اسماء صدیقہ

سنہرے گنبد سے اپنا رشتہ – اسماء صدیقہ

سنہرے گنبد سے اپنارشتہ تو اس قدر ہے
خدا نے رکھی جہاں پہ برکت یہی وہ در ہے
گئے تھے آقا فلک کی جانب
یہی تو وہ جائے معتبر ہے
ہزار نبیوں کو جس نے پالا یہی وہ گھر ہے
حصارِ جوروجفا جہاں اب سواہوا ہے
بہت ہی ملعون وحشیوں میں گھرا ہوا ہے
زمینِ اقدس کی اس تباہی کاعکس دیکھوگےہرخبرمیں
جو مثلِ خنجر ہوئی ہیں پیوست ہرنظرمیں
ندائے اقصی میں سن سکو تو
لہو نہاتی ہزار آھیں جو مرتعش ہیں
تجلیوں سے جولاالہَ کی منعکس ہیں
جو زخمی کلیوں کی آہ و زاری میں ملتمس ہیں
نبی کی حرمت کے نام لیوا ادہر تو آؤ
کسی اخوت کے نام لیوا بکھر نہ جاؤ
تمہیں یہاں کے سوال چہرے پکارتے ہیں
زمینِ اقدس پہ بڑھتے حملے پکارتے ہیں
سپاہیانِ وفا کے لشکر کے مرد آہن چلے بھی آؤ
حروفِ قرآں کاتھامے دامن چلے بھی آؤ
قلوبِ ایماں کی بن کے دھڑکن چلے بھی آؤ
زمینِ اقصی تمھارے پرچم کی سبز رنگت سے کہہ رہی ہے
یہاں کی حرمت سے جس کا رشتہ تو دائمی ہے
اگر نہ آؤ تو پھر بتاؤ یہ لازمی ہے
تمھاری نسبت کا مان کیا بس ستائشی ہے؟
تمھاری طاقت کا زعم کیا بس نمائشی ہے؟

مزید پڑھیں

انتظار – اسماء صدیقہ

درد کی رفاقت میں بے طرح کی شدت ہے
بے کسی کے ہاتھوں میں چیختی ہے تنہائی
منتظر زمانوں میں مضطرب فسانوں میں
وحشتوں کے پہرے ہیں اور بہت ہی گہرے ہیں
جسم وجاں بھی گھائل ہیں،یاسیت پہ مائل ہیں
دل کشی کے منظر بھی ہرقدم پہ زائل ہیں
بے حسی کے نرغے میں بے بسی کے قبضے میں
یہ خیال چبھتاہے ،اک سوال اٹھتا ہے
دکھ کو سکھ میں آنے تک،زہرکتنا پینا ہے
کتنا جی کے مرنا ہے کتنا کرکے جینا ہے
بے کراں سے جنگل کے اک سفر کے سنگم پہ
دہشتوں کے سناٹے راستوں میں حائل ہیں
کیسی نارسائی ہے ،قید یا رہائی ہے
قسمتوں کے پھیرے میں کیسی کج ادائی ہے
اس عذابِ پیہم سےمل سکے گا کیوں کر پھر
راستہ خلاصی کا
منصفی کے چرچے میں واسطہ ثلاثی کا
غفلتوں کی شدت جب جرم بن کے چھاجائے
دہشتوں کی جدت جب ظلم بن کے آ جائے
بےحسی وقلّت سے کیسے ہو مسیحائی
وقت کتنا گزرا ہے ،اور کتنا گزرے گا
قید سے نکلنے میں ،بیڑیوں کے کٹنے میں
بےحسی کے مٹنے میں ،بےبسی کے کٹنے میں

مزید پڑھیں