سلمان یوسف سمیجہ

دوستی – نور نومبر ۲۰۲۰

انیس ، احد، مسعود اور امین اسکول کے میدان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔
’’ یار ! یہ عبد اللہ آج کل مستقیم کے ساتھ کچھ زیادہ نہیں بیٹھنے لگا ۔‘‘ امین نے کہا ۔
’’ ہاں یار ! دونوں کی پکی دوستی ہو گئی ہے ۔‘‘احد بولا۔
’’ عبد اللہ ہی ہر وقت مستقیم کے پیچھے پڑا رہتا تھا ۔بہانے بہانے سے اُس سے باتیں کرتا اور اُس کے آس پاس منڈلاتا رہتا تھا۔‘‘انیس نے منہ بنایا۔
’’ میرا خیال ہے کہ عبد اللہ نے اُس سے دوستی اُس کی دولت اور امارت دیکھ کر کی ہے۔‘‘مسعود نے کہا۔
’’ ہاں یقینا یہی بات ہو گی ۔‘‘ امین فوراً بولا۔
’’ لیکن میرا یہ خیال نہیں ۔‘‘ احد نے کہا۔
’’ مستقیم مذہب سے بے حد لگائو رکھتا ہے ، پانچ وقت کا نمازی ہے ، سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔عبد اللہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ، وہ دین والوں کی صحبت میں رہنا پسند کرتا ہے ، ممکن ہے اُس نے مستقیم سے دوستی اُس کا پیسہ اور امیری دیکھ کر نہ کی ہو ، بلکہ دین کی خاطر کی ہو ۔‘‘
’’ تم چپ رہو!‘‘ مسعود نے احد کو ڈانٹ کر کہا :’’ جیسا میں کہہ رہا ہوں ،…

مزید پڑھیں

آپ کا شکریہ – نوردسمبر ۲۰۲۰

مُنیبہ عرف مُنی سڑک کے ایک طرف پریشان صورت بنائے کھڑی تھی۔ سڑک پر گاڑیوں کی آمدو رفت بہت زیادہ تھی ، جس کی وجہ سے وہ سڑک پار نہیں کر پا رہی تھی۔ وہ اپنی سہیلی شمع سے ملنے گئی تھی اور گھر واپس جا رہی تھی۔
’’ کیا ہوا لڑکی ؟ پریشان کیوں ہو؟‘‘ایک بڑی عمر کے لڑکے نے اس سے پوچھا۔اُس کے لہجے میں ملائمت تھی۔
’’ وہ میں سڑک پار نہیں کر سکتی!‘‘ منی نے جھٹ سے بتایا۔
’’ آئو، میں تمھیں سڑک پار کروا دوں !‘‘ لڑکے نے اس کا بازو تھاما اور سڑک پار کروا دی۔سڑک پار کرنے کے بعد منی گھر کی جانب سر پٹ بھاگی۔ کیوں کہ اسے کافی دیر ہو گئی تھی ۔ اور اب یقینا امی جان سے اچھی خاصی ڈانٹ پڑنی تھی۔
٭…٭…٭
’’ عبیرہ… !‘‘ منی وقفے کے وقت اپنی ہم جماعت اور دوست عبیرہ کے پاس آئی ۔ اس کے لہجے میں پریشانی تھی۔
’’کیا بات ہے ؟‘‘ عبیرہ نے چونک کر اُسے دیکھا۔
’’ آج جلدی میں میں امی جان سے لنچ باکس لے سکی نہ پیسے۔ اب مجھے بے حد بھوک لگ رہی ہے ۔ ‘‘ وہ اس کے قریب بیٹھ گئی۔
’’ اچھا!‘‘ عبیرہ نے سر ہلایا ۔’’ فکر مت کرو۔ میرا…

مزید پڑھیں

نہیں نہانا – نور جنوری ۲۰۲۱

’’تبریز! میں کہتی ہوں کہ رُکو!‘‘امی جان نے تیکھے لہجےمیں گیٹ کی طرف بھاگتےہوئے تبریز میاں کوپکارا۔
’’نہیں نہاؤں گا،نہیں نہاؤں گا!!!‘‘تبریز میاں نےزورسے کہااورگیٹ پار کرکےیہ جاوہ جا۔امی جان پیچھےسےپکارتی رہ گئیں اورتبریزمیاں میدان کی طرف بھاگ گئے۔
دراصل تبریز میاں کئی دن سے نہائے نہیں تھے۔ سردیوں کے دن تھے،اور سردی میں نہانے سے تو اُنہیں بہت ڈر لگتا تھا۔امی جان جب بھی نہانےکو کہتیں تو وہ کوئی نہ کوئی بہانا بنادیتے،اگر بہانہ کام نہ آتا تو بھاگ جاتے، مگر جسم پر پانی بہانا گوارا نہ کرتے۔
’’چھی! کتنی گندی بدبو اُٹھ رہی ہے تمہارے جسم سے! ‘‘ہاشم نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا۔
’’اور تمہارے بالوں میں خشکی بھی بہت ہے۔ نہاتے نہیں ہو کیا؟ ‘‘عبداللہ نے کہا۔
تبریز میاں شرمندہ سے ہوگئے۔
وہ گھر سے بھاگ کرکھیل کے میدان میں آ گئے تھے، جہاں ان کے دوست کرکٹ کھیلنے کے بعد ایک جگہ بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔
’’نہیں، کون سردی میں نہائے!‘‘تبریز میاں نے یوں کپکپا کر کہا، جیسے ان پر ٹھنڈے پانی کی پوری بالٹی ڈال دی گئی ہو۔
’’اچھا۔ اتنے ڈرپوک ہو کہ پانی سے ڈرتے ہو۔ ہاہاہا! ‘‘شاہ میر ہنسنے لگا۔
’’کتنے دنوں سے نہیں نہائے تم؟ ‘‘ عبیر نے پوچھا۔
’’شاید……شایدایک ماہ سے! ‘‘تبریز میاں نےکچھ خجل ہوکر کہا۔
’’ارےےے! ایک ماہ سے!!!‘‘سب…

مزید پڑھیں