سید ابو الحسن

تحریک پاکستان ، بنگال کے تناظر میں – بتول دسمبر ۲۰۲۰

یہ مضمون جناب ابو الحسن کی تازہ شائع شدہ کتاب’’ سقوط ڈھاکہ کی حقیقت‘‘(اکتوبر 2020) سے لیا گیا ہے ۔ انہوں نے چشم دیدہ گواہ کی حیثیت سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب کا جائزہ لیا ہے ۔ اس کے لیے وہ آغاز میں برصغیر میں برطانوی راج ، تحریک پاکستان اور مابعد حالات کا پس منظر بیان کرتے ہیں تاکہ صورتحال کو سمجھنے میں مدد ملے ۔ یہ مضمون اسی حصے میں سے منتخب کیا گیا ہے (ص۔۱)
کانگریس پورے ہندوستان پرحکمرانی کے خواب دیکھ رہی تھی ۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف Quitانڈیا مہم شروع کی اور یہ مہم تحریک میں بدل گئی ، جو پورے ہندوستان میں پھیل گئی ۔26جنوری1930ء کو یوم آزادی ڈکلیئر کیا گیا ، ان کا ہدف یہ تھا کہ انگریز ہندوستان چھوڑ جائیں اور ملک ان کے حوالے کردیں کیوں کہ وہ ہندوستان میں اکثریت میں ہیں ۔ مسلم لیگ اس تحریک کے اہداف کو سمجھ گئی تھی کہ اس تحریک کی کامیابی کی صورت میں مسلمان انگریزوں کی غلامی سے ہندوئوں کی غلامی میں آجائیں گے۔
لہٰذا مسلمان رہنمائوں نے ہندوئوں کی اس تحریک کی شدید مخالفت کی اور بمبئی میں ایک کنونشن منعقد کیا ۔ اس کنونشن میں مولانا محمد علی جوہر…

مزید پڑھیں

جنگی قیدی کی آپ بیتی (۲) – مارچ ۲۰۲۱

فوجی جوان نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہاکہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہمیں گاڑی میں بٹھا کر فوجی کیمپ میں موجود ایک فوجی بیرک میں لے جایا گیا جہاں ہمارے لیے رہائش کانتظام تھا۔ دو سال بھارتی قید کے بعد شاید جسم کی چارپائی سے شناسائی تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ بس فرش پر بستر نما ایک کمبل کی عادت تھی۔ ٹوٹی ہوئی پرانی اور کائی لگی ہوئی اینٹوں کے فرش پر سونے کی کوشش ہوتی تھی۔ ان اینٹوں کو جوڑنے کے لیے اگر کبھی کوئی سیمنٹ وغیرہ کبھی لگا یاہو تو اب موجود نہ تھااوراینٹوں کے درمیان خالی جگہ ریت اور کیڑوں مکوڑوں کو باہر آنے کی کھلی دعوت دیا کرتی۔
لاہور کی پہلی شام
لاہور میں شام ڈھلنے لگی۔درختوں سے چڑیوں کی چہچہاتی آو ا ز یں یوں لگ رہی تھیں کہ جیسے ہماری قید سے آزادی پر خوشی کااظہار کررہی ہیں۔ مساجد سے اذان کی صدائیں خدا کی کبریائی بیان کررہی تھیں۔ لان میں مغرب کی نماز ادا کی ۔جب کمرے میں واپس گیا تو وہاں ایک سپاہی موجود تھا وہ ہمیں کھانے کے لیے لے گیا۔ کھانا کھا کر واپس کمرے میں آیا اور بستر پر لیٹ گیا۔ تھک کر چور ہو گیا تھا۔ سارے دن…

مزید پڑھیں

جنگی قیدی کی آپ بیتی(قسط۱) – بتول فروری ۲۰۲۱

اپنے وطن میں اجنبی
16دسمبر1971ء کو جب پاک فوج سے ہتھیار ڈلوائے گئے تو نتیجے میں ہم جنگی قیدی بن کر دو ہفتے تک اپنے ہی ملک میں قید رہے۔ مادر وطن ہمارے لیے اجنبی بن چکی تھی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں انڈین فوج کی تعداد اتنی کم تھی کہ وہ پاک فوج کی حفاظت نہیںکرسکتی تھی۔ پاک فوج کا ہتھیار ڈالنا ان کے لیے بہت غیر یقینی تھا۔ وہ حیران اور ششد ر تھے کہ یہ سب کیسے ہوگیا کیونکہ ابھی دو دن پہلے 14دسمبر1971ء کو مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے کمانڈر جنرل نیازی نے ہوٹل انٹر کانٹیننٹل میں ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کے سامنے اعلان کیا تھاکہ ہم آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑیں گے اور بھارتی فوج کو مشرقی پاکستان کے قبضے کے لیے ہمارے سینوں پر سے گزرنا پڑے گا۔
بہرحال پاک فوج تو حکم کے مطابق ہتھیار ڈال چکی تھی اور اس وقت ہم جنگی قیدی بن چکے تھے۔ان میں پاکستان آرمی کے فوجی بھی تھے اور ان کے ساتھ مل کر مکتی باہنی سے لڑنے والے رضاکار بھی تھے۔ہمیں بھارتی فوج کی طرف سے کہاگیاکہ تم لوگوں کواپنی حفاظت خود کرنی ہے۔ مشرقی پاکستان میںجو اَب بنگلہ دیش تھا، ہم دو ہفتے…

مزید پڑھیں

جنگی قیدی کی آپ بیتی(5) – بتول جون ۲۰۲۱

ابوجان بخیریت واپس ڈھاکہ پہنچ چکے تھے۔ اپنے بڑے بیٹے کے ہاں چند دن قیام کرکے وہ اپنے آبائی گھر چٹاگانگ چلے گئے۔ میرے والد جتنا عرصہ لاہور میں ہمارے ساتھ رہے ہمیں اپناگھر بنانے کی ترغیب دیتے رہے۔ مجھے اور میری اہلیہ کو خاص طور پر نصیحت کرتے رہے کہ زیادہ سے زیادہ بچت کرو اور اپناگھر بنانے کی کوشش کرو۔ آج اُن کی اور ہمارے دیگر بزرگوں کی دعاؤں کانتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے گھر سے نوازا۔ وہ بزرگ اگر آج حیات ہوتے تو ہمارا گھر دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جوار رحمت میں جگہ دے ،آمین۔
زندگی رواں دو اں تھی ۔ والد صاحب کے جانے کے بعد میں اُن سے بہت زیادہ اداس ہوگیا اور والد صاحب سے ملاقات کے بعد وہاں بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں سے ملنے کو دل بے چین ہوگیا۔ اسی بنا پر میں نے بنگلہ دیش جانے کا فیصلہ کیا ۔ لاہور سے ڈھاکہ کے لیے ٹکٹ لیا اور روانہ ہوگیا۔ ڈھاکہ میں بڑے بھائی نے خیر مقدم کیا ۔ دو دن اُن کے پاس رہا ، پھر بھائی کو لے کر چٹاگانگ گیا جہاں میرے باقی سب بھائی اور اکلوتی بہن رہتے تھے۔ دو…

مزید پڑھیں

جنگی قیدی کی آپ بیتی- بتول مئی ۲۰۲۱

ہوسٹل لائف اور چار کی منڈلی
خیر میرا داخلہ اسلامیہ کالج سول لائنز میں ایم اے اکنامکس میں ہوگیا۔ میں سول لائنز کے ہاسٹل میں منتقل ہوگیا ۔ یہاں بھی میرے لیے ہر لحاظ سے آزاد زندگی گزارنے کی سہولت موجود تھی مگر میں نے یہاں بھی قید کی زندگی ہی گزاری ۔ ہاسٹل کے ہلہ گلہ سے میرا کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہی مغرب کے بعد باہر نہ جانا، وقت پر کھانا کھانا اور پڑھنے بیٹھ جانا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہاسٹل میں شروع سے ہی مجھے بہت سی نعمتوں سے نوازاتھا۔ کالج کے پرنسپل بہت شفیق انسان تھے۔ مجھ سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ ہاسٹل کے ساتھ والے کمرے میں جناب طیب گلزار صاحب میرے ہمسائے بنے اور پوری زندگی میرے لیے انمول سرمایہ ثابت ہوئے۔ جناب محترم عبدالحفیظ احمد صاحب بھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے جو البدر پبلی کیشنز کے مالک تھے۔ ہمارا وقت بہت اچھا گزرتاتھا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد جناب عبدالوحید سلیمانی صاحب پیدل سنت نگر سے ہمیں ملنے آتے تھے۔ یہاں ہم چاروں کی منڈلی تھی۔ کھانے کے بعد تقریباً روزانہ مال روڈ سے ہوتے ہوئے مسجد شہدا تک جاتے اور واپس آتے ۔ عبدالوحید سلیمانی صاحب بہت نفیس آدمی تھے ۔…

مزید پڑھیں

جنگی قیدی کی آپ بیتی -بتول اپریل ۲۰۲۱

( قسط ۲ شمارہ مارچ میں آخری پیراگراف سے پہلے ایک پورا صفحہ میری غلطی کی وجہ سے کمپوز ہونے سے رہ گیاتھا، جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ مدیرہ صاحبہ نے اس کمی کو اپنی بہترین صلاحیت سے پُر بھی کردیاتھا مگر تشنگی باقی رہی لہٰذا اس کو آج کی قسط میں شامل کیاجارہا ہے۔ سید ابوالحسن)
میںان حالات میںبس ایک چیز کا منتظر تھا اور وہ تھی اللہ کی مدد، بار بار اس کی مدد مانگتا رہا۔ اتنے میں چند افراد میرے پاس آئے اور آکر بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک بنگالی بولنے والابھی تھا۔ مجھے ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور یوں لگا کہ میری دعائیں قبول ہوگئی ہیں۔ انھوںنے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ ہمیں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒنے آرمی کیمپ بھیجا تھا۔ وہاں سے اُن لوگوں نے اس مسجد میں آپ کی موجودگی کا ذکر کیا۔ ہم آپ کو لینے کے لیے آئے ہیں ۔ مسجد میں تین چار جیل کے اور ساتھی بھی تھے،انہوں نے ہمیں ساتھ چلنے کو کہا۔
سید مودودیؒ سے شرفِ ملاقات
چنانچہ ہم سب کو گاڑی میں بٹھا کر اچھرہ مولانا مودودیؒ کی رہائش گاہ کے قریب ۱۔ اے ذیلدار پارک لے جایا گیا۔ ہم نے جب ۱۔ اے ذیلدار…

مزید پڑھیں