مردم گزیدہ – آسیہ کوکب
دھوپ کی تمازت ختم ہو گئی تھی ۔ سورج ڈھل گیا تھا مگر گھر کے کام تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔ کام سمیٹتے سمیٹتے امی تھکاوٹ سے چور دکھائی دے رہی تھیں ۔ جب سے ماسی شریفاں ملازمت چھوڑ کر گئی تھی کوئی نئی ملازمہ مل ہی نہیں رہی تھی ۔ ایک دو دن کام کرتیں اور چل دیتیں نہ جانے انہیں کیا چاہیے تھا جو ٹک کر کام نہیں کر رہی تھیں ۔ نئے ملازم کو ڈھونڈنا اور اسے سیٹ کرنا بہت صبر اور حوصلے کا کام دکھائی دے رہا تھا۔ ملازمہ جو ان بھی ہو، صحت مند بھی ، کام کرنا جانتی ہو ایماندار بھی ان تمام محاسن و فضائل کے ساتھ ساتھ با اخلاق بھی ہو بد زبان اور جھگڑالونہ ہو ۔
کوئی ملازمہ بھی اس پیرا میٹر پر پوری نہیں اتر رہی تھی۔ بڑے بھیا کا خیال تھا کہ ان خوبیوں کی حامل تو آرڈر پر تیار کرنی پڑے گی ۔ امی اپنے کسی بھی بچے سے گھر کا کام کروانا جرم سمجھتی تھیں۔ ان کا خیال تھا گھر کے کام بچیاں ایک دو ماہ میں میں سیکھ ہی لیتی ہیں ۔ یہ ان کی پڑھائی کی عمر ہے اگر…