جبر سہ لیتا ہوں کہ …مزدور ہوں میں ! – بتول جون ۲۰۲۳
میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی ۔ ہمارے گھر سفیدی ہو رہی تھی ۔ سفیدی کرنے والے ادھیڑ عمر کے صاحب سورج چڑھے دوپہر کے کھانے کے لیے جاتے تھے ۔ ہم گھر کے بچے ان کے جانے کے بعد خوشی خوشی جائزہ لیتے کہ کمرہ میں یہ رنگ ، داروازے پر یہ پینٹ کتنا بھلا لگ رہا ہے ۔
اُس دن چھوٹی بہن نے ان کے چمڑے کے کالے بیگ میں ایک موٹی سی ڈائری دیکھی بولی ’’ انکل تو پڑھے لکھے ہیں ‘‘۔ بھائی نے شرارتاً وہ ڈائری نکال لی اور با آوازبلند پڑھنے لگا ۔میں بھی شوق میں ڈائری لے کر صفحے پلٹنے لگی ہر صفحہ پر کوئی غزل یا نظم تھی ۔ شاعر کا نام مقطع میں سفیدی والے انکل کا نام تھا۔ امی بھی بہت متاثر ہوئیں کہ گفتگو سے تو مہذب آدمی ہی معلوم ہوتے ہیں ۔ جب ان کی واپسی پر بھائی نے پوچھا تو وہ سفیدی کا کام چھوڑ کر اپنی کتھا سنانے لگے کہ وہ کس ادبی گھرانے کے فرزند ہیں ۔والد بڑے شاعر۔ ان کی ملازمت بوجوہ چھوٹی تو خاندان والوں نے منہ پھیرلیا۔ ان کے پاس کاروبار کے لیے پیسہ نہ تھا اس لیے دوست کے ساتھ مل…