ڈاکٹر مقبول احمد شاہد

قرآن کی اثر انگیزی – بتول دسمبر ۲۰۲۰

قرآن جس زبان میں نازل ہؤا ہے اس کے ادب کا وہ بلند ترین اور مکمل ترین نمونہ ہے۔ پوری کتاب میں ایک لفظ اور ایک جملہ بھی معیار سے گرا ہؤا نہیں ہے۔ ایک ہی مضمون بار بار بیان ہؤا ہے اور ہر مرتبہ پیرایۂ بیان نیا ہے۔ اول سے لے کر آخر تک ساری کتاب میں الفاظ کی نشست ایسی ہے جیسے نگینے تراش تراش کر جڑے گئے ہوں۔ کلام اتنا اثر انگیز ہے کہ کوئی زبان دان آدمی اسے سن کر سر دھنے بغیر نہیں رہ سکتاحتیٰ کہ منکر و مخالف کی روح بھی وجد کرنے لگتی ہے۔ قرآن کی تاثیر میں اس کی پاکیزہ تعلیم اور اس کے عالی قدر مضامین کا جتنا حصہ ہے اس کے ادب کا حصہ بھی اس سے کچھ کم نہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو سنگ دل سے سنگ دل آدمی کا دل بھی پگھلا دیتی تھی۔ جس نے بجلی کے کڑکے کی طرح عرب کی ساری زمین ہلا دی تھی جس کی قوت تاثیر کا لوہا اس کے شدید ترین مخالف تک مانتے تھے اور ڈرتے تھے کہ یہ جادو اثر کلام جو سنے گا بالآخر نقد دل ہار بیٹھے گا۔
اس لیے کفار قریش نے نبی کریمؐ کی دعوت…

مزید پڑھیں

قرآن میں سائنسی حقائق کا بیان -بتول جنوری ۲۰۲۱

قرآن میں کئی مقامات پر ایسے سائنسی حقائق بیان کیے گئے ہیں جنھیں آج سے چودہ سو سال پہلے کا انسان پوری طرح سمجھنے سے قاصر تھا اور قرآن پر ایمان لانے والوں نے انھیں شرح صدر کے ساتھ اس لیے تسلیم کر لیا تھا کہ یہ اللہ کا فرمان ہے اور اس کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد جیسے جیسے انسان کی معلومات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور سائنسی تحقیق نے بہت سے ایسے حقائق پر سے پردہ اٹھایا جو اس سے پہلے مخفی تھے تو ہمیں قرآن کی ان آیات کا مطلب زیادہ وضاحت سے سمجھ میں آنے لگا۔ یہ قرآن کا ایک معجزہ ہے کہ اس نے چودہ سو سال پہلے ہمیں اس کائنات کے بارے میں ایسے حقائق سے آگاہ کیا جو اس وقت کسی انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھے اور پھر خود انسان نے ہی اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے ان حقائق کی صداقت ثابت کر دی۔ ذیل میں اس موضوع پر کچھ مثالیں دی جا رہی ہیں:
حمل کی کم سے کم مدت
قرآن مجید میں بچے کی ماں کے پیٹ میں پرورش اور دودھ پلانے کی مدت (رضاعت) کے بارے میں درج ذیل تین آیات…

مزید پڑھیں

جب قائد اعظم ؒ نے ہمیں راستہ لے کر دیا – بتول اگست ۲۰۲۲ – ڈاکٹر مقبول احمد شاہد

سرسہ سے بیکانیر کے راستے فورٹ عباس پہنچنے کا حال…جب موت چاروں طرف منڈلاتی تھی
ملازمت چھوڑنے کے بعد انہوں نے سرسہ میں ہی مستقل رہائش اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا ، اور فیئر ڈیلرز ٹریڈنگ کمپنی کے نام سے ایک تجارتی ادارہ قائم کیا ،رہائش کے لیے والد صاحب نے حکیم محمد عبد اللہ صاحب اورجماعت اسلامی سے متعارف اور کئی ساتھیوں سے مل کر شہر سے باہردارالسلام کے نام سے ایک بستی تعمیر کی ۔مقصد یہ تھاکہ ایک ایسی بستی بنائی جائے جہاں مکمل طور پر اسلامی اخوت کاماحول ہو اوربچے اس پاکیزہ فضا میں پروان چڑھیں۔
اس سے پہلے سیدابو الاعلیٰ مودودی ؒ پٹھانکوٹ میںدارالسلام کے نام سے بستی تعمیر کر چکے تھے اوردارالسلام سرسہ کی تعمیر میں بھی وہی جذبہ کار فرما تھا۔1946ء کے آغاز تک اس نئی بستی میں تقریباً پندرہ گھر آباد ہوچکے تھے اور ایک مسجد بھی تعمیر کرلی گئی تھی ۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ محترم الطاف حسن قریشی مدیراردو ڈائجسٹ کا گھرانہ بھی سرسہ شہر میں ہی آباد تھا اور جب 1946ء ء میں رمضان المبارک آیا تو ان کے برادر بزرگ حافظ افروغ حسن نے ہمیں تراویح کی نماز پڑھائی ۔
1946ء 1947ء کادور ہندوستان میں سیاسی سرگرمیوں کے عروج…

مزید پڑھیں

سیرت نبیﷺ کے حیرت انگیز واقعات – بتول اکتوبر۲۰۲۲

یوم حنین کا ایک واقعہ
ولید بن مسلم نے بیان کیا ہے، مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے ، ان سے ابوبکر الہذلی نے، ان سے ابن عباس کے غلام عکرمہ نے اور ان سے شیبہ بن عثمان نے روایت بیان کی۔ شیبہ کہتے تھے کہ میں نے یومِ حنین کے موقع پر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ تنہا ہیں۔ مجھے اپنا باپ اور چچا یاد آئے۔ انھیں علیؓ اورحمزہؓ نے قتل کیا تھا۔ میں نے دل میں سوچا کہ آج انتقام کا موقع ملا ہے۔
میں نے آپؐ کے دائیں جانب سے آپ ؐ کا رخ کیا۔جوں ہی میں قریب پہنچا تو آپؐ کے دائیں جانب عباسؓ کو دیکھا۔ میں نے کہا کہ یہ تو آپؐ کے چچا ہیں۔ آپ کا ساتھ ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس وقت عباسؓ نے زرہ پہن رکھی تھی، جو چاندی کی طرح سفید تھی اور اس پر غبار نظر آرہا تھا۔ پھر میں نے بائیں جانب سے حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ قریب پہنچا تو آپ کے ساتھ ابوسفیانؓ بن حارث بن عبدالمطلب کو پایا۔ میں نے سوچا یہ آپؐ کا چچا زاد بھائی ہے، یہ آپ کا بے جگری سے دفاع کرے گا۔ میں پیچھے ہٹ آیا اور سوچا کہ پشت…

مزید پڑھیں

سیرت نبیﷺ کے حیرت انگیز واقعات – آخری حصہ- بتول مئی ۲۰۲۳

کٹا ہؤا بازو
خبیب بن اسافؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے ایک اور آدمی کے ساتھ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ آپؐ کسی جنگ میں جا رہے تھے۔ ہم نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم بھی آپؐ کے ساتھ جنگ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا: ’’کیا آپ مسلمان ہو گئے ہیں؟‘‘ ہم نے نفی میں جواب دیا تو آپؐ نے فرمایا:’’ہم مشرکین کے مقابلے پر مشرکین کی مدد نہیں چاہتے۔‘‘
اس پر ہم نے کہا کہ ہم اسلام قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے ہمیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ لڑائی کے دوران دشمن کے ایک جنگجو نے میرے کندھے پر وار کیا۔ میرا بازو کٹ گیا۔
میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ آپؐ نے میرے بریدہ بازو میں لعاب لگایا اور اسے سی دیا۔ میرا بازو جڑ گیا اور میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔ پھر میں نے اس دشمن کو قتل کیا جس نے میرے اوپر وار کرکے مجھے زخمی کیا تھا۔
کھجور کے درخت کی آہ و بکا
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک انصاری…

مزید پڑھیں