کوثر خان

سوفٹ وئیر انجینئر – کوثر خان

’’ارے جنید پتہ نہیں کہاں چلاگیا مجھے چھوڑ کے؟ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں موٹر سائیکل پر بیٹھی بھی نہیں اور وہ اسٹارٹ کرکے یہ جا وہ جا۔عجیب لڑکا ہے یہ‘‘۔
نادیہ بیگم شاپنگ مال جانے کے لیے اپنے بیٹے جنید کے ساتھ نکلی تھیں،گھر سے تھوڑے فاصلے پر وہ کچھ لینے کے لیے اتریں۔واپس موٹر سائیکل کی طرف مڑیں تو جنید موٹر سائیکل سمیت غائب تھا۔وہ سڑک کے کنارے پریشان کھڑی سوچ رہی تھیں اب میں کہاں جاؤں؟ گھر کی چابی ان کے پاس تھی نہیں۔کوئی موبائل بھی نہیں تھا۔اب کروں تو کیا کروں؟
اسی سوچ بچار میں تھیں کہ اچانک خیال آیا کہ اپنی سہیلی آصفہ کے گھر چلی جاتی ہوں۔اس کے فون سے بیٹے کو فون بھی کرلوں گی۔یہ سوچ کر وہ قریب میں واقع آصفہ کے گھر کی طرف روانہ ہوگئیں۔وہاں پہنچ کر انہوں جنید کو فون کرکے پوچھا’’بیٹا ! تم کہاں ہو؟‘‘
جنید بھی پریشان ہوکر بولا’’امی! میں تو شاپنگ مال کے سامنے کھڑا ہوں۔میں نے موٹر سائیکل سے اتر کر دیکھا تو آپ تھیں ہی نہیں۔میں تو سمجھا تھا کہ آپ موٹرسائیکل پر بیٹھ چکی ہیں اس لیے میں نے موٹر سائیکل چلادی۔میں تو راستے میں آپ سے باتیں بھی کررہا تھا اور سوچ رہا…

مزید پڑھیں

غنچہ وگل کی آبیاری بچوں کی تربیت کے لیے چند اہم نکات – کوثر خان

بچوں کی تربیت والدین کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔ اولاد اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے،اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا اس کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا نعمت کی شکر گزاری ہے اور نعمتوں کا اپنی مرضی سے استعمال کرنا اور غفلت برتنا ناشکری ہے۔کسی دانا کا قول ہے:
’’ تعلیم کی کمی کو تربیت ڈھانپ لیتی ہے لیکن تربیت کی کمی کو تعلیم پورا نہیں کرسکتی‘‘۔
آ ج کے اس پرفتن دور میں والدین کے لیے خاص طور پر ماؤں کے لیے بہت توجہ اور محنت سے بچوں کی تربیت کی ضرورت ہے، کیونکہ میڈیا کے اس دور میں بچوں کے بگڑنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ خاص طور پر موبائل تک رسائی نے نئی نسل کو بہت تیزی سے بے راہ روی کی طرف گامزن کردیا ہے۔ موبائل اپنے فوائد کے ساتھ ساتھ ایک سحر انگیز اور ہلاکت خیز آلہ بھی ہے۔اس سے فرار بھی ممکن نہیں اور اس کے استعمال پر مطمئن بھی نہیں رہا جا سکتا۔مائیں بچوں کو موبائل دے کر بے فکر ہوجاتی ہیں۔ انہیں یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ آلہ بچوں کے لیے کس قدر تباہی لا سکتا ہے۔
بچوں کی تربیت کے حوالے سے چند…

مزید پڑھیں

نیا ساحل – کوثر خان

نیند صبا کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ دل درد سے پھٹا جارہا تھا۔وہ اپنا غم کہتی بھی تو کس سے؟ بہن کوئی تھی نہیں اور اماں پہلے ہی اس کی وجہ سے دل کی مریض بن چکی تھیں۔دو دفعہ انجائنا کا اٹیک ہوچکا تھا۔اس لیے وہ اماں سے بات کرتے ہوئے محتاط رہتی تھی۔پرآج تو بات ہی کچھ ایسی ہوئی تھی جس نے اس کا دل ہلا کر رکھ دیا تھا۔وہ اپنی ننھی اریبہ کے لیے عید کی پیاری سی فراک خرید کر لائی تھی اور بہت خوش تھی کہ ننھی اریبہ میچنگ کی چوڑیاں اور ہئیر بینڈ لگا کر ’’ننھی پری‘‘ لگے گی۔
لیکن عدنان نے انتہائی معمولی سی بات پر غصے میں آکرفراک کو چولہے پر رکھ کر جلا دیا تھا۔پھراحتجاج کرنے پر ایک بھرپور طمانچہ اس کے گال پر پڑا تھا۔اس سے پہلے بھی اس کا دل کئی مرتبہ ٹوٹا تھا ۔لیکن آج تو جیسے ریزہ ریزہ ہو گیا تھا ۔ چہرہ غم سے سفید پڑ گیا۔رمضان کا آخری عشرہ تھا اور قبولیت کی گھڑی….اللہ تو ٹوٹے دل کی فریاد ضرور سنتا ہے۔ اس نے گڑگڑا کر دعا کی۔
’’یا اللہ میرے لیے جو فیصلہ بہتر ہو مقدر فرمادے۔میں…

مزید پڑھیں