بشریٰ ودود

پیاری – بتول جنوری ۲۰۲۳

ہ بہت دیر سے تکیہ پر سر رکھے، چہرہ دوپٹے میں چھپائے روئے جا رہی تھی۔ اپنا دُکھ کہتی بھی تو کِس سے؟ اس کی تو کوئی بہن بھی نہ تھی۔ بس ایک بھائی تھا۔ پھپھو کا بیٹا! وہ بھی اتنا چھوٹا تھا۔ ابھی تیسری کلاس میں پڑھتا تھا۔ اسے بھلا کیا سمجھ آنی تھی۔ ہاں! اُسے بینا سے محبت بہت تھی۔ جب کبھی وہ دُکھی ہوتی یا آنسو اس کی آنکھوں میں سما نہیں پاتے تو وہ اس کے بہتے آنسو پونچھنے پتہ نہیں کہاں سے آجاتا۔ جانے اُسے کون بتا دیتا تھاکہ باجی اس وقت دکھی ہے ۔
آج بھی یہی ہؤا۔ وہ اس کے بستر پر آکر بیٹھ گیا۔ آہستہ سے اس کے ہاتھ ہٹا کر آنسو پونچھنے لگا۔
’’کیا ہؤا باجی؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ چُپ ہو جاؤ۔ دیکھو میں تمہیں اپنی چاکلیٹ کھلاؤں گا….‘‘ یہ عامر کا بہت بڑا احسان ہوتا تھا۔ اس لیے کہ بینا کی طرح اُسے بھی چاکلیٹ بہت پسند تھی۔ اُسے یکدم اس پر ڈھیروں پیار آیا۔
میرا پیارا بھائی!‘‘ اُس نے آنسو صاف کر کے عامر کو گلے سے لگا لیا۔
دونوں مل کر چاکلیٹ کھانے لگے۔
’’ارے کیا بینا! اسکول سے آکر تمہیں صرف سوتے رہنے کا کام ہے؟ چلو جلدی سے کچن…

مزید پڑھیں

آخرِ شب – بتول جون ۲۰۲۱

’’مجھے سب یاد ہے جو آپ نے ہم لوگوں کے ساتھ کیا۔ میری بیوی کا ذرا خیال نہ کیا۔وہ بے چاری بیمار تھی اور آپ نے‘‘۔
غصہ کے مارے اس کی آنکھیںسرخ ہورہی تھیں۔مریم سخت حیرت سے اس کی شکل دیکھ رہی تھی۔اسے یقین نہیں آرہا تھا یہ اس کا بیٹا بول رہا تھا۔
’’آہستہ بولو بیٹا ماسی بھی گھر میں ہے‘‘اس نے بمشکل کہا۔
’’نہیں بولوں گا آہستہ…..ساری دنیا سن لے…..سمیں کسی سے نہیں ڈرتا۔ہر بات میرے دلِ پہ لکھی ہے۔ آپ نے کیا کیا نہیں کیاہمارے ساتھ…..سمیرے بچوں کوکبھی نہیں بلایا کبھی ان کو نہیں سنبھالا‘‘۔
وہ ایسے چیخ رہا تھا کہ اب مریم کو اس سے ڈر لگنے لگا تھا۔ اس کی دھمکیاں،اس کے دعوے…..سب اس کے دلِ پر لگ رہے تھے۔
’’خود کشی کرلوں گا میں۔ختم کردوں گا سب کچھ‘‘۔
’’ارے بیٹا کیا ہو گیا ہے ایسا کیا کر دیا ہم نے….. تمہاری بیوی کی خواہش تھی کہ وہ الگ گھر میں رہے گی تو ہم نے پوری کر دی۔ اب تمہیں اس پر بھی شکوہ ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں اب تو یہ بھی کہیں گی آپ۔خود تو اتنے بڑے گھر میں آرام سے ہیں آپ لوگ اور میںایک سو بیس گز کے گھر میں مر رہا ہوں۔کبھی لائٹ نہیں کبھی پانی نہیں‘‘۔
’’بیٹا ہم…

مزید پڑھیں