اتوار کی قدر کوئی ہمارے دل سے پوچھے ۔ یہی وہ دن ہے۔
؎ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے
یقین کیجیے کہ اس دن کا انتظار پیر کے دن سے شروع ہو جاتا ہے ۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ہمارے ایسے بیچارے ملازمت پیشہ خدا کے بندے اپنی ذاتی زندگی کا دن تمام ہفتہ میں صرف اتوار ہی کو سمجھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ باقی تمام دن اس طرح گزرتے ہیں کہ ہم کو اپنے انسان ہونے کا ایک دفعہ بھی احساس نہیں ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مشین ہے ۔ اگر لکھنے والا بٹن دبا دیا گیا تو لکھ رہے ہیں ۔ بیٹھنے والا پرزہ چل گیا تو بیٹھے ہیں ۔ مختصر یہ کہ صبح ہوتے ہی دفتر آنا، دفتر میں ایک مقررہ خدمت انجام دینا ، شام کو دفتر سے جانا ،سب کچھ اسی طرح ہوتا ہے کہ :
؎ اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
کی ایک متحرک تصویر معلوم ہو تے ہیں ۔ ہم نے کبھی غور نہیں کیا کہ علاوہ اتوار کے ہم انسان بھی رہے ہیں یا نہیں ۔ زندگی کے دن شمار کرنے والے جو چاہیں شمار کریں لیکن ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ بس اتوار کا دن ہی ہماری زندگی کے دنوں میں شمار کیے جانے کے قابل ہے۔ اگر بجائے بہادر شاہ ظفر کے غالب صاحب قبلہ ہم کو یہ دعا دیتے کہ:
تم سلامت رہو ہزار برس ؎
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
تو ہم ان سے کہتے کہ قبلہ عالم یہ دعا آپ ہی کو مبارک رہے ہم کو تو ایسی دعا دیجیے کہ ہماری زندگی میں چاہے کچھ تخفیف کردی جائے لیکن ہر دن اتوار بن جائے یا کم از کم ہفتے میں دو تین مرتبہ تو اتوار آیا کرے۔ یہ اتوار ہی کا دن تو ہے کہ اپنی خوشی کھانا کھائیے، اپنی خوشی نہائیے ، اپنی خوشی بال بنوائیے، اپنی خوشی سیر کو جائیے اور اگر کہیں اپنی خوشی سو رہے تو تمام کام آئندہ اتوار تک ملتوی ۔
ہم تو تمام ہفتہ یہ کرتے ہیں کہ بالوں پر ہاتھ پھیرا اور زیر لب کہہ دیا ، اب کے اتوار کو بنوائیں گے ۔ جوتے پر نظر پڑی اور طے کرلیا ، اب کی اتوار کو پالش ہو گی ۔ کپڑوں کو دیکھا اور ارادہ کر لیا کہ اب کی اتوار کو نہا کر بدلیں گے۔ کسی نے نہ ملنے کی شکایت کی تو وعدہ کرلیا کہ اب کی اتوار کو حاضر ہوں گا ۔کوئی مر گیا توتعزیت کے لیے بھی اتوار کادن مقرر کیا گیا ۔ کسی نے ہم سے ملنے کو کہا تو اتوار کا دن دے دیا ۔ کہیں سفر پر جانا ہے تو اتوار کے دن کی ٹھہری ۔ شکار کو دل چاہا تواتوار پر اٹھا رکھا ۔ غرضیکہ تمام ہفتہ جو جو باتیں ہم کو اپنی زندگی کے متعلق یاد آئیں ، ہم نے سب کو اتوار کے سپرد کردیا، لیکن ہم کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ اسی طرح بیگم صاحبہ نمک ختم ہونے پر کپڑے پھٹنے پر ، زیور ٹوٹنے پر ، غرضیکہ ہر بات پر اتوار کو یاد کرتی ہیں ۔ وہ تو کہیے اس دن ہمارے دفتر کی طرح ہسپتال و کچہریاں ، ڈاک خانہ ، مدرسے وغیرہ سب بند ہوتے ہیں ، ورنہ بچوں کو ہسپتال لے جانا ، اسکول میں نام لکھوانا وغیرہ بھی اسی دن پر اٹھا رکھا جاتا اور اب شکر ہے کہ ہم کو اس سے ایک طرح کی یکسوئی حاصل ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اتوار کے دن کی مشغولیتیں معمولی دنوں سے دگنی اور چوگنی ہوتی ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہم اتوار کے عاشق صرف اس لیے ہیں کہ وہ تمام مشغولیتیں ہم کو اپنی ذاتی زندگی سے متعلق معلوم ہوتی ہیں باقی دنوں میں تو نہیں معلوم ہم کس طرح اور کس کے لیے جیتے ہیں۔
٭…٭…٭