۲۰۲۳ بتول اگستانوارِ ربانی/قولِ نبیؐ - فضائل حرمین شریفین - عبد الغفار

انوارِ ربانی/قولِ نبیؐ – فضائل حرمین شریفین – عبد الغفار

فضائل مکہّ مکرّمہ
روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب اور افضل شہر شہرِ مکہ مکرمہ ہے ۔ جس کی فضیلت کا تذکرہ بارہا خود رب العالمین نے کیا ۔ محض تذکرہ ہی نہیں بلکہ اس کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر اُس کی قسم بھی کھائی چنانچہ سورت التین میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔
’’ قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طور سینا کی اور اس امن والے شہر کی ۔ــ(سورہ التین۹۵،۴)
اور دوسری قسم اللہ تعالیٰ نے سورہ البلد کے شروع میں کھائی ‘‘۔ (البلد90:1)
ارشاد فرمایا :
نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔
اور اس شہر کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا ہے ؟ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام الانبیاء افضل الرسل، خاتم الانبیاءرحمتہ اللعالمین جناب محمد ﷺ کی بعثت بھی اسی شہر مبارک میں فرمائی اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کر کے یوں ارشاد فرمایا :
اور سی طرح حضرت عبد اللہ بن عدیؓ کا یہ بیان ہے کہ انہوں نے آپ ؐ کو دیکھا کہ آپ (حزورۃ)مقام پر کھڑے ہو کر ( مکہ مکرمہ کو مخاطب کر کے ) یہ فرمارہے ہیں ۔
’’تو کتنا اچھا شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے ! اگر میری قوم مجھے تجھ کو چھوڑنے پر مجبور نہ کرتی میں تیرے علاوہ کسی اور زمین پر سکونت اختیار نہ کرتا ‘‘۔(سنن الترمذی:۳۹۲۶)
’’ اللہ کی قسم ! تم اللہ کی بہترین اور اس کی سب سے زیادہ محبوب زمین ہواگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا‘‘۔سنن الترمذی۸۹۲۵)
دعائے ابراہیم خلیل اللہ
حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کے حق میں دعا کی تھی جسے رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کیا ۔
’’ اور یاد کرو جب ابراہیم ؑ نے دعا کی تھی ، اے میرے رب ! اس شہر ( مکہ ) کو پُر امن بنا دے ‘‘۔(ابراہیم ۱۴،۳۵)
اس آیت مبارکہ میں اللہ جل شانہ نے ذکر فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ دعا کی کہ ’’ اے میرے رب ! اس شہر کو امن والا شہر بنا دے‘‘۔امن کی دعا مانگنے کا مقصد یہ تھا کہ تاکہ اللہ جل شانہ‘ کی عبادت انتہائی اطمینان کے ساتھ ہو سکے کیونکہ امن نہ ہونے کی صورت میں ہر وقت اضطراب اورخوف کی کیفیت طاری رہتی ہے جس سے عبادت میں یکسوئی نصیب نہیں ہوتی۔
خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر
اللہ نے مکہ مکرمہ کو یہ شرف بخشا کہ اس میں موجود بیت اللہ کو اپنے گھروں میں سے سب سے اول گھر قرار دیا اور اپنی لاریب کتاب میں اس کا تذکرہ کر دیا ۔ ارشاد فرمایا:
’’ بلا شبہ سب سے پہلا گھر ( عبادت گاہ) جو لوگوں کے لیے تعمیر کیا گیا وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں واقع ہے ، یہ گھر با برکت ہے اور تمام جہاں والوں کے لیے مرکز ہدایت ہے ۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں ( جن میں سے ایک ) حضرت ابراہیم ؑ کا مقام عبادت ہے ۔ جوشخص اس گھر میں داخل ہوا وہ مامون و محفوظ ہو گیا اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ جو شخص اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے (آل عمران97-96:4)
اور جو شخص اس حکم کا انکار کرے وہ ( خوب سمجھ لے کہ ) اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے ‘‘۔
حضرت ابو ذر ؓ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسولؐ اللہ سے پوچھا کہ زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا : ’’مسجد حرام ‘‘ انہوں نے کہا : پھر کون سی ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا : ’’ مسجد اقصیٰ‘‘ انہوں نے کہا : ان کے درمیان کتنی مدت تھی ؟ تو آپؐ نے فرمایا :’’ چالیس سال‘‘۔(صحیح بخاری 3425,3366،صحیح مسلم :520)
مسجد حرام میں کج روی اختیار کرنے پر شدید وعید
حرم مکہ مکرمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدر مقدس و محترم ہے کہ اس میں کج روی ، برائی یا شرارت کا ارادہ کرنے پر بھی رب تعالیٰ نے درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’ بلا شبہ جو لوگ کافر ہیں اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے اور مسجد حرام سے روکتے ہیں ، وہ ( مسجد حرام) جس میں ہم نے وہاں کے باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر رکھے ہیں اور جو کوئی ازراہِ ظلم مسجد حرام میں کج روی اختیار کرنے کا ارادہ کرے گا اسے ہم درد ناک عذاب چکھائیں گے ‘‘۔(الحج25:22)
اصحاب الفیل اور خانہ کعبہ کی حفاظت
ملک یمن کا گورنر ( ابرھہ)جب ہاتھیوں کی فوج کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملہ آور ہؤا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس گھر کی حفاظت فرمائی اور حملہ آور فوج کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے ہلاک کر دیا ۔ یہ بھی اس گھر کی فضیلت کی دلیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
’’ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں سے کیا سلوک کیا ؟ کیا اُس نے ان کی تدابیر کو بے کار نہیں بنا دیا تھا ؟ اور ان پر پرندوں کے غول کے غول بھیج دیے جو ان پرکنکریوں کے پتھر پھینکتے تھے ، پھر انہیں یوں بنا دیا جیسے کھایا ہؤ ا بھوسا ہو‘‘۔(الفیل5-1:105)
مکہ مکرمہ کی حرمت
مکہ مکرمہ حرمت والا شہر ہے ، اس لیے اس کے تقدس کا لحاظ رکھنا فرض ہے ۔اس کی حررمت کی بنا پر رسول اکرمؐ نے اس کے بعض خاص احکامات فتح مکہ کے موقع پر یوں بیان فرمائے :
’’ بے شک اس شہر کو رب تعالیٰ نے اس دن سے حرمت والا قرار دیا جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ حرمت والا ہی رہے گا ۔ مجھ سے پہلے کسی شخص کے لیے اس میں جنگ کرنا حلال نہیں تھا اور مجھے بھی محض دن کی ایک گھڑی اس میں جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ۔ اس کے بعد وہ قیامت تک اللہ کی حرمت کے ساتھ حرمت والا ہی رہے گا ۔ لہٰذا اس کا کانٹا ( تک ) نہ کاٹا جائے ، اس کا شکار نہ بھگایا جائے ، اس میں گری ہوئی چیز کو صرف وہ شخص اٹھائے جو اس کا لوگوں میں اعلان کرے اور اس کا گھاس بھی نہ کاٹا جائے‘‘۔
چنانچہ حضرت عباسؓ نے کہا : اے اللہ کے رسول ؐ ! صرف اذخر گھاس کی اجازت دیجیے کیونکہ اس سے سنار اور لوہار فائدہ اٹھاتے ہیں اور مکہ والے اسے اپنے گھروں کی چھتوں میں استعمال کرتے ہیں ۔ تو آپ ؐ نے فرمایا:’’ ٹھیک ہے اذخر کو کاٹنے کی اجازت ہے ‘‘۔(صحیح بخاری : 1834،صحیح مسلم :1353)
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہؤا کہ :
(۱) مکہ مکرمہ میں جنگ و جدال حرام ہے حتیٰ کہ بلا ضرورت ہتھیار اٹھانا بھی ممنوع ہے ۔
(۲) مکہ مکرمہ میں کسی درخت ، پودے اور گھاس کا کاٹنا بھی حرام ہے ۔ ہاں بعض ضروریات کے پیش نظر صرف اذخر گھاس کو کاٹنے کی اجازت ہے۔
(۳) مکہ مکرمہ میں کسی جانور ، پرندے کو شکار کرنا بلکہ اسے ہانکنا بھی حرام ہے ۔
(۴) مکہ مکرمہ میں گری ہوئی چیز کو اٹھانا بھی جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ اٹھانے والا اس کا اعلان کرے ۔
بیت اللہ کے طواف کی فضیلت
’’ ( دورانِ طواف) ہر ہر قدم پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اوردس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ‘‘۔(احمد،صحیح الترغیب والترہیب للالبانی:1139)
مسجد الحرام میں نماز کی فضیلت
مسجد حرام میں ایک نماز دوسری مساجد میں ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے ۔ جیسا کہ حضرت جابر ؓ کا بیان ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا :
’’ اور مسجد حرام میں ایک نماز دوسری مساجد میں ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ :1406،احمد)
(۵) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بار بار زیارت کعبہ کی توفیق دے ۔ آمین )
فضائل مدینہ منور ہ
مکہ مکرمہ کے بعد روئے زمین پر رب تعالیٰ نے جس شہر کو فضیلت بخشی وہ شہر ’’ شہر رسولؐ‘‘ مدینۃ المنورہ ہے ۔ اورجس کی نسبت سے فضیلت بخشی وہ محمد عربی کی ذات اقدس ہے ۔ اتنا ہی نہیں پھر رب تعالیٰ نے اس فضیلت و عظمت کو دوام بخشنے کے لیے مدینۃ المنورہ کو ہمیشہ کے لیے آپ کا مسکن بنا دیا۔
دورِ جاہلیت میں اس شہر کو ’’ یثرب‘‘ کہا جاتا تھا لیکن حضور اکرمؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد اس کا نام مدینہ منورہ ٹھہرا۔ تاہم قرآن و حدیث میں اس عظیم شہر کا ذکر کئی اور ناموں سے بھی کیا گیا ۔
شہر رسولؐ کا اول نام ’’ مدینہ ‘‘ ہے ، جسے رب تعالیٰ نے خود قرآن میں ذکر فرمایا ۔
شہر رسول ؐ کا دوسرا نام’’ طابستہ‘‘ہے ۔ یہ نام بھی خود رب تعالیٰ نے مقرر فرمایا (التوبہ 120,9)جیسا کہ حضرت جابرؓ بن سمرہ فرماتے ہیںکہ انہوں نے آپ ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ۔
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام طابۃ رکھا ہے ‘‘۔(صحیح مسلم : 1385)
شہر رسول ؐ مدینہ منورہ کا تیسرا نام’’ طیبۃٌ‘‘ خود حضورؐ نے رکھا ۔ حضرت زید بن ثابت ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا :
’’ بے شک وہ( مدینہ منورہ) ’’طیبۃٌ ‘‘ یعنی پاک ہے اور وہ نا پاک کو اس طرح چھانٹ دیتا ہے جیسا کہ بھٹی چاندی کے زنگ کو چھانٹ دیتی ہے‘‘۔
مدینہ منورہ کا چوتھا نام جس کا ذکر قرآن مجید میں ملتا ہے وہ ہے’’ الدار‘‘ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
’’ اور وہ لوگ جو ( مہاجرین سے ) پہلے الدار( مدینہ منورہ) میںمقیم تھے …‘‘
مدینہ منورہ کا پانچواں نام جس کا ذکر حدیث رسولؐ میںملتا ہے وہ ہے ’’درعٌ‘‘ یعنی مضبوط زرہ‘‘ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا :
’’ میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے میں ایک مضبوط زرہ میںہوں … تو میں نے زرہ کی تعبیر مدینہ سے کی ‘‘۔
محمد عربی کی مدینہ منورہ سے محبت
پیارے نبی حضرت محمدؐ اپنے شہر مدینہ منورہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم مدینہ منورہ آئے تواس میں وبا پھیلی ہوئی تھی جس سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت بلالؓ بیمار ہو گئے ۔ جب رسول ؐ اللہ نے اپنے ساتھیوں کی بیماری کو دیکھا تو دعا کرتے ہوئے فرمایا؎
’’ اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ڈال دے جیسا کہ ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ اے اللہ ! ہمارے صاع اور مد میں برکت دے اور اس (مدینہ) کو ہمارے لیے صحت افزا مقام بنا اور اس کی بیماریوںکو حجفہ کی طرف منتقل کر دے ۔(صحیح بخاری :1889، صحیح مسلم :1376)
مدینہ منورہ کی حرمت
رسول اکرم ؐ نے مدینہ منورہ کو حرمت والا اور قابل احترام شہر قرار دیا ۔ آپ ؐ کا ارشاد گرامی ہے :
’’ بے شک ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا اور مکہ والوں کے حق میں دعا کی اور میںمدینہ کو حرمت والا قرار دیتا ہوںجیسا کہ ابراہیم نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا اور میں نے اہل مدینہ کے ناپ تول کے پیمانوں (صاع اور مد) میں اُس برکت سے دوگناہ زیادہ برکت کی دعا کی ہے جس کی دعا ابراہیم ؑ نے اہل مکہ کے لیے کی تھی ‘‘۔(صحیح بخاری:2129،صحیح مسلم :1360)
اس حدیث رسول ؐ سے حرمت مدینہ کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ سے دو گناہ زیادہ برکت ہے۔
اور اسی طرح رسول اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا :
’’ بے شک ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ کوحرمت والا قرار دیا اور میں مدینہ منورہ کو حرمت والا قرار دیتا ہوںاور اس کے حرم کی حدود سیاہ پتھروں والے دو میدانوں کے درمیان ہے ۔ لہٰذا اس کے درخت نہ کاٹے جائیںاورنہ ہی اس میں شکار کیا جائے ‘‘۔(صحیح مسلم 1362)
مدینہ منورہ میں رہائش رکھنے کی فضیلت
رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے ۔
’’ مدینہ ان کے لیے بہتر ہے اگر وہ جانتے ہوتے۔ جو شخص اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے اُسے چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ پر اس سے بہتر شخص لے آتا ہے اور جو شخص تنگ حالی کے باوجود اس میں ٹکا رہتا ہے ، میں روز قیامت اس کے لیے شفاعت کروں گا ’’یا فرمایا ‘‘ اس کے حق میں گواہی دوں گا ‘‘۔(صحیح مسلم :1363)
مدینہ منورہ میں موت آنے کی فضیلت
حضرت عبد اللہ بن عمرؓروایت کرتے ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا:
’’جو آدمی اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کی موت مدینہ منورہ میں آئے تو وہ ایسا ضرور کرے ، کیونکہ میںمدینہ منورہ میں مرنے والے انسان کے لیے شفاعت کروں گا ‘‘۔(احمد ، الترمذی:۳۹۸۱، سنن ابن ماجہ ، صحیح الجامع الصغیر للہ لبانی :6015)
مذکورہ بالا حدیث سے مراد ہے کہ اگر کوئی آدمی اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ اپنی موت آنے تک مدینہ منورہ ہی رہے تو وہ ایسا ضرورکرے ۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر ؓ یہ دعا کیا کرتے تھے ۔
’’ اے اللہ ! مجھے اپنے راستے میںشہادت نصیب فرمانا اور مجھے اپنے رسولؐ کے شہر میں موت دینا ‘‘۔(صحیح بخاری:1890)
مدینہ منورہ میں ایمان کا سکڑنا :
قیامت کے قریب ایمان سکڑ کرمدینہ منورہ میں ہی رہ جائے گا حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:
’’ بے شک ایمان مدینہ کی طرف سکڑ جائے گا جیسا کہ ایک سانپ اپنی بل کی طرف سکڑ جاتا ہے ‘‘۔
اہل مدینہ سے برائی کا ارادہ کرنے والوں کیلئے شدید وعید :
’’ جو آدمی اہل مدینہ کے بارے میں برا ارادہ کرے گا اسے اللہ تعالیٰ اس طرح پگھلا دے گا جیسے نمک پانی میں پگھلتا ہے ‘‘۔( صحیح بخاری :1877،صحیح مسلم :1387والقط المسلم)
مدینہ منورہ میں شرارت آمیز حرکت پر شدید وعید :
رسول اکرم ؐ کا ارشاد ہے :
’’ یعنی جو آدمی اس میں ( یعنی مدینہ منورہ ) میں شرارت آمیز حرکت کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو گی اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس سے نہ کوئی فرض قبول کرے گا اور نہ نفل( اس کا ایک معنی یہ بھی کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے نہ تو بہ قبول کرے گا اور نہ فدیہ) صحیح بخاری :1867،صحیح مسلم :1366)۔
طاعون اور دجال سے مدینہ منورہ کی حفاظت
حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐ اللہ نے ارشاد فرمایا :
’’ مسیح دجال کا رعب ودبدبہ مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوگا ، اس دن اس کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پردو فرشتے نگرانی کر رہے ہوں گے ‘‘۔(صحیح بخاری :1879)
اور اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے رسول ؐ اللہ نے ارشاد فرمایا :
’’ مدینہ منورہ کے دروازوں پر فرشتے مقرر ہیں ، اس میں طاعون کی بیماری نہیں آ سکتی اور دجال داخل نہیں ہو سکے گا ‘‘۔
مسجد نبوی میںایک نماز کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐ اللہ نے ارشاد فرمایا :
’’میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد میںایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے ‘‘۔ صحیح بخاری :1190، صحیح مسلم:1394)
حضرت عبد اللہ بن زید المارنی ؓسے روایت ہے کہ رسول ؐ اللہ نے ارشاد فرمایا :
’’ جو قطعۂ زمین میرے گھر او میرے منبر کے درمیان ہے وہ جنت کے باغوںمیں سے ایک باغ ہے ‘‘۔(صحیح بخاری :1195،صحیح مسلم :1190)
رب العالمین کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں حرمین شرمین کی زیارت نصیب فرمائے ۔ آمین
٭…٭…٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here