احساس کی لہریں – عصمت اسامہ حامدی
مسز بیگ اپنے سامنے قدآدم آئینے میں خود کو دیکھ کر ہاتھ میں موجود پیپر سے دیکھ کر تقریر یاد کر رہی تھیں ۔ ’’
مسز بیگ اپنے سامنے قدآدم آئینے میں خود کو دیکھ کر ہاتھ میں موجود پیپر سے دیکھ کر تقریر یاد کر رہی تھیں ۔ ’’
یہ سن 1985ء کی بات ہے ہمارے پڑوس میں ایک خاندان آ کر آباد ہؤا،نثار صاحب ان کی اہلیہ حسنہ اور ان کے دو بچے،
’’ویڈیوز دیکھی نہیںجاتیں، بچوں کی بےدھڑ خون آلود کٹی پھٹی لاشیں…. طبیعت خراب ہونے لگتی ہے‘‘صائمہ کی طبع نازک متاثر تھی۔ ’’ٹھیک کہہ رہی ہو
کوٹ لکھپت جیل میں یہ ہمارا تیسرا دورہ تھا ۔ وہاں کے ماحول سے کچھ کچھ شناسائی ہوتی جا رہی تھی ۔ اب پہلے والی
پون رہا ہو چکی ہے۔اسے ہر الزام سے بری قرار دیا گیا ہے۔زرک کے کام سے اس کے افسران خوش ہیں۔رہائی کے بعد زرک اعتراف
موبائل کی بیل بج رہی تھی۔ اسکرین پر نام دیکھ کر چونک گئی۔ خدیجہ کا فون تھا ضرور کوئی سیریس بات ہوگی جب ہی فون
قبالا کی مسجد میں تقریباً ساڑھے پانچ بجے کے قریب پارک سے اس ارادے سے نکلے کہ کچھ کھانے پینے کی جگہوں کو دریافت کر
لہو کے قطرے مثالِ شبنم مرے چمن میں بکھر گئے ہیں یہ دسمبر 1906 ہے۔ نواب سلیم اللہ کی سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی پر
عالمی یوم حجاب کے سلسلے میں کراچی کے نظم نے گزشتہ دنوں ایک خوبصورت پروگرام بعنوان’’گھرا ہؤا ہے ابر، مہتاب ڈھونڈتا ہوں میں‘‘ فاران کلب
وہ آئیں تو بھانجی کی شادی میںشرکت کے لیے تھیں مگر قانتہ رابعہ کراچی آئیں اور لکھاریوں کی محفل نہ سجے ایسا ممکن ہی نہیں
ادارہ بتول کے تحت شائع ہونے والی تمام تحریریں طبع زاد اور اورجنل ہوتی ہیں۔ ان کو کہیں بھی دوبارہ شائع یا شیئر کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ساتھ کتاب اور پبلشر/ رسالے کے متعلقہ شمارے اور لکھنے والے کے نام کا حوالہ واضح طور پر موجود ہو۔ حوالے کے بغیر یا کسی اور نام سے نقل کرنے کی صورت میں ادارے کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔
ادارہ بتول (ٹرسٹ) کے اغراض و مقاصد کتابوں ، کتابچوں اور رسالوں کی شکل میں تعلیمی و ادبی مواد کی طباعت، تدوین اور اشاعت ہیں تاکہ معاشرے میں علم کے ذریعےامن و سلامتی ، بامقصد زندگی کے شعوراورمثبت اقدار کا فروغ ہو
Designed and Developed by Pixelpk