چارلس ڈکنز/حمیرا بنت فرید

عمر پر کیا گزری – نور نومبر ۲۰۲۰

گرمیوں کی ایک دوپہر، عمر کے ساتھ عجب واقعہ پیش آیا ۔ وہ اپنے کمرے میں لیٹا کتابیں پڑھ رہا تھا ۔ کمرہ روشن اورآرام دہ تھا، تھوڑی ہی دیر میں اس پرغنودگی طاری ہونے لگی اور وہ خواب دیکھنے لگا ۔ اس نے دیکھا کہ اس کا کمرہ بدل گیا ہے۔ اسے لگا جیسے یہ چوروں کے گھر کا کمرہ ہے۔ اسے فہیم بھی نظر آیا وہ اپناچہرہ،عمر کے چہرے کے نزدیک لایااوراسے بغوردیکھتے ہوئے کسی سے کہا:
’’ ہاں ! وہی ہے ، مجھے یقین ہے یہ وہی ہے ۔‘‘
’’ ہاں یقینا وہی ہے ۔ میں اسے کہیں بھی دیکھوں گا توپہچان لوں گا ۔ مجھے اس سے نفرت ہے ۔‘‘ایک اور آواز آئی۔
آخری الفاظ بہت بلند آواز سے کہے گئے تھے ۔ عمر کی آنکھ کھل گئی، ساتھ ہی اس کی خوف سے جان نکل گئی۔ اس کو دو بدہئیت چہرے کھڑکی میں نظرآئے جو اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک فہیم تھا ۔ دوسرا شخص وہی تھا جس سے ڈاک خانے کے سامنے اس کی ٹکر ہوئی تھی ۔ عمر کو اس شخص کا نام معلوم نہیں تھا ، وہ منصورتھا۔
عمر اچھل کھڑا ہوا اورمدد کے لیے پکارنے لگا ۔ وہ سخت خوف…

مزید پڑھیں

عمر پر کیا گزری – نور جنوری ۲۰۲۱

رابعہ سے ملاقات اور بات چیت کے کئی دنوں بعد تک نینا اُداس اور بے چین رہی۔ وہ سوچتی تھی کہ جو کچھ اس نے کیا ہے وہ شاید اس کے دوستوں کے حق میں بہتر نہ ہو ۔ وہ کبھی بالکل چُپ ہو جاتی ، کبھی بے تحاشہ ہنسنے لگتی ۔ اس ذہنی دبائو نے اس کی صحت پر بھی اثر ڈالا تھا ۔ وہ بہت کمزور اوربیمار نظر آنے لگی تھی ۔ بلو سائیں کی عقابی نگاہوں نے نینا میں آنے والی تبدیلی بھانپ لگی تھی ۔
اتوار کی رات بلوسائیں اور فہیم بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ نینا تیار ہو کر باہر جانے کے لیے نکلی۔
’’ کہا جارہی ہو؟‘‘ بلو چیخا۔
’’ مجھے نہیں معلوم۔‘‘ نینا نے جواب دیا۔
’’ تو مجھے معلوم ہے ۔تم کہیں نہیں جا رہی ، بیٹھ جائو۔‘‘ بلونے اسے زبردستی کرستی پر بٹھاتے ہوئے کہا۔
’’ مجھے جانا ہے بلو۔ پلیز مجھے جانے دو،۔‘‘ نینا نے التجا کی۔
بلو سائیں ایک دم طیش میں آگیا ۔وہ اسے کھینچتا ہوادوسرے کمرے میںلے گیا ۔ نینا نے مزاحمت کی ۔ اسی وقت گھنٹے نے بارہ بجائے ۔ آدھی رات ہو چکی تھی۔اب باہر جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔وہ تھک کر بیٹھ گئی۔ بلو اس پر چیخ…

مزید پڑھیں