رضیہ نے جب سے ہوش سنبھالا تھا و ہ دیکھتی چلی آ رہی تھی کہ اس کی والدہ محرم کے نویں دسویں اور رجب ، شعبان کے تمام نفلی روزوں کا بڑا اہتمام کرتی تھیں ۔ اب تو رضیہ خود بھی ان نفلی روزوں کی پابند ہو گئی تھی ۔ رمضان کے اہتمام کا بھی بڑا خیال رکھا جاتا تھا۔نماز کی پابندی بھی لازمی تھی۔
والدہ کہتیں رب تعالیٰ نفلی روزوں کو پسند فرماتا ہے ۔ ان کا ثواب بہت زیادہ ہوتا ہے۔ گھر پر اور گھر والوں پر اللہ اپنی رحمتیں سارا سال نازل فرما تا رہتا ہے ۔ ان کی ایک عادت اور بھی تھی ، وہ جب کسی سے پیسے لیتیں ، بسم اللہ پڑھ کر لیتیں اورجب خرچ کرتیں تو زیر لب بڑ بڑاتیں ، اللہ کا تھا ، اللہ لوٹا دیا ۔ وہ کہتیں یہ اللہ کا حکم ہے ۔ اس سے روپے پیسے میں برکت ہوتی ہے اور واقعی رضیہ کو احساس ہونے لگا تھا کہ ان کے گھر پر رب تعالیٰ کی رحمت اور برکت ہے کیونکہ ابو جانی کی تنخواہ کوئی اتنی زیادہ نہ تھی لیکن امی کے رکھ رکھائو ، خاندان اور باہر دوست احباب کے ساتھ لین دین میں کبھی کوئی کمی نہیں دیکھتی تھیں۔ رضیہ کو بھی ایک معقول رقم جیب خرچ میں مل جاتی تھی۔
رضیہ کے بی اے پاس کرتے ہی زمانی بیگم کو فکر ہونے لگی کہ اس کی جلد از جلد شادی ہو جائے ۔ ان کی بس ایک شرط تھی کہ لوگ خاندانی اور شریف ہوں ۔ روپے پیسے کی ان کو فکر نہیں تھی۔ کئی جاننے والیوں نے رشتے بتائے ۔ لوگ آتے بھی رہے لیکن زمانی بیگم کے اس شرافت کے معیار پر پورے نہ اتر سکے جس کی وہ متلاشی تھیں۔
میلاد شریف کی محفل میں شرکت کا زمانی بیگم کو بہت شوق تھا اور وہ بڑی عقیدت سے اس میں شرکت کرتی تھیں۔ ان کے ملنے جلنے والیاں جہاں کہیں میلاد شریف کی محفل ہوتی ، انہیں ساتھ لے جاتیں ۔ وہ کہتیں ایسی محفلوں میں جتنے بھی لوگ شریک ہوں ، برکت ہی برکت ہے۔
ایک شام وہ ایسی ہی ایک تقریب سے لوٹیں تو کافی مطمئن اور خوش تھیں ۔ انہوں نے رضیہ سے کہا کہ وہ کل کالج نہ جائے اور اگر جائے بھی تو دوپہر تک واپس لوٹ آئے ۔ یہی حکم انہوں نے اپنے میاں کو رات کے کھانے پر سنا دیا کہ کل لڑکے والے رضیہ کو دیکھنے آئیں گے۔ آپ ذرا آفس سے جلدی آجائیں۔
شبلی خاندان سے تعلق رکھنے والی فیملی زمانی بیگم کے شرافت کے معیار پر پوری پوری اتری ۔ لڑکے والوں کو بھی شریف لوگوں کی تلاش تھی۔ وجاہت شبلی ایم اے انگلش ایک کالج میں لیکچرار تھے۔بس جھٹ منگی اور پٹ بیاہ ہو گیا اور رضیہ اپنے سسرال سدھار گئی۔
٭…٭…٭
شبانہ بیگم معمول کے مطابق بیٹی کے کالج جانے اور میاں فخر الدین احمد کے آفس جانے کے بعد چائے کی پیالی لے کر اپنی چھوٹی بہن شہانہ بیگم سے فون پر گپ شپ لگانے بیٹھ گئیں ۔ ان کے پاس یہی ایک گھنٹہ ہوتا تھا ۔ اس کے بعد نوکرانی آجاتی جس سے وہ گھر کی صفائی کرواتیں ۔ وہ برتن دھوتی ۔ ہفتہ میں دو مرتبہ کپڑے دھوتی تھی اور جب ضرورت پڑتی تو وہ بازار سے سودا سلف بھی لا دیتی تھی۔
آج بھی دنیا جہان کی باتوں کے بعد شبانہ بیگم کی تان اسی بات پر ٹوٹی ۔ شاہانہ بس دعا کیا کر و عائشہ کا بی اے کرتے ہی کہیں رشتہ ہو جائے ۔ بس لوگ شریف ہوں ۔ تم بھی اپنے ملنے جلنے والیوں میں دیکھتی رہا کرو۔ لوگ اچھے ہوں ۔ جو پیچھے دو چار رشتہ آئے تھے وہ تو لوگ بہت ہی چھچھورے لگتے تھے ۔ پتہ نہیں شریف لوگ کہاں چلے گئے ہیں۔
باجی ۔شاہانہ نے انہیں پھر تسلی دی ۔ عائشہ میری بھی بیٹی ہے۔ مجھے بھی اس کی بڑی فکر ہے اور اب تو میری نسرین بھی میٹرک میں آگئی ۔ مجھے تواس کے بارے بھی سوچنا پڑتا ہے ۔ ویسے بھی کہتے ہیں جوڑیاں اللہ تعالیٰ بناتا ہے ۔ وہ ضرور کوئی نہ کوئی راہ نکال دے گا۔ ہاں یاد آیاشاہانہ نے کہا ۔ میں آپ کو کتنی مرتبہ کہہ چکی ہوں کہ آپ عشاء کی نماز کے بعد ایک مرتبہ دعائے گنج العرش پڑھ لیا کریں۔ پڑھتے وقت جس کام کے لیے پڑھ رہی ہوں اس کو ذہن میں رکھ کر پڑھیں ، اللہ تعالیٰ مشکلات آسان فرماتا ہے۔
شبانہ بیگم کو یاد آیا ۔ واقعی شاہانہ اسے کئی مرتبہ پڑھنے کا کہہ چکی ہے۔ نمازیں تو وہ کوشش کرکے پڑھ لیتی تھیں لیکن تسبیح اور قرآن شریف پڑھنے میں وہ ذرا سست واقع ہوئی تھیں لیکن اب انہوں نے تہیہ کرلیا کہ وہ باقاعدگی سے دعائے گنج العرش ہر جمعرات کو بعد نماز عشاء پڑھا کریں گی۔
ناشتہ کی ٹیبل پر شاہانہ نے اپنے میاںاحمد خان سے کہا خان صاحب ( وہ اپنے میاں کو اسی نام سے مخاطب کرتی تھیں ) آج شام آپ ذرا جلدی گھر آجائیں اور آتے ہوئے ایک اچھا سا گلاب کے پھولوں کا گلدستہ اور کسی اچھی بیکری کا کیک لیتے آئیے۔ میری سہیلی انوری بیگم نے رات کے کھانے پر بلایا ہے ۔ کھانا تو ایک بہانہ ہے ، در اصل اس کی کسی سہیلی نے عائشہ کے لیے رشتہ بتایا ہے ۔ اس کی سہیلی لڑکے والی فیملی کو لے کر آئے گی جسے وہ ہم سے ملوانا چاہتی ہے۔ بس دعا کرو لوگ شریف اور اچھے ہوں۔ شاہانہ بیگم ایک سانس میں کہتی چلی گئیں ۔ ویسے میں نے ابھی باجی سے ذکر نہیں کیا ۔ فیملی دیکھنے کے بعد بتائوں گی ، اگر ایسے ویسے لوگ ہوئے تو کیا فائدہ بتانے کا۔
ہاں ، تم نے یہ بہت اچھا کیا ۔ ان سے ذکر نہیں کیا خان صاحب نے جواب دیا ۔ میں آپ کے حکم کے مطابق حاضر ہوجائوں گا اور وہ اپنے کام پر روانہ ہو گئے۔
کھانے سے واپسی پر خان صاحب نے کہا بیگم مجھے تو لوگ بہت اچھے لگے ۔ شریف ، پڑھے لکھے اور قدرت خدا کی دونوں طرف بینکرز ۔ فخر الدین بھائی اپنے بینک میں سینئر وائس پریذیڈنٹ اور نسیم احمد اپنے بینک میں اور ان کا بیٹا کریم احمد بینک میں اسٹیٹ منیجر ۔بس اب دعا کرو ان کو عائشہ پسند آجائے۔
کیوں کیا کمی ہے میری بھانجی میں ۔ میں صبح سویرے ہی باجی کو خوش خبری سنا دوں گی اور پھر انوری سے بات کر کے لڑکے والوں کوباجی کے ہاں دعوت پر بلوالیں گے۔
صبح سویرے شاہانہ بیگم کا فون ؟ شبانہ بیگم گھبرا گئیں ۔ اللہ خیر کرے کہہ کر انہوں نے عائشہ سے رسیور لے لیا ۔ خیریت تو ہے شاہانہ، شبانہ نے پوچھا۔ دوسری طرف سے مسلسل کہانی سنائی جا رہی تھی ۔ شبانہ بیگم کے چہرے کے اتار چڑھائو کو رضیہ بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔ اس نے ماں سے پوچھا سب خیریت تو ہے امی ۔ ہاں بیٹی سب خیریت ہے اور اللہ کی رحمتیں ہیں اور برکتیں ہیں جو وہ ہم جیسے گنہگاروں پر بھی عطا کرتا رہتا ہے۔
بس پھر کیا تھا ، لڑکے والے آئے دو چار خاندانی ملاقاتیں ہوئیں ۔ منگنی کی رسم ادا کردی گئی لیکن شادی کا وہ بی اے کے امتحان سے فارغ ہونے کے بعد کا مان گئے ۔ چار ماہ کے اند ر اندر شبانہ بیگم اورفخر الدین احمد اپنے فرض سے سبکدوش ہو گئے۔
ہاں جب عائشہ وداع ہوتے ہوئے ماں کے گلے لگی رو رہی تھی تو اس کی ماں اس کو تسلی دیتے ہوئے کہہ رہی تھی بس بیٹی دعائے گنج العرش پڑھتی رہنا ۔ رب تعالیٰ ہر مشکل آسان کردے گا ۔ رخصتی کے بعد دونوں میاں بیوی نے شکرانے کے نفل ادا کیے۔
٭…٭…٭
نہیں ، نہیں میں یہاں شادی نہیں کروں گی ۔ رومانہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔ لائونج میں اس کے ممی ، ڈیڈی ، دونوں بھائی اور بھابھیاں موجود تھیں ۔ وہ لوگ آج اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے تھے۔
سیٹھ یار محمد ، رومانہ کے والد نے کافی کے آخری گھونٹ پی کر پیالی رکھتے ہوئے کہا۔
’’ بیٹی رومانہ مجھے پتہ ہے تم اپنے ایک کلاس فیلو کو پسند کرتی ہو جو کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے ‘‘۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے رکے۔ سیٹھ یار محمد بہت ہی زیرک اور جہاں دیدہ تھے۔
’’ تمہیں شاید معلوم نہیں میں خود میٹرک پاس ہوں لیکن آج میرا کروڑوں کا بزنس ہے ۔ کئی کار خانے اور کمپنیاں ہیں ۔ یہ تمہارا بڑا بھائی اختر مشکل سے اے لیول کر سکا ۔ اس کو باہر دوسرے ملکوں میں بھجوا کر ڈگریاں خریدیں کہ اسے کوئی اچھی نوکری مل سکے ۔ چاہتا تو میں اپنے کاروبار میں شامل کر لیتا لیکن ہمارے کاروبار میں گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں تعلقات کا ہونا بہت ضروری ہے اور اب یہ 19گریڈ کا سول سرونٹ ہے ۔ اس اطہر کے لیے بھی ایسے ہی پاپڑ بیلنے پڑے ‘‘۔ اس نے اپنے چھوٹے بیٹے کی طرف اشارہ کیا ۔’’ اور آج یہ پولیس فورس میں ایس ایس پی لگا ہؤا ہے ‘‘۔
’’ ہاں تو بیٹی میں کہہ رہا تھا شرجیل لڑکا بہت اچھا ہے ۔ میں اس سے مل چکا ہوں میں نے اسے دو دن پہلے آفس میں بلوایا تھا۔
یہ جو تم نے اس سے کہا تھا کہ تم مجھ سے کہہ کر اس کو میری کسی کمپنی میں ڈائریکٹر وغیرہ لگوا دو گی اوریوں تمہاری اس کے ساتھ شادی ہو جائے گی یہ سب باتیں اس نے مجھ سے ڈسکس کرلیں ۔ شاید کوئی دوسرا لڑکا ہوتا تو تمہاری یہ شرط مان لیتا لیکن میں نے محسوس کیا وہ غریب ضرور ہے لیکن بہت ہی خود دار اورپر اعتماد شخصیت کا مالک ہے۔ مجھے اس کی یہ بات بہت اچھی لگی ۔ میں اس کی شخصیت سے مرعوب بھی ہؤاہوں مگر میں جانتا ہوں ایسے لوگ کسی کا احسان نہیں لیتے۔ اس نے بہت ہی انکسار سے کہا انکل میں رومانہ کا ایک ہمدرد اور سچا دوست ہوں ۔ میں خود غرض اور وقت سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے نہیں ہوں ۔ میری تربیت اور رومانہ کی تربیت الگ الگ ماحول میں ہوئی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو اس شادی کی خاطر آپ کے ہاتھوں بک کر نہ تو اپنے آپ کو دھوکا دینا چاہتا ہوں اور نہ آپ کو ۔ مجھے اپنی زندگی خود بنانی ہے ر ب تعالیٰ میرے ساتھ ہے ۔ وہ ضرور حالات بدلے گا ۔ میری ہمدردیاں اور نیک تمنائیں ہمیشہ رومانہ کے ساتھ رہیں گی اور پھر وہ اجازت لے کر چلا گیا‘‘۔
یہ تمام باتیں شرجیل ، رومانہ سے کر چکا تھا لہٰذا اس کو یہ تو یقین ہو گیا کہ ڈیڈی اس سے مل چکے ہیں اور شرجیل سے اب کوئی امید نہیں رہی تھی۔
’’رومانہ بیٹی ! ‘‘سیٹھ یار محمدنے بات آگے بڑھائی۔’’ ہمارا سوسائٹی میں ایک مقام ہے جسے حاصل کرنے کے لیے میں نے بڑی جدوجہد کی ہے اور اب تم کو اس مقام سے بھی آگے مقام مل رہا ہے اور تم انکار کر رہی ہو ۔ تمہیں پتہ ہے آج کل سب سے بڑا بزنس سیاست ہے جہاں دولت خود چل کر قدم چومتی ہے ۔ تمہارے لیے ایم این اے چوہدری جہاں داد کا رشتہ قدرت کا عطیہ ہے جس کو تم ٹھوکر مار رہی ہو ۔ چوہدری جہاں داد کو جلد ہی کوئی منسٹری بھی ملنے والی ہے ۔ وہ وزیر اعظم کے بہت نزدیکی لوگوں میں سے ہے ۔ ایم این اے کے ہمارے خاندان میں شریک ہونے سے ہمارے کاروبار میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہو گی۔تمہارے دونوں بھائیوں کی اپنے اپنے محکموں میں پوزیشن مضبوط ہو گی اور جب تمہارے آگے پیچھے پروٹو کول کی گاڑیاں ہوں گی تو تم اپنی قسمت پر نازکرو گی ۔ ہم لوگ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد انہوں نے ممی ، بھابھیوں اور بھائیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا ، اب تم لوگ اسے سمجھائو ، میں سونے جا رہا ہوں ، کل میری لندن کی فلائٹ ہے۔
شادی والے دن ہی رومانہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کسی ان دیکھے دیس میں جانے والی ہے ۔ جب وزیر اعظم اپنی بیگم کے ہمراہ شرکت کے لیے آئے تو ان کے آگے پیچھے پروٹو کول ، پھر تصویروں کا سیشن ، اس کے بعد دوسرے وزراء او ربیورو کریٹس کا آنا اور ملنا ۔ اس نے تو یہ سب کچھ سوچا بھی نہ تھا جو وہ آج دیکھ رہی تھی۔
اور جب چوہدری صاحب جہاں داد کو منسٹری کا پورٹ فولیو ملا تو حالات بالکل ہی بدل گئے ۔ تب وہ سوچتی کہ اس کے ماں باپ کا فیصلہ درست تھا ۔ وہ بے وقوف تھی جو اس عشق کے چکر میں پڑ گئی تھی۔
اوراب تو بڑے بھائی کی گریڈ 20میں ترقی ہو گئی تھی ۔ چھوٹا ڈی آئی جی پروٹو کول ہو گیا تھا ۔ والد کے کاروبار میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہو رہی تھی۔
٭…٭…٭
بیگم صاحب، بیگم صاحب ، ملازمہ چوتھی بار بیگم مراتب علی کے کمرے میں داخل ہوئی تھی اور ان کو جگانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اب تو شام کے چار بجنے والے تھے ہاتھ میں اس نے ان کا سیل فون پکڑا ہؤا تھا جس کی دوسری طرف بیگم اشفاق احمد اپنی سہیلی سے بات کر نے کے لیے بے تاب تھی ۔ یہ ان کا چوتھا فون تھا۔
بیگم مراتب علی بڑ بڑا کر اٹھیں ،’’ کیا مصیبت ہے ، تم صبح صبح میرے کمرے میں کیسے داخل ہوگئیں ۔ انہوں نے ملازمہ کو غصہ سے کہا ۔تمہیں منع کیا ہے اور تم …‘‘
’’بیگم صاحب شام کے چار بج چکے ہیں اور یہ آپ کی سہیلی بیگم اشفاق احمد کا چوتھا فون ہے ۔ وہ آپ سے کوئی بہت ہی ضروری بات کرنا چاہتی ہیں ‘‘۔ ملازمہ نے جلدی سے کہا اور سیل فون ان کی طرف بڑھا دیا۔
’’اچھا ، ابھی صبح تک تو سیٹھ دائود کے بیٹے کے ولیمے میں ساتھ تھیں ۔ ایسا کیا مسئلہ پیش آگیا ‘‘۔ کہتے ہوئے انہوں نے فون کان سے لگا لیا ۔
’’ ہاں شہناز واٹ ازدی پرابلم ‘‘ اور ملازمہ کو کمرے سے جانے کا اشارہ کیا ‘‘۔
’’نوپرابلم میری جان ۔ دوسری طرف سے شہناز بولی‘‘۔ اٹ از گڈ نیوز ۔ یو اینڈ you and your daughter are lucky۔
’’تمہیں یاد ہے رات جو خاتون ہماری ٹیبل پر بیٹھی تھیں جس کا ڈائمنڈ سیٹ تم کو بہت پسند آیا تھا ، جنہوں نے اپنا تعارف نجمہ گردیزی کروایا تھا ۔ وہ انگلینڈ سے فنکشن اٹینڈ کرنے آئی ہوئی ہیں۔ ان کے میاں دوست محمد گردیزی کے انگلینڈ ، سوئٹزر لینڈ ، فرانس اور مڈل ایسٹ میں کاروبار ہیں ۔ ان کے بیٹے حامد گردیزی کو تمہاری شہلا پسند آگئی ہے۔ اس سلسلے میں وہ تم سے ملنا چاہتی ہیں ‘‘۔ شہناز بولے جا رہی تھی ۔’’ تم تو پارٹی سے طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے جلدی نکل گئی تھیں ، تمہارے جانے کے بعد ان کے بیٹے نے اپنی ماں سے ذکر کیا تھا شہلا توپارٹی میں صبح تک رہی تھی ۔اس نے شہلا کو اپنی ماں سے ملوا دیا ہے ۔ میں چونکہ ٹیبل پر موجود تھی تو شہلا نے نجمہ گردیزی سے کہا آنٹی شہناز میری مما کی بیسٹ فرینڈ ہیں ۔ آپ ان سے بات کر یں یہ مما کو بتا دیں گی‘‘۔
’’ اور سب سے بڑی خبر تو یہ ہے ‘‘دوسری طرف سے شہناز بولے چلی جا رہی تھی ۔’’ جب میں نے اپنے میاں سے ذکر کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ پانامہ لیکس کی تیسری لسٹ جوکل نکلی ہے اس میں دوست محمد گردیزی کی پانچ آف شور کمپنیاں ہیں اور ان کے بیٹے حامد گردیزی کی تین ۔ وہ لوگ جلدی ہی ایک ائیر لائن بھی لانچ کرنے والے ہیں ‘‘۔
’’ ونڈر فل‘‘ بیگم مراتب علی نے جواب دیا ۔’’ فلی لوڈڈ فیملی ۔ انہیں دودن بعد ڈنر پر آنے کی دعوت ہماری طرف سے دے دو ۔ پرسوں دو پہر تک مراتب علی بھی بنکاک سے واپس آجائیں گے ۔ تھینک یو شہناز فار دس آل گڈ نیوز‘‘۔فون رکھتے ہوئے بیگم مراتب علی نے ملازمہ سے کہا شہلا اٹھ گئی ہے تو وہ اسے بلا لائے ۔ وہ جلد از جلد یہ خبر اسے دینا چاہتی تھیں ۔
مما، شہلا سیڑھیاں اترتی ہوئی بولی ۔ آئی اوور ہر ڈیو ۔ آئی تھنک آنٹی شہناز ہیز کالڈ یو۔
’’ ہاں بیٹی ، یور آر لکی ، وی آر آل لکی ۔ شہناز آنٹی نے بریکنگ نیو زدی ہے ۔ پانامہ لیکس کی جو تیسری لسٹ کل نکلی ہے اس میں حامد اور اس کے باپ کا نام ہے ‘‘۔
’’ مما ، اٹ از گریٹ ، وہ تو مجھے کل ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ لوگ ایکسٹرا آرڈرنری رچ ہیں۔ لیکن نہیں یہ تو فلتھی رچ ہیں ۔ آئی ایم لکی ۔ ویری ویری لکی۔
وہ تو کل رات ہی مجھے پرپوزکرنا چاہتا تھا ۔ میں نے سختی سے روک دیا اور کہا طریقے سے رشتہ لے کر آئو ۔ کچھ تو رکھ رکھائو ہوتا ہے نہ…
شادی وہ سوئٹزر لینڈ میں کرنا چاہتا تھا ۔ میں نے کہا پاکستان میں ہو گی ، جو رونق اور مزہ پاکستان میں شادی کرنے کا ہے وہ یورپ میں کہاں۔
منگنی کی رسم جب چاہیں کرلیں لیکن شادی میں ڈیزائنر سے برائیڈل جوڑے ملنے کی تاریخ کے بعد رکھنا چاہتی ہوں ۔
یہ سب باتیں میں اس سے کرچکی ہوں ۔ مما یو آل سوٹا ک ٹو ہرمدر… اوکے ۔ مما میں جِم جا رہی ہوں ‘‘۔
اور شہلا اپنا پرس لہراتی کمرے سے نکل گئی۔
٭…٭…٭