عزیزہ انجم

آس کے دیپ – شاہدہ سحر کا مجموعہ کلام – بتول جنوری ۲۰۲۲

محترمہ شاہدہ سحر صاحبہ کا مجموعہ کلام آس کے دیپ بذریعہ ڈاک روبینہ فرید بہن کی وساطت سےمو صول ہؤا ۔
سرورق پر بنی آبی پینٹنگ نے بہت متاثر کیا اور آس کے دیپ کے عنوان نے امید کے جگنو چمکائے ۔
شاعری احساس کے مترنم اظہار کا نام ہے ۔اللہ تعالی نے یہ کائنات بے حد حسین و جمیل بنائی ہے اسے حسن سے آراستہ کیا ہے اور کائنات میں بکھرا جمالیاتی حسن رب کی مدح اور تسبیح کرتا نظر آتا ہے ۔ اسی مدح کو نغمگی کے قالب میں ڈھال دیا جائے اور لفظوں کا پیرہن دے دیا جائے تو شاعری بن جاتی ہے ۔
پیڑوں پر ہوا سے جھولتے اور جھومتے پتوں کی سرسراہٹ صبح کے اولین سحر آگیں لمحات میں چڑیوں کی چہچہاہٹ زبان فطرت کی شاعری ہے ۔
اللہ نے جن دلوں کو حساسیت سے نوازا وہ عجب لذت کرب سے دوچار رہتے ہیں اور یہ کرب گویائی مانگتا ہے ۔ کبھی یہ کرب ذات کا ہوتا ہے کبھی اجتماعی صورت حالات کا ۔اور جنھیں رب اظہار کا سلیقہ اور ہنر عطا کرتا ہے وہ نثر اور شعر میں اس ہنر کا کمال دکھاتے ہیں ۔
شاعری کیسے اور کیوں کر ہوتی ہے اس کا جواب آسان نہیں ۔کبھی بے…

مزید پڑھیں

اے کاش! – بتول جون ۲۰۲۳

بلا کی گرمی اور دوپہر کا وقت ۔پنکھا سر پر چل رہا تھا پھر بھی حال برا تھا ۔میں نے سر اٹھا کر چاروں طرف دیکھا ۔عورتیں ہی عورتیں …چند کی گود میں بچے۔
اُف آج تو تین بج گئے! میں نے اپنے آپ سے کہا ۔
نہ جانے کیوں لاشعوری طور پر میں نے اس ایک مخصوص کونے کی طرف دیکھا ۔وہ وہاں اسی طرح کھڑی تھی۔ ایک بچہ دائیں ایک بچی گود میں اور بڑی لڑکی اس کا دامن پکڑے ۔وہ تینوں کبھی مجھے دیکھتے کبھی دبی نظروں سے مریضوں کو ۔مجھے سخت کوفت شروع ہوئی ۔اس کو آنا ضروری تھا ایک دن بھی نہیں رکتی ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی میں امن کی ندیاں بہتی تھیں اور میری کلینک پر مریضوں کا بے تحاشہ رش ہوتا تھا ۔عموما ًدو ڈھائی بجے میں فارغ ہوجاتی تھی لیکن کبھی کبھی رش بہت ہوتا تو تین بھی بج جاتے ۔تھکن سے میرا برا حال ہوجاتا ۔اور سارے مریضوں کے بعد جب کلینک خالی ہوتی وہ ملتجی نظروں سے مجھے دیکھتی ۔ ان دنوں تندور کی روٹی دو روپے کی ملا کرتی تھی ۔اسے پانچ روٹیوں کے لیے دس روپے چاہیے ہوتے تھے ۔نہ جانے ان دنوں میری فیس بھی…

مزید پڑھیں

دُعا- بتول ستمبر ۲۰۲۱

مجھے اپنا عکسِ جمال دے مجھے حسنِ حرف و خیال دے
مجھے وہ ہنر وہ کمال دے کہ زمانہ جس کی مثال دے
مرے آئینے میںنہ بال دے نہ تُو سیم و زر کا ملال دے
مجھے کر غنی جو تُو مال دے مرے ہاتھ میں نہ سوال دے
نہ تو مست کر دے وہ حال دے نہ ہی نعمتوں کا زوال دے
تجھے جو پسند ہے میرے رب مجھے زندگی کی وہ چال دے
مری سمت سکّہ اچھال دے مری کوششوں کو مآل دے
مجھے موسموں سے بچا کے رکھ مجھے اپنے لطف کی شال دے
مجھے حرفِ کُن سے نواز دے مری مشکلوں کو تُو ٹال دے
مری لغزشیں ہیں قدم قدم مرے ہر قدم کو سنبھال دے
کوئی شاہ کیا کوئی جاہ کیا مجھے حیرتوںسے نکال دے
میں غلام تیرے حبیب کا مجھے سوز و ساز ِ بلال دے
ترے دشمنوں سے ہو واسطہ تو مجھے تُو حق کا جلال دے
مجھے اپنی نصرت ِ خاص دے مجھے اپنے نام کی ڈھال دے
مجھے رزق میرا حلال دے نہ خیانتوں کا وبال دے
میری آنکھ ٹھنڈی رہا کرے مجھے ایسے اہل و عیال دے
تُو دعائیں میری قبول کر مجھے ربِّ جاہ و جلال دے
ہو تری جناب میں محترم مجھے ایسا دستِ سوال دے

مزید پڑھیں

غزل-بتول جنوری ۲۰۲۱

کالی رات اکیلا چاند
پھرتا ہے آوارہ چاند
چمکیلا بھڑکیلا چاند
پاگل من کا سودا چاند
دل داروں پر ہنستا چاند
سوکھی شاخ سا پتلا چاند
آنکھیںدیکھیں اک سپنا
بھیگی رت اور پورا چاند
سارا گاؤں نکل آیا
جب ندی میں اترا چاند
دل کی بات سنے کوئی
دیواروں سے کہتا چاند
جوبن پہ جب آئی رات
تم نے بھی تھا دیکھا چاند
اس نے بال بکھیرے جب
شرمایا گھبرایا چاند
ہم نے بھی دیکھے تھے خواب
ہم نے بھی مانگا تھا چاند

مزید پڑھیں