بتول جون۲۰۲۳اجرت پر کام - بتول جون ۲۰۲۳

اجرت پر کام – بتول جون ۲۰۲۳

اسلام میں آجر اور اجیرکا تصور

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کوتکریم بخشی ہے۔ اسلام میں آجریعنی اجرت پر کام کروانے والا بھی معزز ہے اور اجیریعنی اجرت کے بدلے کام کرنے والا بھی! انسان کو روزی کمانے اور اپنی معاش کا انتظام کرنے کے لیے جسمانی، یا دماغی محنت کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اسلام اس پر ابھارتا ہے۔اور جو لوگ مشقت کر کے اپنی روزی حاصل کرتے ہیں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔انبیاء علیھم السلام جو عزت و شرافت کے اعتبار سے پوری انسانیت کا جوہر ہیں انھوں نے خود محنت مزدوری کی، اور بکریاں چرانا اور گلہ بانی کرنا تمام انبیاء علیھم السلام کا پیشہ رہا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے مزدور کے ہاتھوں میں پڑنے والے گھٹے کو بوسہ دیا ہے۔
حضرت موسیٰؑ کی مزدوری کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے کہ مدین کے کنویں پر جب انہوں نے دو لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلایا، تو کچھ دیر بعد ان میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی اور بولی:’’میرے والد صاحب آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو جو پانی پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں‘‘۔(القصص،۲۵)اور ایک بیٹی نے باپ کو تجویز دی کہ انہیں اپنے ہاں اجرت پر رکھ لیں: ’’بہترین آدمی جسے آپ ملازمت پر رکھیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو‘‘۔(القصص،۲۶)اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملازم کے اخلاقی اوصاف کیا ہونے چاہئیں۔اسی پر رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’موسی علیہ السلام نے آٹھ یا دس برس اس طرح مزدوری کی کہ اس مدت میں پاک دامن بھی رہے اور اپنی مزدوری کو بھی پاک رکھا‘‘۔ (مشکوٰۃ، ۲۵۲)
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اللہ نے جتنے انبیاء ؑ بھی بھیجے سب نے بکریاں چرائی ہیں‘‘ صحابہ نے پوچھا: کیا آپؐ نے بھی یا رسول اللہ ؐ، آپؐ نے فرمایا: ’’میں بھی چند قیراط کے عوض اہلِ مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا‘‘۔ (مشکوٰۃ، کتاب الاجارہ)
ایک صحابی نے آپؐسے پوچھا: کون سی کمائی سب سے اچھی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’محنت کی کمائی‘‘۔
ایک شخص آپؐ سے سوال کرنے آیا تو آپؐ نے اس کے گھر کے سامان پیالہ اور کمبل کو بکوا کر کلہاڑی اور سامان منگوایا اور اپنے ہاتھوں سے دستہ ٹھونک کر دیا، کہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچو۔پندرہ دن بعد وہ دس درہم کما کر گھر کی ضروریات خرید کر آپؐ کی خدمت میں آیا تو آپؐ نے فرمایا:’’کیا بھیک مانگ کر قیامت کے روز ذلت اٹھانے سے یہ بہتر نہیں ہے؟‘‘۔
آپؐ کا فرمان ہے: ’’ تم میں سے کوئی جنگل جا کر لکڑیاں کاٹے اور ان کا گٹھا پیٹھ پر لاد کر لائے تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے، پھر کوئی اسے دے یا انکار کر دے‘‘۔(رواہ البخاری،۱۴۷۰)
احترامِ انسان
اسلام اعلیٰ اخلاق کا دین ہے، وہ تمام انسانوں کے ساتھ احترام ِ انسانیت کا معاملہ کرنے کی جانب رہنمائی کرتا ہے، حتیٰ کہ زیر دستوں کے ساتھ بھی!اسلام کی نگاہ میں تمام انسان برابر ہیں۔ آپؐ کا فرمان ہے: ’’انسان کنگھی کے دندانوں کی مانند برابر ہیں‘‘۔ (محدث البانی، ۵۹۶) ۔
اسلام کی نظر میں انسانوں میں حسب نسب اور خون اور رنگ کے اختلاف سے کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا، ان میں کوئی فرق ہے تو وہ تقویٰ اور اعمالِ صالح کی بنا پر ہے۔حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’(حقیقت میں لونڈی اور غلام) تمہارے بھائی ہیں، جنھیں اللہ نے تمھارے ماتحت کیا ہے، اس لیے جو تم کھاتے ہو وہ انہیں بھی کھلاؤ اور جو تم پہنتے ہو وہ انہیں بھی پہناؤ۔اور انہیں ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو ان کی طاقت سے باہر ہو، اور اگر کبھی ان پر ایسا کام ڈالو تو تم بھی اس میں شریک رہ کر ان کی مدد کرو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، ۳۶۹۰) اس حدیث میں جاہلیت کے اعمال اور جاہلی اخلاق کی قباحت کو بیان کیا گیا ہے، جسے اسلام نے ختم کر دیا۔رسول اللہ ؐ نے خطبہ حجۃ الوداع میں بھی کمزوروں سے احسان اور حسنِ سلوک اور ان سے نرمی کی تلقین کی۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو تخلیق کیا ہے، اور پھر ان کی معاشی حالت کو مختلف بنایا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے ہر معاشرے میں کچھ لوگوں کو غنی بنایا اور کچھ لوگوں کو فقیر اور تنگدست! تنگ دست اپنی ضروریات کی تکمیل اور زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے اغنیاء کے محتاج ہیں اور اغنیاء اپنی بہت سی ضروریات پوری کرنے کے لیے طبقہء فقراء کے محتاج ہیں، جو مال کے عوض اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح افرادِ معاشرہ کا نظام ایک دوسرے کی مدد اور تعاون سے چلتا ہے، وہ اپنی مشقت کے عوض معاوضہ حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح آجر اور اجیر کا رشتہ استوار ہوتا ہے۔
اجیر کا مفہوم
اجیر وہ ملازم یا مزدور ہے جسے کسی نقدی یا فائدے کے عوض کسی خدمت یا کام پر متعین کیا جاتا ہے۔خواہ آجر کوئی شخص ہو یا کمپنی یا حکومت۔
ارشاد الٰہی ہے: ’’دنیا کی زندگی میں ہم نے ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ لوگوں پر بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں، اور تیرے رب کی رحمت اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو یہ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ (الزخرف،۳۲)
اگر ان میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا کرے تو ان کے درمیان الفت کا تعلق پیدا ہوتا ہے اور حقیقی خوشی نصیب ہوتی ہے۔اور اسلامی معاشرے کی ایک صحت مند اور توانا تصویر نظر آتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’مومنوں کی مثال باہم الفت کرنے، اور مہربانی کرنے اور رحم کرنے میں ایک جسم کی مانند ہے، جب اس کے کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بیداری اور بخار کے ساتھ اس میں شریک ہو جاتا ہے‘‘۔ (رواہ البخاری،۵۸۴۹)
رسول اللہ ؐ نے عمال اور آجروں کو اپنے زیر دستوں کے ساتھ مہربانی کا رویہ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔وہ ان سے شفقت برتیں اور ان سے بھلائی کریں، اور ان سے ایسی مشقت نہ لیں جسے نباہنا ان کے بس میں نہیں۔رسول اللہ ؐ نے خادم کا درجہ بھی بڑھایا اور انہیں انھیں عاملین اور آجروں کا بھائی قرار دیا۔یہ انسانی معاشرے کی ایسی اصلاح ہے جس کا وجود کسی زمانے اور کسی معاشرت میں نہیں ملتا۔
اسی طرح آپؐ نے مزدور اور ملازم کو بھی تلقین کہ کہ وہ اپنے ذمہ کام کو صحیح طرح انجام دے اور آجر اپنے اجیر کو اس کی خدمت کا معاوضہ جلد از جلد ادا کر دے، آپؐ نے فرمایا: ’’مزدور کو اس کی اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو، اور اسے اس کی اجرت پہلے ہی بتا دو‘‘۔ (البیہقی،۳۲۱۔۲)
یعنی کام پورا ہونے کے بعد اجرت میں تاخیر یا ٹال مٹول سے منع کیا گیا ہے۔اور اجیر کو اس کی اجرت سے محروم کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کا میں قیامت کے دن خود مدعی بنوں گا۔ایک وہ جس نے میرے نام پر عہد کیا پھر وعدہ خلافی کی۔دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی کو مزدور کیا، پھر اس سے کام تو پورا لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی‘‘۔ (رواہ البخاری،۲۲۷۰) یعنی اس سے اپنی مرضی کا کام تو کروا لیا، مگر اس کی مزدوری ادا نہ کی، یا اس میں کمی یا کٹوتی کر دی۔
اسلام نے آجر اور اجیر دونوں کے حقوق رکھے ہیں، اور ان کی حفاظت سے بہترین اجارہ قائم ہوتا ہے۔اس اجارے کے لیے بنیادی رہنمائی اللہ نے فرمائی ہے:
’’لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے، اس میں تمھاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو‘‘۔ (الاعراف،۸۵)
یعنی اپنے معاملات کو عادلانہ طریقے سے انجام دو۔اور ان کے حقوق میں کمی کر کے ان پر ظلم نہ کرو اور زمین میں فساد نہ کرو۔
اسلام میں کمائی کرنے کی اہمیت
اسلام میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے معاش اختیار کرنا اور ہاتھوں سے محنت کی کمائی کو دوسروں پر انحصار کرنے، یا دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی بہ نسبت پسند کیا گیا ہے۔محنت کی کمائی بہترین کمائی ہے، رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’کسی شخص نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کھانا کبھی نہیں کھایا،اور اللہ تعالیٰ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھاتے تھے‘‘۔ (رواہ البخاری،۲۰۷۲)
آپؐ نے فرمایا: ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ (اوپر والا ہاتھ دینے والا اور نیچے والا لینے والا ہے)‘‘۔ (صحیح النسائی، ۲۵۴۵)
اسلام میں اجیر کے حقوق
جس شخص کو اجرت یا ملازمت پر متعین کیا جائے اس کے کچھ حقوق ہیں جن کا التزام کرنا ضروری ہے، اور اس سے آجر اور اجیر کے درمیان مضبوط رشتہ استوار ہوتا ہے۔
۔ اجیر اگر کام پر موجود ہے ، لیکن کام میں کمی بیشی ہو جاتی ہے تو اسے دونوں جانب سے گوارا کیا جائے گا۔
۔ اگر اجیر سے گھر کا معمولی نقصان ہو جاتا ہے، جیسے برتن ٹوٹ جانا یا کھانا گر جانا وغیرہ تو ایسے معاملات میں صرف ِ نظر کیا جائے گا، اور اس سے تاوان وصول نہیں کیا جائے گا۔البتہ قصداً نقصان کرنے پر وہ ذمہ دار ہو گا۔امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ جو چیز نقصان ہوئی وہ اس کے ہاتھ میں امانت تھی اور اگر امانت ضائع ہو جائے تو اس کا تاوان اس پر نہیں ہے۔(دیکھیے:اسلامی قانونِ محنت و اجرت،مولانا مجیب اللہ ندوی)
معاہدہ کے اصول
۱۔ کام کی نوعیت واضح کرنا: سب سے پہلے آجر اس بات کو پیشِ نظر رکھے کہ کسی ملازم یا مزدور سے اس کی استطاعت سے بڑھ کر کام نہ لے۔دورانِ ملازمت اس کے آرام (سایہ، پنکھا، پانی وغیرہ) اور نماز کی ادائیگی کا خیال رکھے۔اور اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی خدمت نہ لے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اس پر وہ بار نہ ڈالو جو وہ اٹھا نہیں سکتے، اور اگر ایسا بار ڈالو تو ان کی مدد کرو‘‘۔ (رواہ البخاری،۱۳۶۰)
۲۔ اجرت طے کر نا: آجر کسی اجیر سے اجرت اور معاوضہ طے کیے بغیر کام نہ لے۔رسول اللہ ؐ نے ایسے اجارے سے منع فرمایا جس میں اجرت کا تعین نہ کیا گیا ہو۔
۳۔کام کا وقت طے ہو: یعنی یہ کام کتنے دن یا کتنے گھنٹے انجام دینا ہو گا۔اور اس دوران اسے کیا سہولت حاصل ہو گی۔ اسے کتنی چھٹی ہو گی اور اس کی مرضی کا خیال کیسے رکھا جائے گا۔
۴۔ کام کی تکمیل پر اجرت کی ادائیگی: یعنی کام مکمل ہو جانے پر جلد از جلد اس کی اجرت اجیر کے حوالے کر دی جائے، اور اس میں تاخیر یا تأجیل نہ کی جائے۔
حضرت موسیٰؑ کے مدین میں اجرت پر آٹھ یا دس سال رہتے ہوئے جو معاملہ طے ہؤا تو حضرت شعیب نے موسیٰؑ سے فرمایا: ’’میں تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا‘‘۔(القصص،۲۷)
اور حضرت موسیٰؑ نے بھی ابتدائے معاملہ ہی میں وضاحت فرما دی: ’’ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پوری کر دوں اس کے بعد پھر کوئی زیادتی مجھ پر نہ ہو‘‘۔(القصص،۲۸)
اجیر کی ذمہ داریاں
۔ اجیر یا ملازم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ذمہ لیے گئے کام کو بخیر و خوبی انجام دے، اور جو شرائط طے ہوئی ہیں ان کے مطابق یکسوئی سے کام کرے۔
۔ اپنا کام اخلاص سے انجام دے۔
۔ اپنے کام کی جگہ پر افراد خانہ یا مالکوں کے رازوں کی حفاظت کرے۔
۔ اس جگہ کی جتنی چیزیں اس کے زیر ِ استعمال ہیں ان کی حفاظت اور ان کا خیال۔
۔ کام کی ادائیگی میں امانت کا خیال۔
اجیر کے حقوق کی حفاظت کے فوائد
۔ اجیر اور مزدور یا ملازم کے حقوق جس قدر آسانی سے اسے حاصل ہوں گے وہ اس قدر اپنے کام کو دل لگا کر انجام دے گا جو آجر یا مالک کے حق میں بھی بہتر ہے۔ اس طرح اس کے مال کی حفاظت بھی ہو گی اور اس کی افزائش ہو گی۔
۔ مزدور اور اس کا کنبہ مضبوط ہو گا، اور ہاتھ پھیلانے والوں میں کمی ہو گی، اس طرح معاشی استحکام پیدا ہو گا۔
۔جب مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ہو گا تو معاشرے میں محنت کی کمائی کرنے والے ہاتھوں میں اضافہ ہو گا۔ اس طرح اجیر اور اس کے کنبے کی حالت بہتر ہو گی اور نہ صرف مانگنے والوں میں کمی ہو گی بلکہ معاشرے سے چور اچکے، جیب کترے اور دیگر جرائم میں ملوث افراد میں کمی ہو گی۔
اجیر کے اخلاقی اوصاف
۔ اجیر یا مزدور اپنے آجر سے مخلص اور اس کا خیر خواہ ہو۔
۔کام کو قوت کے ساتھ انجام دے، ٹال مٹول نہ کرے۔
۔مالک اور آجر کی امانتوں کا خیال رکھے۔
۔ کام کے دوران استعمال ہونے والے وسائل کی حفاظت کرے۔
۔کام کو ادھورا نہ چھوڑے اور نہ بلا ضرورت رخصت لے۔
۔ معاہدے میں طے شدہ تعطیلات سے زیادہ چھٹی نہ کرے۔ اگر اسے اچانک چھٹی کرنی ہو تو بروقت آگاہ کرے۔
آجر اور اجیر کا بہترین تعلق
ْآجر اور اجیر دونوں کو ان کی ضرورتوں نے ایک معاہدے میں جکڑ دیا ہے، ایک کی ضرورت خدمت یا کام ہے اور دوسرے کی ضرورت مزدوری واجرت، لہٰذا ان میں سے کسی پر بھی دوسرے کا احسان نہیں ہے، بلکہ دونوں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایک معاہدے سے منسلک ہیں۔
اسلام نے مذہب اور جنس کی تخصیص کے بغیر آجر اور اجیر کے حقوق بیان کیے ہیں، اور آجر اور اجیر اور مالک اور مزدور کے لیے واضح ہدایات دی ہیں ،کہ : ’’مزدور اپنے مالک کی خیرخواہی میں کام کرے، اور اسے بہترین طریقے سے مکمل کرے، اور اگر مالک نہ بھی دیکھے تو اسے اللہ کی نگاہ محسوس ہو۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ جب کوئی کام کرے تو اسے اچھے طریقے سے انجام دے‘‘۔(صحیح الجامع،۱۸۸۰، البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
اور آجر اور مالک کے بھی ذمہ ہے کہ وہ مزدور کو اس کے مادی فوائد اور معنوی حقوق بغیر حقارت اور تذلیل کے ادا کرے۔آجر اپنے اجیر سے حقارت اور برائی سے پیش نہ آئے بلکہ اس سے رحم اور شفقت کا معاملہ کرے۔اور اس کی اجرت ادا کرنے میں جلدی کرے، اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے، یعنی اجرت فوراً ادا کر دے۔
ہنگامی ضرورتوں میں مزدوروں کی کفالت
زیر دست ملازموں اور اجیروں کے حالات میں نا ہمواری بھی آتی ہی رہتی ہے، کبھی صحت کے مسائل، کبھی مالی نقصانات، اور کبھی افرادِ خانہ کے طبی، معاشی یا تعلیمی مسائل، کبھی خوشی یا غم کے مواقع۔ایسی حالات میں انہیں دوسروں سے مدد لینا پڑتی ہے۔آجر کی ذمہ داری ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق ان کی مدد کرے۔حضرت عمر بن عبد العزیزؓ نے ہدایت جاری کی کہ جس کا مکان جل جائے، یا سیلاب آ جائے یا بچوں کی پرورش کے لیے مدد کا طالب ہو، اس کی مدد کی جاے۔اور جو شخص کماتا ہو مگر اس کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں، اور خستہ حال رہتا ہو اس کی بھی مدد کی جائے۔
برے آجر کے لیے وعید
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’ماتحتوں سے بدخلقی اور بدمعاملگی کرنے والے جنت میں نہیں جائیں گے‘‘۔ (المسند لشعیب،۱۳)
آخرت میں جو لوگ رسول اللہ ؐ کے سایہِ عاطفت سے محروم ہوں گے ان میں وہ شخص بھی ہو گا: ’’جس نے کسی مزدور کو اجرت پر رکھا ، پھر اس سے پورا کام لیا مگر اسے اجرت ادا نہ کی‘‘۔(البخاری، ۲۲۲۷)
تقرب الی اللہ کا ذریعہ
رسول اللہ ؐ نے سب انسانوں حتیٰ کہ حیوانوں کے ساتھ بھی رحم کی تلقین فرمائی ہے۔فرمایا: ’’رحم کرنے والوں پر رحمان رحم فرماتا ہے۔زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘۔ (رواہ الترمذی)
مزدور اور خادم بھی ان میں شامل ہیں، پس ان سے رحم اور شفقت کا سلوک کرناچاہیے۔آپؐ نے خادم سے اس کی استطاعت سے بڑھ کر کام نہ لینے کی تلقین کی ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’تو نے اپنے خادم کے کام میں جس قدر تخفیف کی (اسے ہلکا کیا) تو اس کا اجر تجھے اپنے میزان میں (قیامت کے دن) ملے گا‘‘۔ (رواہ ابن حبان)
فرمایا: ’’اگر تمہارا خادم تمہارے لیے کھانا بنا کر لائے تو اسے ساتھ بٹھا کر نہ کھلا سکو تو اس میں سے ایک دو لقمے اسے دے دو، کیونکہ اسے تیار کرتے ہوئے اس نے آگ کی گرمی اور مشقت برداشت کی ہے‘‘۔(رواہ البخاری،۲۵۵۷)
رسول اللہؐ نے اجیر کو اس کا حق (اجرت) دینے کو افضل عمل شمار کیا ہے جس کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔اس کی شاہد رسول اللہ ؐ کی وہ حدیث ہے جس میں قدیم زمانے کے تین افراد کا ذکر کیا گیا، جو غار میں تھے اور ایک پتھر نے سرک کر غار کا منہ بند کر دیا تھا۔اس وقت ان تینوں نے اپنے نیک عمل میں سے افضل عمل کے ذریعے سے اللہ سے دعا کی تھی کہ وہ انھیں اس مشکل سے نکال دے۔ان تینوں میں سے تیسرا ایک امین تھا اور اپنے مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کرتا تھا۔اور وہ ماضی کی یادوں میں جھانکتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کچھ یوں فریاد کناں تھا: ’’اے اللہ! میں نے اجرت پر کچھ مزدور رکھے تھے، اور ان سب کو ان کی پوری مزدوری دے دی تھی، سوائے ایک مزدور کے، جو اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ پس میں نے اس کی اجرت کو تجارت میں لگا دیا اور اسے نفع ہوتا رہا، یہاں تک کہ وہ ایک مدت بعد میرے پاس آیا اور بولا: اے عبد اللہ، میری اجرت مجھے دے دے۔تو میں نے اس سے کہا: ’’یہ جو کچھ تم اونٹ، گائے اور بکریاں اور غلام دیکھ رہے ہو، یہ سب تمہاری اجرت (کا نفع)ہے۔اس نے کہا: اے عبد اللہ! مجھ سے مذاق نہ کرو۔ میں نے کہا: میں مذاق نہیں کر رہا۔ پس اس نے سب کچھ لیا اور مال مویشی ہانکے اور انہیں لے کر چلا گیا، اے اللہ! اگر یہ سب میں نے تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمیں اس سے نکال جس مصیبت میں ہم پھنس گئے ہیں، پس پتھر راستے سے ہٹ گیا ، اور وہ باہر نکل آئے‘‘۔ (رواہ البخاری،۲۲۷۲)
ہمارے گھروں میں مختلف کام کرنے والے اور کرنے والیاں خدمت گار اور ہمارے مدد گار ہیں، جن کی مدد سے ہم اپنے کاموں کی تکمیل کرتے اور گھر کا نظام چلاتے ہیں، ان کے ساتھ نرمی اور تواضع اور ہمدردی سے پیش آنا اور ان کی عزت ِ نفس کا خیال رکھنا ہی اسلام کا طریقہ اور اس کی ثقافت ہے۔
اپنے ملازمین اور خدمت گاروں اور اجیروں کے اخلاق اور ان کے معاملات کی نگرانی کرنا، انہیں سچائی، راست بازی، امانتوں کا خیال رکھنے ، نماز پڑھنے، مناسب لباس پہننے ،گھر وں کے اندر جھانکا تاکی سے گریز، گھروں کے رازوں کی حفاظت اور ان کے معاملات کی پردہ داری کی تعلیم دینا بھی اہم ہے۔یہ سب نہ صرف ان کی دنیا و آخرت سنوار دے گا بلکہ اپنے کام سے لگاؤ اور آجر سے اخلاص کو بھی بڑھائے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here