی کہ گزرنے والا دیکھ نہ سکے اور وہاں بیٹھے شخص کی نگاہ میں پورا باغ سما جائے کیونکہ بینچ کی ایک جانب باڑ لگی ہوئی تھی جس پر رنگ برنگے پھول ہرے پتوں کی خوبصورتی کو مز ید بڑھا رہے تھے اور سامنے کی طرف بڑے بڑے درخت اور ان کے سامنے نیچے زمین میں پیلے پتوں والی بیل کو اس طرح سے اگایا گیا تھا کہ اس بیل سے باغ گل مہر لکھا ہؤا تھا اور اس کی پشت پر بہت ہی بڑا اور نفیس سا ہاتھوں کا مجسمہ بنا ہؤا تھا جس کے آگےاس کی بہت پسند یدہ آیت فَبِأَ يِّ آلَا ءِ رَُبِّ کمَا تُكَذِّبَا نِ لکھی ہوئی تھی اور اس میں لگی ایل ای ڈی لائٹس اس مجسمہ کی خوبصورتی کو مزیدچار چاند لگا رہی تھی۔ باغ کا یہ کونہ ذرا اونچائی پر بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر نظر کو ششدر کرنے کے لیے کافی تھا۔
باغ میں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا اور اتنے رنگ کے پھول تھے جو مقناطیسی قوت رکھتے تھے کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہے۔آسمان صاف تھا اور آنکھوں کو سکون دینے والا ہلکا نیلا رنگ اور کسی گنبد کی طرح پھیلا ہؤا …..اونچا بہت اونچاآسمان جس کو رات کی تاریکی میں دیکھنا اس کا پسندیدہ کام تھا۔ وہ آج بتانا چاہتی تھی…..بہت کچھ، اوروہاں کی خاموشی اس بات کی گواہ تھی کہ گویا آج زمین سے آسمان تک ہر کوئی اس کو سننا چاہتا ہے۔ وہ مسکرا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ شا ید ہوا بھی مہک رہی تھی،چہک رہی تھی۔
وہ ہنسنے لگی، ایسے جیسے جب کسی چھوٹے بچے کو رونے کے بعد ٹافی دی جاتی ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔ وہ بھی بے انتہا خوش تھی۔ آج اس کی دعائیں رنگ لے آئی تھیں۔ وہ ایک زمانے میں ڈر جانے والی لڑکی تھی۔ لوگوں کی باتوں کو سچ سمجھ کر وہ خود کو بہت ہی نالائق اور ناکام سمجھتی تھی کیونکہ اس کی فیملی میں ہر کوئی کامیاب تھا۔ کوئی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا تھا، کوئی اس کے پروفیشن کو پرو فیشن مانتا ہی نہیں تھا۔ وہ نا امیدی کی چادر اوڑھ کر گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے لگی تھی۔ اس معاشرے نے اس سے اس کا اعتماد چھین لیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو لوگوں سے چھپاتی تھی
وہ ہنسنے لگی، ایسے جیسے جب کسی چھوٹے بچے کو رونے کے بعد ٹافی دی جاتی ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔ وہ بھی بے انتہا خوش تھی۔ آج اس کی دعائیں رنگ لے آئی تھیں۔ وہ ایک زمانے میں ڈر جانے والی لڑکی تھی۔ لوگوں کی باتوں کو سچ سمجھ کر وہ خود کو بہت ہی نالائق اور ناکام سمجھتی تھی کیونکہ اس کی فیملی میں ہر کوئی کامیاب تھا۔ کوئی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا تھا، کوئی اس کے پروفیشن کو پرو فیشن مانتا ہی نہیں تھا۔ وہ نا امیدی کی چادر اوڑھ کر گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے لگی تھی۔ اس معاشرے نے اس سے اس کا اعتماد چھین لیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو لوگوں سے چھپاتی تھی لیکن…..اس نے ایک کام کرنا نہیں چھوڑا تھا اور وہ تھا دعا مانگنا …..وہ اسی بینچ پر آکر لوگوں سے چھپ کر دعا مانگتی تھی۔ وہ اللہ سے اپنی ہر بات کرتی تھی اور آج وہ یہاں بیٹھی مسکرا رہی تھی۔
اچانک اس کی نظر سامنے ایک چھوٹی سی چڑیا پر پڑی جو اپنے پروں کو کھولے اڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ تھوڑا اوپر اڑتی اور پھر ڈر کر واپس آ جاتی اور یوں ہی وہ کوشش کرتی رہی یہاں تک کہ اس کی کوشش رنگ لے آئی اور وہ اڑ گئی۔ یہ دیکھ کر وہ دل سے مسکرائی تھی اس کی محنت کو دیکھتے ہو ۓ…..
اس کے سامنے آڈیٹوریم کا منظر کسی فلم کی طرح چلنے لگا۔ وہ سٹیج پر ڈائس کے سامنے کھڑی تھی، بلیک حجاب میں اس کی آنکھیں نمایاں تھیں۔اس کے پیچھے پروجیکٹر پر اس کی بک کا ٹائٹل لکھا ہؤا تھا۔ وہ ایک کتاب کی مصنفہ بن چکی تھی اور آج اس کتاب کی تقر یب رونمائی تھی۔ پورے ہال کی روشنیاں بند تھیں، صرف ایک سپاٹ لا ئٹ نے اس کا احاطہ کیا ہؤا تھا۔ اس کے لہجے میں عا جزی تھی، ایک ٹھہراؤ تھا۔و قت بدل گیا تھا۔ لوگوں سے ڈرنے والی لڑکی آج بول رہی تھی اور لوگ سن رہے تھے ۔وہ خود کو ایسا ہی تو دیکھنا چاہتی تھی ۔ایسی ہی پراعتماد لڑکی جو آج وہ بن گئی تھی!
چڑیا کی بے تاب سی چہکار اسے ایک بار پھر باغ کے منظر میں واپس لے آئی۔
اس کی نظر پھر پودوں کے پیچھے دبکی بیٹھی اس چڑیا پر پڑی۔شا ید وہ زیادہ اونچا نہیں اڑ پائی تھی۔اس کو افسوس ہؤا۔اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور دعا کی، تھوڑی د یر بعد وہ ننھی چڑیا سہمتے ہوئے نکل کر با ہر آئی اور پھر اڑنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ وہ ڈرتے ڈرتے بار بار اڑتی …..اور بالآ خر وہ اڑ ہی گئی۔
اس کے بعد کا منظر اور بھی حیران کن تھا۔وہ کیا دیکھتی ہے کہ ننھی چڑیا اڑتی جا رہی ہےیہاں تک کہ وہ دور سے آتے پرندوں کے غول کے ساتھ مل گئی۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملتے ہی اس کی اڑان اونچی سے اونچی ہوتی گئی۔ وہ یہ سب دیکھ رہی تھی، اس کے لبوں پر مسکرا ہٹ رقص کر رہی تھی۔ آج اس کے ساتھ کسی اور نے بھی اڑنا سیکھا تھا۔ یہی تو چاہیے ہوتا ہے ہمیں…. کسی کا ساتھ جو ہماری حوصلہ افزائی کرے !اور یہ بات اس پر آج واضح ہو گئی تھی کہ اس کی کامیابی کے پیچھے کیا رازتھا …..مسلسل محنت ،گر کر دوبارہ اٹھنا، ہار نہ ماننا، اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے اپنی دوسری خواہشات کو مارنا…..اپنے جیسے دوسروں کوساتھ لینا…..اور اس کے ساتھ دعاؤں کا سہارا!
اور اس نے یہ سب کیا تھا ۔وہ لگی رہی تھی ۔اسے اپنی دعاؤں پر یقین تھا۔ اس کے اس سفر نے اسے خود کی پہچان کرا دی تھی اور خود کی پہچان ا نسان کو امر کر دیتی ہے، سو آج وہ خود کو جان گئی تھی۔ اور دعاؤں کا ساتھ اب زندگی بھر کا ساتھ تھا۔ اب باغ سے نکلنے کا وقت آن پہنچا تھا۔ وہ بنچ سے اٹھ بیٹھی، مسکراتے ہوئے ایک بھرپور نظر اپنے اطراف میں ڈالی اوراپنے قدم با ہر کی جا نب بڑھا دیے کیونکہ اب وہ اڑنا سیکھ چکی تھی!
٭ ٭ ٭