لفظ’’ سیرت ‘‘ کا لغوی مفہوم جانا ، روانہ ہونا ، چلنا ، طریقہ ، مذہب ، سنت ، ہیئت، حالت کردار ، کہانی ، پرانے لوگوں کے قصے اور واقعات ہے ۔’’اس کا مادہ ‘‘ سَارَ یسرو سیراً ہے۔ اصلاحاً سیرت عبارت ہے سرور دو عالم ؐ کے احوال و اوصاف سے چاہے وہ احوال و اوصاف اختیاری ہوں یا غیر اختیاری ، آپؐ کا حلیہ شریف شکل و صورت ، قدو قامت ، کثرت خویش و اقارب یہ سب غیر اختیاری ہیں ۔ آپؐ کے اوصاف تعلیمات، دعوت و تبلیغ، اقوال و افعال، کھانا پینا ، رہن سہن وغیرہ اختیاری ہیں۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے ’’عجالہ نافعہ ‘‘ میں لکھا ہے حضورؐ کے وجود گرامی ، آپ ؐ کے صحابہ کرام اور آل عظام سے جو چیز تعلق رکھتی ہے نیز حضور اکرم ؐ کی ولادت مبارکہ سے لے کر آپ ؐ کے وصال تک کی تمام تفصیلات اسلامی علوم و فنون کی اصطلاح میں ’’ سیرت ‘‘ کہلاتی ہیں۔
سیرت سے مراد آپ ؐ کی حیات طیبہ کا ہر لمحہ ہے جس میں اعلان نبوت سے پہلے اور بعد کے حالات دونوں ہی شامل ہیں ۔ آپؐ کی زندگی کا ہرگوشہ آپ ؐ کا کردار ،عادات اطوار ، طرز زندگی ، طریقہ برتائو روزروشن کی طرح عیاں ہے اسی لیے آپؐ کی ذات گرامی کو قرآن ناطق کہا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے لیے اس سے زیادہ فخر کی بات نہیں ہو سکتی کہ انہوںنے اپنے پیغمبر کے حالات اور واقعات حر ف بہ حرف انتہائی جامعیت اور احتیاط کے ساتھ قلمبند کیے ۔ مغربی مصنف فلپ کے ہٹی نے لکھا ہے ’’محمدؐ تاریخ کی پوری روشنی میں پیدا ہوئے ہیں ‘‘۔
کسی بھی شخصیت کو مثالی اور آئیڈیل بننے اور اس کے قابل تقلیدہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص مجموعہ خصائل ہو۔ یعنی وہ مصلح و رہنما بھی ہو ، قائد و سپہ سالار بھی ہو، مدبر اور منصف بھی ہو ، مقنن بھی ، سربراہ مملکت بھی ہو ، تاجر و محنت کش بھی ہو ، خاوند بھی ہو سر براہ خاندان بھی۔
آپؐ کی بعثت سے پہلے عربوں کے لیے کوئی تاریخ نہیں تھی سوائے اپنے آبائو اجداد کے قصے اور نسب ناموں کے ۔ حضرت معاویہؓ کے دورِ خلافت تک تاریخ عرب یا سیرت نبوی ؐمیں کچھ نہیں لکھا گیا تھا ۔ جب حضرت معاویہؓ کا دور آیا تو انہوں نے چاہا کہ تاریخ میں ایک کتاب مددن کی جائے عبیدبن شرف الجرہمی نے جن کا تعلق صنعا سے تھا حضرت معاویہ ؓ کے لیے ’’ کتاب الملوک و اخبار الماضین‘‘ لکھی۔ اس کے بعد اکثر علما ء سیرت النبی ؐ کی طرف متوجہ ہوئے ۔
تدوین سیرت میں سب سے نمایاں نام حضرت عروہ بن زبیر ؓ کا ہے ۔ انہوں نے علم سیرت اورمغازی کے بارے میں تحریر ی صورت میں ایک مجموعہ تیار کیا جو وہ اپنے شاگردوں کو پڑھایاکرتے تھے ۔ مشہور مورخین اسلام مثلاً طبری ، ابن سعد و اقدی نے اپنی کتابوںمیں ان مندرجات کو سمویا جو حضرت عروہؓ کے شاگردوں کے پاس محفوظ تھا۔
امام زہری محدثین میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔ وہ حضرت عروہؓ بن زبیرؓ کے بارے میںکہتے تھے۔ عروہ ایک ایسے سمندر کی مانند ہیں جس سے جتنا پانی نکالو گدلا نہیں ہوتا ۔گویا ان کی معلومات اتنی زیادہ ہیں کہ نہ وہ پرانی ہوتی ہیں اور نہ ان میں تکرار ہوتی ہے ۔ حضرت عروہؓ حدیث، سیرت اور مغازی کے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے فقہیہ بھی تھے ۔ جس زمانے میں حضرت عمر ؓ بن عبد العزیز نے مدینہ منورہ میںفقہائے سبعہ کو اپنا مشیر خاص مقرر کیا تھا ان فقہامیں حضرت عروہ ؓ بن زبیر ؓ بھی شامل تھے ۔ حضرت عروہ ؓ کی وفات 92ھ میں ہوئی ۔
علمائے سیرت میں محمد بن اسحاق سیرت کے فن میں بہت بڑا نام ہے ۔ انہوں نے تین ضخیم جلدوں پر مبنی ایک جامع کتاب سیرت پر لکھی انہوں نے سیرت اور مغازی کے بارے میں اپنے علم کو اتنا وسیع کرلیا تھا کہ خود ان کے استاد امام زہری فرمایا کرتے تھے ’’ میرا یہ شاگرداس مضمون کا سب سے بڑا عالم ہے ۔’’ ابن اسحاق کی سیرت‘‘ اساس السیر، تین بنیادی اجزا پر مشتمل ہے ۔
(۱) المبتداء، اس حصے میں نبوت و رسالت قبل از اسلام کا ذکر ہے ۔
(۲) المبعث، اس حصے میں آپؐ کی ولادت حیات و نبوت اور بعثت سے لے کر آپ ؐ کی وفات تک بحث کی گئی ہے اس حصے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اس میں وقائع و حوادث کو بیان کرنے میں ترتیب زمانی کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔
(۳) المغازی ، آپؐ کی حیات مدنی ، غزوات اور داخلی و بین الاقوامی روابط دعوت پر مشتمل ہے۔
ابن اسحاق کی سیرت ’’ اساس السیر‘‘ کے شارح عبد الملک بن ہشام تھے ۔ انہوں نے اس کتاب کا خلاصہ تیار کیا اس سے ایک ایسی کتاب ہمارے سامنے آگئی جو سیرت کا سب سے پہلا مستند مقبول ماخذ ہے اور شاید دنیا کی ہر زبان میں اس کا ترجمہ موجود ہے ۔
نبی اکرمؐ کی سیرت پر علماء نے بے شمار کتب لکھیں۔ خطبات مدارس میں سید سلیمان ندوی نے رسالت کی جامع خصوصیات میں (۱) تاریخیت(۲) جامعیت(۳) کاملیت(۴) اور عملیت بیان کی ہیں ۔ دیگر انبیاء علیہم السلام محدود زمانے اور متعین قوموں کے لیے آئے اس لیے ان کی سیرت کو دوسری قوموں اور آئندہ زمانے تک محفوظ رہنے کی ضرورت نہ تھی ۔ مگر نبی اکرم ؐ تمام اقوام عالم کے لیے اور قیامت تک کے لیے نمونہ عمل اور قابل تقلید بنا کر بھیجے گئے تھے اس لیے آپؐ کی سیرت کو ہر حیثیت سے مکمل دائمی اور ہمیشہ کے لیے محفوظ رہنے کی ضرورت تھی اور یہی ختم نبوت کی سب سے بڑی عملی دلیل ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمؐ کو ’’خلق عظیم ( سورہ قلم آیت نمبر ۴) رئوف الرحیم (سورہ توبہ ۱۲۸) رحمتہ للعالمین (سورۃ الانبیا ۱۰۷) قرار دیا ۔ تاریخ انسانی میں آج تک کسی شخص کے حالات اتنی جامعیت اور احتیاط کے ساتھ قلمبند نہیں کیے گئے جتنے رسول اکرمؐ کے کیے گئے۔
آپؐ اس لحاظ سے تاریخِ انسانی کی منفرد اور یکتا شخصیت ہیں جن کی انفرادی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے ایک ایک لمحے کو محفوظ کیا گیا ہے۔ سیرت کی کتابوں میں آپؐ کا قبیلہ ، خاندان ، ددھیالی، ننھیال، آپؐ کی ولادت، رضاعت ، قبل از نبوت کے واقعات جوانی ، شادی بیاہ ، بچے بعد از نبوت کے واقعات ، خانگی و بیرونی زندگی ، عادات، خصائل ، اخلاق نشست و برخواست، خوردونوش، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا ، رفتار و گفتار، دن رات، خرید و فروخت ، معیشت و تجارت ، ہمت و شجاعت ، عسکری و جنگی تدابیر، معاہدات، صلح و جنگ ، جودوسخا، عفوو درگزر، تواضع و انکسار،خوش طبعی و قصہ گوئی ، فصاحت و بلاغت ، سفر و حضر، تبسم ومزاح ، طریقہ تاوید اور خفگی کا اظہار ، گریہ وفغاں، حسن مدارات ، شرم و حیا کی تفصیلات شامل ہیں۔ صرف اسی پر بس نہیں سیرت نگاروں نے آپؐ کا حلیہ مبارک، خدوخال ، داڑھی کی کیفیت، زلفوں کا تذکرہ ، عبادات ، نماز، روزہ صوم، وصال ، حج ، زکوٰۃ ،یہاں تک کہ ہم خوابی اور طہارت کے حالات ، غرض بڑے سے بڑا واقعہ اور چھوٹی سے چھوٹی جزئیات ہم تک پہنچی ہیں۔
اس شان کی سوانح عمری نہ کسی کی لکھی گئی نہ محفوظ کی گئی اور نہ ہی نسل در نسل منتقل ہوئی ۔ یہ ساری تفصیلات وجزئیات احادیث، سیرت اور تاریخ کی کتابوں کے ذریعے دنیا کے ہر گوشے اور ہر خطے تک ہر زبان میں پہنچی ہیں ۔ سیرت پاک ؐ کو جاننے کے لیے قرآن سب سے اہم ماخذ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے آپؐ کی سیرت کے دو پہلو ہیں ایک علمی اور دوسرا عملی۔
علمی پہلو قرآن پاک اور عملی پہلو احادیث کی چھے مستند ترین کتابیں صحاح ستہ(صحیح بخاری مسلم ، سنن ابی دائو ، جامع ترمذی،سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ اور موطا امام مالک ) ہیں۔
(۳) مغازی و سیر ۔ جن میں آپ ؐ کے غزوات اور جنگوں کا ذکر ہے ۔
(۴) کتب تاریخ (۵) کتب دلائل(۶) کتب شمائل(۷) کتب تفاسیر (۸) کتب اسماء الرجال ہیں۔
کتب اسما ء الرجال ان لوگوں کی محنت شاقہ کے جذبے کی وجہ سے وجود میں آئیں جو محدثین کہلاتے ہیں ۔ ان کی بلند ہمتی ، علم حدیث سے وابستگی ، لگائو ، سنجیدگی ، ذاتی تحقیق نے امت مسلمہ کو یکتا اور منفرد بنادیا کرہ ارض پر کوئی قوم ایسی نہیں جس نے اسماء الرجال جیسا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو اور پانچ لاکھ روایات ِ حدیث کے حالات محفوظ کیے ہوں ۔ ان روایات میں صحابہ کرام ، تابعین تبع تابعین شامل ہیں۔
اسلامی ادب میںسیرت نگاری کو جو نمایاں مقام حاصل ہے اس کی نظیر پیش کرنا محال ہے ۔ حضورؐ کی زیارت لاکھوںصحابہ ؓ نے کی ۔ ہزاروں نے آپ ؐ کی حیات مبارکہ کا مشاہدہ کیا۔سینکڑوں صحابہ کرام ؓ نے مختلف واقعات ، گوشہ ہائے حیات کو قلمبند کیا ۔ یہی مواد نسل در نسل منتقل ہوتا ہؤا ہم تک پہنچا ہے ۔ مسلمان بالخصوص اور پوری انسانیت کو بالعموم اس تاریخی سرمایے پر فخر ہے ۔ کسی بھی شخصیت کو آئیڈیل بننے اور اس کے قابل تقلیدہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخصیت مجموعہ خصائل ہو ۔ آپؐ تمام دنیا کی قوموں کے لیے قیامت تک کے لیے نمونہ عمل اور قابل تقلید بنا کر بھیجے گئے ۔ اس لیے آپ ؐ کی سیرت کو ہر حیثیت سے مکمل اور دائمی محفوظ کیے جانے کی ضرورت تھی اور یہی ختم نبوت کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ پوری دنیا میں بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص اردو زبان میں سیرت پاک کے موضوع پر بہت وقیع کام ہؤا ہے اور یہ اعزاز اردو زبان کو حاصل ہے کہ سیرت پاک ؐ پر جتنی کتابیں اردو زبان میں لکھی گئیں وہ کسی اور زبان میں نہیں لکھی گئیں۔
قاضی سلیمان منصور پوری عربی فارسی کے عالم بھی تھے اور انگریزی قانون کے ماہر بھی تھے ۔ انگریزی عدلیہ سے وابستہ تھے ۔ انہوں نے سیرت کی کتاب میں لکھا ہے حضورؐ نے دنیا میں بائیس ہزار تین سو تیس دن چھ گھنٹے قیام فرمایا ، ان میں سے اٹھارہ سو چھپن دن تبلیغ و رسالت میں گزارے جس میں حق کو سچائی قرار دیا ، خیرو شر کا معیار پیش کیا ۔
صلو علیہ واٰلہ
ماخذ (۱) قرآن پاک
(۲) احادیث مبارکہ ۔ صحیح بخاری
(۳) سیرت ابن ہشام ، ج اول ۔ ص56
(۴) سیرت المصطفیٰؐ( حضرت علامہ محمد ادریس کاندھلوی)
٭…٭…٭