حبیب الرحمان

غزل/نثری نظم: یادیں اور باتیں – بتول دسمبر ۲۰۲۰

غزل زمانے سے بغاوت کیوں کریں ہم ملیں، چھپ چھپ کے لیکن کیوں ملیں ہم یہ کب لازم ہے سب، سب کو خبر ہو دلوں کی آنکھوں آنکھوں میں کہیں ہم تمہیں بھی شعلہ سا کر دیں تو کیسا محبت میں اکیلے کیوں جلیں ہم جو ڈسنا ہو ڈسیں گے سامنے سے کسی کی آستیں میں کیوں پلیں ہم بکھر نے سے، کلی سے پھول بن کر کہیں اچھا تھا رہتے کونپلیں ہم وہ سب کانٹوں سے چبھتے تلخ لہجے بنیں شیریں جو پھولوں سا بنیں ہم نبھانا ہے نبھانا ہی نہیں ہے کوئی تو فیصلہ آخر کریں ہم جو سر کرنی ہے منزل خود کریں سر کسی کے پیچھے پیچھے کیوں چلیں ہم تمنا ہے گلوں کا ہار بن کر کبھی اس کے گلے سے جا لگیں ہم جو غیرت پر کٹے کٹ جائے کیا ہے جہاں میں سر جھکا کر کیوں جئیں ہم حقیقت کو بتانے کے بہانے

مزید پڑھیں

نعت/ غزل/ جھیل کنارے – بتول نومبر۲۰۲۰

نعت جہانِ رنگ و نظر میں چاہے نہ پوری ہو اپنی کوئی خواہش مگر یہ اک آرزو کہ جس کو بنا لیا حرزِ جاں محمدؐ میں تکتے تکتے تمہارے در کو کچھ ایسے سوؤں کہ پھر نہ جاگوں نصیب ہو جائے چشم تر کو کبھی جو وہ آستاں، محمدؐ چراغِ دل بجھ گیا ہے شاہا بڑے اندھیرے میں گھِر گئے ہیں بچاؤ گے کیا نہ ظلمتوں سے ہمیں نہ دو گے اماں محمدؐ یہ بے سوادی یہ کم نگاہی بھلا انہیں کوئی کیا بتائے بنے ہوئے ہیں چمن کے قیدی تھے جن کے دونوں جہاں ،محمدؐ تری دہائی ہے تاج والے پکار اس بد نصیب دل کو یہ کشتہِ بختِ نارسا اب چلا ہے سوئے بتاں محمدؐ وہی جو سرشارِ بے خودی تھے وہی جو آزادِ رنگ وبو تھے ستم ظریفی کہ ہائے قسمت ہیں وقفِ کوئے بتاں محمدؐ تمہاری رحمت کا اک سہارا ہے آہ درماندہ راہرو کو کوئی

مزید پڑھیں

غزل – بتول نومبر۲۰۲۰

غزل جو رہا کرتے تھے راہیں تری تکتے وہی سب عمر بھر چین سے جی لینے کو ترسے وہی سب مجھ پہ ہنستے تھے جو پاگل مجھے کہہ کر کہو کیوں دیکھے ہیں سر اسی چوکھٹ پہ پٹختے وہی سب جان و دل آپ پہ قربان یہ دعویٰ تھا مگر آئے لاشے پہ مری گاتے تھرکتے وہی سب تختۂ دار تو منظور تھا، منظور نہ تھا جو کہا جائے کہوں اپنی زباں سے وہی سب اس نے جو کچھ بھی کہا مجھ کو لگا یوں ہی، مگر ڈر رہا ہوں وہ کہیں دل سے نہ کہہ دے وہی سب ہائے الفاظ کے تیروں سے لگائے گئے زخم کاش واپس اْنھیں لیکر اِنھیں بھردے وہی سب شہر کے پیار میں وہ گاؤں سی سچائی کہاں ورنہ بستے ہیں وہاں بھی مرے تجھ سے وہی سب لادو بچپن کے وہی کھیل کھلونے مجھے تم گلی ڈنڈا، کوئی لٹو، مرے کنچے، وہی سب

مزید پڑھیں

غزل – مارچ ۲۰۲۱

ہجر سے جاں بہ لب ہیں دیوانے آہ کرتے ہی کب ہیں دیوانے بے گناہی بھی جرم گنتے ہیں اِس کچہری میں سب ہیں دیوانے زندگی کیا جواز رکھتی ہے ہم تو بس بے سبب ہیں دیوانے پتھروں سے جواب آتا ہے کیا پکاریں کہ جب ہیں دیوانے منہ پہ رکھتے ہیں من کی باتیں بھی کس قدر بے ادب ہیں دیوانے ہم کلامی جنون کیسا ہے اتنے بدنام کب ہیں دیوانے تیری آمد ہے کیا چھپائیں اب ہم نہیں اب، تو کب ہیں دیوانے (اسامہ ضیاء بسمل) اپنے پیروںکو سمیٹو سبھی سر پر رکھ دو حکمِ آقا ہے، غلامو، مرے در پر رکھ دو توڑ کر تم جو ستاروں کو فلک سے، اچھا لے ہی آئے تو کسی اور کے گھر پر رکھ دو اف یہ دنیا ہے زمانہ بھی ہے گھر والے بھی سو سبھی مجھ سے کیے عہد اگر پر رکھ دو ہم بھی دنیا کا زمانے

مزید پڑھیں

خیال و خواب کے جھروکوں سے – مارچ ۲۰۲۱

کہتے ہیں کہ انسانی دماغ کا موازنہ اگر کمپیوٹر کے ساتھ کیا جائے تو صورت حال کچھ یوں ہوگی کہ ایک انسانی دماغ میں زندگی کے ہر لمحے کو محفوظ رکھنے کی جتنی صلاحیت ہوتی ہے اگر اتنی ہی صلاحتیوں والا کوئی کمپیوٹر ایجاد کر لیا جائے تو اس کی ’’ہارڈ ڈسک‘‘ دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت جیسی درجنوں عمارتوں کے برابر ہوگی اور کسی گزری بات کو ’’ری کال‘‘ کرنے کے لیے جو تیز رفتار پروسیسر درکار ہوگا اس کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے سمندر کا پانی بھی کم پڑ جائے گا۔ عام استعمال کے جتنے بھی کمپیوٹرز ہیں ان کی ہارڈ ڈسک میں فلموں کی بمشکل چند کاپیاں ہی پیسٹ کی جا سکتی ہیں جبکہ ایک انسانی دماغ میں پوری زندگی محفوظ ہوتی ہے۔ یہی نہیں ،کسی بھی کمپیوٹر میں محفوظ کسی بھی یاد کو تازہ کرنے کی غرض سے جس وقت بھی “ری کال” کیا

مزید پڑھیں