براہ کرم اس مواد کو دیکھنے کے لئے لاگ ان کریں۔
نیند صبا کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ دل درد سے پھٹا جارہا تھا۔وہ اپنا غم کہتی بھی تو کس سے؟ بہن کوئی تھی نہیں اور اماں پہلے ہی اس کی وجہ سے دل کی مریض بن چکی تھیں۔دو دفعہ انجائنا کا اٹیک ہوچکا تھا۔اس لیے وہ اماں سے بات کرتے ہوئے محتاط رہتی تھی۔پرآج تو بات ہی کچھ ایسی ہوئی تھی جس نے اس کا دل ہلا کر رکھ دیا تھا۔وہ اپنی ننھی اریبہ کے لیے عید کی پیاری سی فراک خرید کر لائی تھی اور بہت خوش تھی کہ ننھی اریبہ میچنگ کی چوڑیاں اور ہئیر بینڈ لگا کر ’’ننھی پری‘‘ لگے گی۔
لیکن عدنان نے انتہائی معمولی سی بات پر غصے میں آکرفراک کو چولہے پر رکھ کر جلا دیا تھا۔پھراحتجاج کرنے پر ایک بھرپور طمانچہ اس کے گال پر پڑا تھا۔اس سے پہلے بھی اس کا دل کئی مرتبہ ٹوٹا تھا ۔لیکن آج تو جیسے ریزہ ریزہ ہو گیا تھا ۔ چہرہ غم سے سفید پڑ گیا۔رمضان کا آخری عشرہ تھا اور قبولیت کی گھڑی….اللہ تو ٹوٹے دل کی فریاد ضرور سنتا ہے۔ اس نے گڑگڑا کر دعا کی۔
’’یا اللہ میرے لیے جو فیصلہ بہتر ہو مقدر فرمادے۔میں…