ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشرِ خیال – بتول فروری ۲۰۲۳

ماہنامہ ’’ چمن بتول‘‘ شمارہ جنوری2023ء پیش نظر ہے ۔اس پہ اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہوں۔ اس دفعہ ٹائٹل بڑازبردست آرٹسٹک ہے۔ خزاں اور موسم سرما کا منظر بڑا دلکش دکھایا گیا ہے کسی اچھے آرٹسٹ کا ترتیب دیا ہؤا ٹائٹل نظرآتاہے۔
’’ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما نے ایک خوبصورت دعا کے ساتھ نئے سال کے پہلے اداریے کا آغاز کیا ہے ۔ یہ جملے خوب ہیں ’’ نئے سال کا آغاز اس دعا کے ساتھ کہ رب ِ کریم اس سال کوہماری ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میں خیر وعافیت کا سال بنائے ۔ زوالِ امت کے اس گنبدبے در میں کوئی امید کی کرن دکھائی دے ۔ کرہ ارض پر بسنے والوں کو فساد سے امن کی طرف ،گمراہی سے ہدایت کی طرف اورنفرت و انتشار سے سکون و سلامتی کی طرف راستہ دکھائے ‘‘۔(آمین)
آپ نے گوادرکے باسیوں کے حق میں بھی زبردست آواز بلند کی ہے ۔
’’ حکمت سے دعوت‘‘ (ڈاکٹر میمونہ حمزہ) ڈاکٹر صاحبہ نے قرآن و حدیث کے حوالے سے دعوتِ دین کے بہترین اصول بتائے ہیں کہ بھلائی کی طرف دعوت اور برائیوں سے روکنا ہرمومن کافریضہ ہے لیکن یہ کام نہایت دانائی اورعمدہ نصیحت کے ذریعہ کیا جائے ۔ نرمی کے ساتھ گفتگوکی جائے نصیحت کرنے میں خلوص اور خیر خواہی بہت ضروری ہے ۔ دعوت دینے والے کاخود بھی با عمل ہونا ضروری ہے ۔
’’ برکت کیا ہے اور کیسے ملتی ہے ‘‘ (ندا اسلام) آپ نے اپنے اس مضمون میں واضح کیا ہے کہ زندگی میں ہر کام نظم و ضبط اور ترتیب سے کرنا چاہیے اس طرح اس میں برکت ہوتی ہے بے ترتیب زندگی الجھنوں کو جنم دیتی ہے اگر علم میں برکت نہ ہو تو وہ بے کار ہے ۔ مال میں برکت سخاوت اور فیاضی کو جنم دیتی ہے ۔ اللہ کی جتنی فرمانبرداری کی جائے، اُس کا شکر ادا کیا جائے ، عمل اور قول و فعل میں سچائی پیدا کی جائے ۔ اخلاص ہوتو یہ کچھ مل کر بے انتہا برکت کا باعث بنتا ہے ۔
’’نبی اکرمؐ کے سیاسی اصول‘‘ ( ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی) اس مضمون میں رسول پاکؐ کی سیاست کے سنہری اصول بیان کیے گئے ہیں۔ آپؐ نے نہایت حکمت عملی سے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدے کیے، فتوحات کاسلسلہ جاری رکھا ۔ غیر مسلموں کے ساتھ نہایت اعلیٰ سلوک روا رکھا۔ صلح نامہ حدیبیہ ، فتح مکہ ، مواخاۃ، تجارت کا فروغ ، خبررسانی کابہترین سلسلہ قائم کیا ۔ قانون کی عملداری ، پاسداری کو ہمیشہ مقدم رکھا۔
حصہ شعر و شاعری، حبیب الرحمن کی خوبصورت غزل سے ایک منتخب شعر
اے مرے ابر معاصی تو مری آنکھوں سے
ٹوٹ کر اتنا برس روح کو جل تھل کردے
صہیب اکرام کی چھوٹے بحر کی غزل سے انتخاب:
آہٹیں ہیں یہاں تعاقب میں
پوچھیے ، کون تھا یہاں آباد
بے نمو موسموں کی ضدمیں صہیبؔ
چل پڑے کرنے گلستاں آباد
شگفتہ ضیا کی طویل خوبصورت نظم۔ جذبات اورکرب کا زبردست اظہار ، امت کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ کر درد میں ڈوبی نظم لکھی ہے ، دلوں کے دکھ اوردرد کا بہتا دریا ۔
چند منتخب مصرعے:
کیا تم درد خریدو گی

ساحل پر وہ شامی بچہ
ننھی زینب اور فرشتہ
غزہ اور کشمیر کا نوحہ
اورسوات کے ننھے شہدا
ڈاکٹر محمد اورنگزیب رہبر کی غزل سے منتخب شعر
رہنمائوں کی نگاہیں تخت پر
اورمخلوقِ خدا نم دیدہ ہے
نیر کاشف کی غزل سے منتخب اشعار:
مچل مچل اٹھے دھڑکن ، دہک اٹھیں رخسار
تری جناب سے کچھ ایسے سلسلے بھی نہیں
تیرے خیال کی خوشبو سے جو مہک جائیں
چمن میں پھول تو ایسے ابھی کھلے ہی نہیں
افسانہ و کہانی’’ ولی ‘‘(قانتہ رابعہ صاحبہ کے قلم کا شاہکار) یہ ہمارے ملک کے ہزاروں گھرانوں کا المیہ ہے کہ گھر کامرد روزی کمانے کے چکر میں غیر ممالک میں محنت مزدوری کی چکی میں پستا رہتا ہے اور بیوی بچے ماں باپ وطن میں اُس کا انتظار کرتے رہتے ہیں ۔ باپ کی غیر موجودگی میں بچے بھی بگڑ جاتے ہیں ۔ پھر المیے جنم لیتے ہیں ۔
’’ جو بھی جینے کے سلسلے کیے تھے ‘‘( فرحی نعیم ) یہ پیغام دیتی ہوئی کہانی کہ بیٹیاں سب کو پیاری ہوتی ہیں ، گھر بھر کی لاڈلی ہوتی ہیں ۔لیکن شادی کے بعد جب سسرال سدھار جاتی ہیں تو کسے معلوم وہاں پیار ملے یا سختیاں اور تکلیفیں ، یہی ہماری مشرقی دلہنوں کا المیہ ہے کاش ہمارے ہاں ہر گھر میں ساس بہو، بھابی اورنند وں میں پیار محبت اورخلوص کارشتہ بنا رہے ۔
’’بکھرے ہوئے موتی‘‘ ( عالیہ حمید ) بچوں والی مطلقہ یا بیوہ لڑکی کی شادی پر یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر لیتا ہے کہ نہ جانے سسرال والے دلہن کو اُس کے بچوں کے ساتھ قبول کرتے ہیں یا نہیں ۔ یہی الجھا ہؤا مسئلہ اس معاشرتی کہانی میں بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے ۔
’’ پیاری‘‘( بشریٰ ودود) یہ سبق سکھاتی ہوئی کہانی کہ ہمیں لڑکیوں کو سودا سلف لینے کے لیے اکیلے دکانوں پر نہیں بھیجنا چاہیے ماحول بڑا خراب ہے ۔
’’ پسِ آئینہ کوئی اور ہے ‘‘(شہلا خضر) یہ کہانی اس المیے کو بیان کرتی ہے کہ بعض والدین اپنی نا سمجھی سے بیٹوں کو بیٹیوں کی طرح پالتے ہیں اور وہ بالکل لڑکیوں کی طرح بن جاتے ہیں ۔ پھر المیے جنم لیتے ہیں ، والدین پریشان ہوتے ہیں۔
’’ماتم‘‘( عینی عرفان) غریبوں کی زندگی کی بے بسی اور محرومیوں کو اجاگر کرتی ہوئی ایک کہانی ۔ سیلاب میں کرنٹ لگنے سے اس کا سارا خاندان ہلاک ہوگیا اور وہ خود بھی ایک زندہ لاش بن کے رہ گیا۔
’’ رگوں کا اندھیرا ‘‘ ( ہادیہ جنید) جب کوئی نوجوان نشے کا عادی ہو جاتا ہے تو ساری فیملی غمزدہ ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سب بچوں کو نشے کی لت سے محفوظ رکھے ( آمین ) نشہ انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔
’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘ ( اسماء اشرف منہاس) اب اس کہانی میں ایک المیہ موڑ آیا ہے ۔ بی بی جان کی بیٹی ماریہ اچانک فوت ہو جاتی ہے لیکن بی بی جان نے یہ غم نہایت صبر اورحوصلے کے ساتھ برداشت کیا اور پھر ایک دن اچانک پولیس پون کو گرفتار کرنے آجاتی ہے ۔ کہانی میں دلچسپ موڑ آیاہے ۔ دیکھیں اب آگے کیا ہوتا ہے ۔
’’ تاریخ کی عظیم ہجرت کے سفر پر ‘‘(فریحہ مبارک ) 1947ء میں قیام پاکستان کے موقع پر جب مسلمانوں کو پاکستان کی طرف ہجرت کرنا پڑی تو درد ناک اور المناک داستانوں نے جنم لیا ۔ چند ہفتوں کے اندر لاکھوں مسلمان بے دردی سے شہید کردیے گئے مسلمان خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں ۔ نہ جانے ہندو اور سکھ کیوں انسانیت سے گرگئے، وحشی درندے بن گئے ۔ یہ کہانی ہماری تاریخ کے اس المناک باب کو دہراتی ہے ۔
’’ یاد داشت کا غم ‘‘( بنت ِ عبد القیوم) ایک ہلکا پھلکا مضمون جس میں میاں بیوی کی ہلکی پھلکی نوک جھونک کا ذکرکیا گیا ہے ۔ گھر میں تھوڑی بہت کھٹ پٹ چلتی رہتی ہے ۔
’’تبصرہ کتب‘‘( پروفیسر محمد آفتاب خاں ) آپ نے محترمہ ثریا

بتول علوی کی کتاب ’’بچوں کی جنسی تعلیم اور اسلام ‘‘ پر تبصرہ کیا ہے اس کتاب میں بچوں اور نو عمروں کی اسلامی تعلیم کے مطابق بہت رہنمائی موجود ہے ۔ بلاشبہ ایسی کتب کی اشد ضرورت ہے ۔
ماہنامہ بقعۂ نور کا کردار ‘‘( سامیہ احسن ) اپنے اس مضمون میں محترمہ نے بچوں کے رسالے بقعہ نور میں بچوں کے ادب کے سلسلے میں خدمات کا ذکر کیا ہے ۔ یہ رسالہ ایک عرصہ سے بچوں کے لیے صاف ستھری اصلاحی کہانیاں ، مضامین ، نظمیں ، معلومات پیش کررہا ہے ۔ ہر سال اس کے خاص نمبر بھی بہترین ہوتے ہیں ۔ بچے بڑے سب اسے شوق سے پڑھتے ہیں۔
’’ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ‘‘( ذکیہ فرحت) ٹرانس جینڈر کے بارے میں ایک مفید مضمون ۔ خاص کر نئے ٹرانس جینڈر قوانین کے بارے میں خبردارکیا گیا ہے ۔ یہ جملے قابل غور ہیں ’’ اللہ نے معاشرے میں رشتوں کی زنجیر بنائی ہے ، اگر یہ ٹوٹ گئی تو رشتے بکھر جائیں گے … رشتے ٹوٹنے سے فاصلے بڑھیں گے اور پورا معاشرہ شناخت کے بحران کا شکار ہوجائے گا ‘‘۔ ہمیں اندھا دھند مغرب کی تقلید سے گریز کرنا چاہیے۔
’’ذیابیطس کی خاموش علامات اور بچائو کی تدابیر ‘‘فیصل ظفر کا شوگر کی بیماری کے بارے میں ایک نہایت مفید مضمون ۔ نہایت آسان الفاظ میں اس موذی مرض کی علامات ، وجوہات اور پھر احتیاطی تدابیر پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
گوشہ ِتسنیم ’’ آرام دہ بستر ‘‘بڑے خوبصورت انداز میں ڈاکٹر صاحبہ نے ہماری عارضی نیند( عارضی موت) اور ابدی نیند ( موت) کا احوال بیان کیا ہے ۔ ہمیں اس ابدی بستر کی آرام دہ ابدی نیند کی زیادہ فکر کرنی چاہیے ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اس ابدی بستر اور ابدی نیند کی ہمیں زیادہ تیاری اور فکر کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ اس ابدی نیند کے بعد یوم حشر میں حساب کتاب ہوگا ۔
تمام قارئین اور ادارہ چمن بتول کے لیے اچھی خواہشات۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x