بتول جولائی ۲۰۲۱ابتدا تیرے نام سے - بتول جولائی ۲۰۲۱

ابتدا تیرے نام سے – بتول جولائی ۲۰۲۱

قارئین کرام! حج کا مبارک مہینہ شروع ہونے کو ہے ۔ ان دنوں حجاج کے قافلوں کی تیاری ،روانگی اور رونقیں عروج پر ہوتی تھیں۔ ابھی تک محدود پیمانے پر ہی حج کا دوبارہ آغاز ہو سکا ہے۔ اللہ تعالیٰ خیرو عافیت رکھے تو انشا ء اللہ اگلے سال معمول کی سرگرمی ہو گی۔
گھوٹکی میں ہونے والے ریل کے حادثے میں بہت سا جانی نقصان ہؤا۔ اللہ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر دے۔ دنیاجبکہ تیز رفتار ٹرینوں سے بھی بڑھ کر سپر سونک مقناطیسی ٹرینوں کو ممکن بنارہی ہے ، ہم ابھی تک دو صدی پرانے انگریز کے دیے نظام کو ہی گھسیٹ رہے ہیں بلکہ اسے بھی ٹھیک سے سنبھال نہیں پارہے۔ آج کے دور میںمعاشی ترقی کے منصوبے معیاری ریلوے کے نظام کے بغیر چل ہی نہیں سکتے۔موجودہ حکومت کو اس پر سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی۔ ریل حادثے کے وقت عوامی جذبہِ خدمت کی بہترین مثالیں سامنے آئیں۔’’الخدمت‘‘ ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے پہنچی، اردگرد کے علاقوں سے لوگوں نے رضاکارانہ پہنچ کر مصیبت میں پھنسے ہوئے مسافروں کی ہر ممکن خدمت کی۔ ہم عموماً معاشرتی بگاڑ اور بے حسی کا رونا روتے ہیں مگربے لوث جذبوں کے یہ مظاہر اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارے معاشرے میں خیر وافر موجود ہے۔
پارلیمنٹ میں بجٹ سیشن کے پہلے دن وہ طوفانِ بدتمیزی مچا جس نے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہیں ہم نے اپنے ووٹوں سے سرفراز کرکے ملک کے سب سے اعلیٰ ایوان میں بھیجا ہے تاکہ قوم کی تقدیر بدل سکیں۔ جو لوگ قانون سازی کے اتنے معزز اور باوقار منصب پہ اس اخلاق اور تہذیب کا مظاہرہ بھی نہیں کرسکتے جس کی توقع ایک عام شخص سے کی جاتی ہے، وہ لوگوں کی رہنمائی کیا کریں گے ۔ جو اپنے حالات نہیں بدل سکتے لوگوں کے حالات کیا بدلیں گے۔کیا اپوزیشن کیا حکومتی پارٹی، سبھی نے اچھی طرح ثابت کیا کہ ان میں کوئی فرق نہیں،سب کا مقام ایک ہی ہے،محلے کے لونڈوں کی طرح بدتمیزی اور لڑائی جھگڑا۔اپوزیشن نے تعمیری تنقید تو دور کی بات، بے ڈھنگی تنقید یا مخالفت برائے مخالفت کا بھی تکلف نہیں کیا بلکہ پڑھے بغیرہی بجٹ کی کاپیاں اٹھا اٹھا کر پھینکیں۔ دوسری طرف کون سے کوئی سلجھے ہوئے لوگ تھے، بڑے بڑے نام بڑی بڑی ڈگریاں، لمبے لمبے تجربے مگر کسی نے یہ بنیادی تہذیب گھر میں نہ سکھائی تھی کہ بداخلاقی کا جواب بد اخلاقی سے دینا ضروری نہیں ، جواباً خاموشی اور شائستگی سے انسان کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔نتیجہ یہ کہ خوب تماشا لگا اور پاکستان میں لیڈر شپ کی سطح پراخلاق، تہذیب، وقار،انسانیت ،جمہوری اقدار سب کے مستقبل سے مایوسی سی ہوئی۔اس پر مستزاد، اپوزیشن کی طرف سے مخالفت کا اصل حال اس وقت کھلا جب بجٹ کی منظوری کے دن نون لیگ کے چودہ ارکان ہی ایوان سے غائب تھے تاکہ حکومت ’’سہولت‘‘ سے اس بجٹ کو پاس کروا سکے جس کی کاپیاں احتجاجاً پھاڑی گئی تھیں۔
کینیڈا میں ایک خوبصورت ، تعلیم یافتہ، خوشحال ،خوش باش پاکستانی کنبہ، ایک سفید فام دہشت گرد کی وحشت کی بھینٹ چڑھ گیا۔اس روح فرسا واقعے نے مغربی ممالک خصوصاً کینیڈا میں مقیم مسلمانوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔آخر وہ کون سادن ہو گا جب ان سفید فام نسل پرستوں کے زیر زمین گروہوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا، اس آپریشن کا کیا نام ہوگا جو اسلامو فوبیا کے شکار دہشت گردوں کے نیٹ ورک پکڑنے کے لیے شروع کیا جائے گا۔کس دن ایسے مجرموں کے بھی بچپن کو کھنگالا جائے گا، ان کے گھروںسے قابل اعتراض لٹریچر بر آمد کیا جائے گا جو انہیں دہشت گردی کی ترغیب دیتا رہا، ان کے ہیروز کو بھی نشان زد کیا جائے گا جن سے یہ دہشت گردی کی ’’انسپی ریشن‘‘ لیتے رہے۔یہ غنیمت ہے کہ پاکستانی سفارت خانے کے زور دینے پر اس واقعے کو دہشت گردی کہا گیا ورنہ اس دہشت گردی کے مجرم کو ذہنی انتشار کا شکار کہہ کر معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے۔ ہر کچھ دن کے وقفے سے ان نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں پر امن مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی ایسا ہی وحشیانہ مظاہرہ ہوتا ہے اور اس کے سیاسی ، نسلی یا مذہبی تناظر سے قطعاً پرہیز کرتے ہوئے اسے بس جرم کے ایک واقعے سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔جبکہ اس کے بر عکس ہمارے ملک میں کسی معمولی سے جرم کو بھی مغربی میڈیا کسی نہ کسی بڑے منظر نامے سے جوڑ کر اپنی مرضی کا بیانیہ پیش کرتا ہے۔
گھریلو تشدد کے نام سے ایک بل پارلیمنٹ سے منظور ہو کر آئین کا حصہ بننے جا رہاہے ۔یہ بل گھر کے افراد میں باہم جسمانی، جذباتی اور معاشی تشدد کو روکتا ہے۔گھر کے افراد میں والدین اور اولاد بھی ہیں ، شوہر بیوی بھی اور دیگر رشتہ دار بھی۔ یہ بل جسمانی بدسلوکی کو منع کرتا ہے جس کے تحت عملاً اپنے بچے کو نہ صرف تھپڑ لگانابلکہ مارنے کی دھمکی دینا بھی جرم تصور ہوگا ۔ حسد و رقابت کی بنا پرگھر کے کسی فرد کی پرائیویسی، آزادی اور تحفظ کی خلاف ورزی کرنا ایک عجیب سی شق ہے جس میں

حسد و رقابت کا تعین نجانے کیسے ہوگا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ جوائنٹ فیملی سسٹم کو سامنے رکھ کر شامل کیا گیا ہے جبکہ یہ سسٹم تو ہے ہی رضاکارانہ بنیادوں پر، اس میں توایک دوسرے پہ کیس کرنے سے بہت پہلے گھر الگ ہو جاتے ہیں۔اسی طرح گھر کے کسی فرد کی توہین کرنا یااس کا مذاق اڑانا بھی قابل سزا جرم شمار کیا گیا ہے ۔ان جرائم کی سزا چھے ماہ سے تین سال قید اور بیس ہزار سے ایک لاکھ روپیہ جرمانہ تک رکھی گئی ہے۔میاں بیوی میں اختلافات کی صورت میں قرآن مصالحت کا ایک واضح طریقہ کار متعین کرتا ہے۔ ان معاملات میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے سے گھروں کے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ جو والدین اولاد پر، اولاد والدین پر، شوہر بیوی پر اور بیوی شوہر پرتھانے اور پولیس کی کارروائی کر ڈالیں وہ دوبارہ ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں۔ معاشرتی قوانین سمیت کوئی بھی قانون بناتے ہوئے ہم آئین کے تحت اس بات کے پابند ہیں کہ وہ قرآن و سنت سے متصادم نہ ہوں۔ حیرت ہے کہ ایک طرف تو وزیر اعظم مغربی تہذیب کے اثر کی مذمت کرتے ہیں اورمغربی میڈیا کے سامنے ثقافتی استعماریت (کلچرل امپیریل ازم) کی مخالفت بلندوبانگ لہجے میں کرتے ہیں ، دوسری طرف ان کی اپنی ہی جماعت مغربی طرز کے قوانین ہمارے معاشرے پہ لاگو کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ والدین اور اولاد ، شوہر بیوی ، اور دیگر افرادِ خانہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہمارے بنیادی دینی ماخذات میں بہت سی ہدایات موجود ہیں۔ گھریلو رویوں کا بل انہی ہدایات کی روشنی میں بننا چاہیے بلکہ بہترین تو یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے جو ادارہ خاص طور پہ اسی مقصد کے لیے موجود ہے، اس کی منظوری کے بعد ایسے بل پارلیمان میں لائے جائیں۔
وزیر اعظم نے مغربی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک بیان دیا جس پر شور مچ گیا۔ ان سے بچیوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی بدسلوکی پرسوال کیا گیا تھا جس کے جواب میں حکومتی اقدامات کا ذکر کرنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ خواتین کا نامناسب کپڑے پہننا عورتوں اور بچیوں کے خلاف جرائم کا سبب بنتا ہے کیونکہ مرد روبوٹ نہیں ہوتے، وہ کم لباسی سے متاثر ہوتے ہیں۔اصولی طور پر ان کی بات درست ہے اور پاکستان میں بھی کم لباسی کا رجحان جدید تعلیمی اداروں میں بڑھ رہا ہے۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہے کوئی مغربی ملک نہیں جہاں کم لباس عورتیں سڑکوں پارکوں اور ساحل سمندر پر گھومتی ہوں۔ پاکستان میںاسی فیصد خواتین سر ڈھانپتی ہیں اور باقی ساترقومی لباس پہنتی ہیں، یہاں ان جرائم کی اور بھی ہیں جن میں سب سے پہلی اور بڑی وجہ انٹرنیٹ پر موجود فحش ویب سائٹس ہیں جن کو ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ ہماری بچیاں اسی لیے دن بدن غیر محفوظ تر ہوتی جا رہی ہیں۔ چند ماہ پیشتر ایک بیان میں وزیر اعظم نے کہا تھاکہ بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات کی وجہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی ہے جو بھارتی اور ہالی ووڈ کی فلموں کی وجہ سے ہے۔ یہ قدرے بہتر تشخیص ہے مگر حیرت ہے کہ وہ سب سے بڑی وجہ یعنی فحش ویب سائٹس ،بلیو فلمیں اور سوشل میڈیا کے فحش مواد کو کیوں بھول گئے جو اس وقت پاکستانی عوام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا سب سے بڑا سبب بنا ہؤا ہے اور نوجوانوں کو اخلاقی طور پر دیوالیہ کررہا ہے۔سانحہ قصور کے بعد بلیو فلموں کے ایک بڑے نیٹ ورک کا بھی انکشاف ہؤا تھا جس پر اس لیے ہاتھ نہیں ڈالا گیا کہ اس کے سر پر نون لیگ کے ایک وزیر کا دستِ شفقت تھا۔وزیر اعظم اگر فحاشی کے ان اثرات سے بخوبی آگاہ ہیں تو اگلا منطقی سوال ان سے یہ بنتا ہے کہ پھر آپ نے فحش مواد کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے ہاں دیگر معاشروں کی طرح ڈسکو اور نائٹ کلب تو ہیں نہیں، لہٰذا فحاشی پھیلے گی تو اس کے نتیجے میں عورتوں پر حملے ہوں گے۔ اس بات سے ان کا مطلب یقیناً یہ نہیں کہ ہمارے ہاں بھی ڈسکو اور نائٹ کلب ہوں تاکہ بدکردار ی کا غبار وہاں نکلے۔ ان کا مطلب یہی تھا کہ فحاشی نہیں بڑھنی چاہیے۔ توفحاشی کا لیول بڑھنے کا سب سے پہلا ذریعہ فحش مواد ہے جس کے بارے میں انہیں کوئی فیصلہ کرنا چاہئے تھا۔غربت، نشہ، آوارگی اور عیاشی اس کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ وقت پر شادی اور نکاح کی ترغیب دی جائے ، اسے آسان بنایا جائے تاکہ گناہ کی نوبت نہ آئے۔ مجرموں کو سرعام اور کڑی سزائیں نہ ملنا اس جرم کے بڑھنے کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔وزیر اعظم خود اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسے قبیح فعل کے ہر مجرم کواسلامی طریقے کی عبرت ناک اور فوری سزا ضرور ملے۔
عید الاضحیٰ کی مبارک باد کے ساتھ اجازت،

دعاگو، طالبہِ دعا
صائمہ اسما

مبارک باد
مدیرہ ماہنامہ بتول اور ممبر ادارہ بتول محترمہ صائمہ اسما نے علوم ابلاغیات کے میدان میں پی ایچ ڈی مکمل کی ۔ ادارہ ان کو اس کامیابی پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہے۔ ہم دعاگو ہیں کہ ان کے اس علم سے ’’بتول‘‘ اور ادارہ بتول کے نیک مقاصد کو مزید فائدہ پہنچے آمین۔(ثریا اسما )

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here