حوری – بتول فروری ۲۰۲۱
میں داخلہ وارڈ کے لمبے برآمدے کے تقریباً آخر میں پہنچ چکی تھی کہ یکدم پیچھے سے غیر متوازن تیز تیز قدموں کی چاپ سنائی دی اور ساتھ ہی آواز کی پکار بھی، ’’ڈاکٹر ذرا رُکیے‘‘۔ قدم وہیں ساکت ہو گئے، جو پلٹ کر دیکھا تو وہ مارگریٹ سمتھ تھی، جو دو روز پہلے ہی سات نمبر وارڈ میں داخل ہوئی تھی اور اِس کے ساتھ صرف اتنا ہی تعارف تھا کہ اِس کا پورا معائنہ میں نے کیا تھا۔ دائیں ہاتھ کی کلائی کو گہرے زخم اُس نے خود لگائے تھے۔ جب بھی اُس پر رنج و الم کا دورہ پڑتا، وہ اپنی کلائیاں کاٹ لیتی اور اِسی حالت میں ہسپتال بھیج دی جاتی۔ اِس مرتبہ بھی جب وہ آئی، تو وارڈ سسٹر اور سٹاف کے لیے کوئی نئی مریضہ نہیں تھی۔ معمول کے مطابق اِس کی مرہم پٹی کر دی گئی اور ساتھ ہی معائنہ کے لیے ڈاکٹر