نیّر کاشف

صحرا سے بار بار وطن کو ن جائے گا (حصہ اول) – مارچ ۲۰۲۱

صحرا کانام سنتے ہی ذہن میں تاحد نگاہ ریت آتی ہے اور صحرائے تھر کا نام سنتے ہی بھوک، پیاس اور سوکھے کی بیماری تصور میں آتی ہے۔ یوں تو شاعر نے کہا تھا۔ ـدیکھنا ہے تجھے صحرا تو پریشاں کیوں ہے کچھ دنوں کے لیے مجھ سے میری آنکھیں لے جا ہم ہرگز اپنی آنکھیں ادھار نہیں دے رہے لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ آئیے آج ہماری آنکھوں سے صحرا کو دیکھیے ۔ لیکن اس سے پہلے ایک چھوٹی سی بات ، ہم کوئی منجھےہوئے سفر نامہ نگار تو ہیں نہیں ، اس لیے سقم کی گنجائش کے طلبگار ہیں ، بس جیسے جیسے جو کچھ دیکھا اگر اسی ترتیب سے یاد آتا گیا تو لکھتے جائیں گے ورنہ جو بات جب یاد آ گئی کہہ دیں گے ، تو کچھ ٹیڑھ میڑھ برداشت کیجیے گا، درگزر فرمائیے گا۔ تو قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے صاحب

مزید پڑھیں

غزل – بتول جنوری ۲۰۲۳

نگاہِ لطف و ادا تیری چاہیے بھی نہیں کہ تیری ذات سے وابستہ کچھ گِلے بھی نہیں مچل مچل اٹھے دھڑکن ، دہک اٹھیں رخسار تیری جناب سے کچھ ایسے سلسلے بھی نہیں نہ گفتگو میں جب الفاظ کی ضرورت ہو کچھ اس طرح سے تو یہ دل کبھی ملے ہی نہیں تیرے خیال کی خوشبو سے جو مہک جائیں چمن میں پھول تو ایسے ابھی کھلے ہی نہیں غم جدائی و کرب و ملال چہ معنی ہوں فاصلے بھی کہاں جب کہ رابطے ہی نہیں

مزید پڑھیں

کاسہِ دل میں – بتول جنوری ۲۰۲۳

دھیان کی سلائی پہ لفظ بُنتےبُنتے میں دانے بھول بیٹھی ہوں ان کی بات سننے میں ان کا دھیان رکھنے میں خود کو رول بیٹھی ہوں ہائے کاسہِ دل میں آرزو کے دھوکے میں زہر گھول بیٹھی ہوں

مزید پڑھیں

میں حوّا کی بیٹی – بتول مارچ ۲۰۲۳

میں حوّا کی بیٹی میں ساتھی ، میں ہمسر مجسم رفاقت ، مجسم سکینت صفا اور مروہ کی وجہ ِتقدس میں ہی ہاجرہ ہوں میں زم زم کا منبع میں صحرا کی زینت سراسر وفاہوں میں پاکیزہ مریم نشانِ عزیمت خدیجہ ہوں صفیہ ہوں حفصہ ہوں خولہ ہوں میں عائشہ ہوں میں آنکھوں کی راحت ہوں میں فاطمہ ہوں میں بابا کی جاں ہوں عزیز از جہاں ہوں میں عمّارہ میداں میں چہرہ چھپائے جھپٹتی ہوئی چیرتی میں صف دشمناں ہوں میں ام رُفَیدہ ہوں خیمے میں مرہم بناتی مجاہد کے زخموں پہ رکھتی ہوئی اس کی ہمت بندھاتی میں حرفِ دعا ہوں کوئی چھپ کے حملہ کرے تو میں صفیہ میں بیٹوں کو میداں میں بھیجوں تو اسما سمیہ ہوں میں صبر کی اک چٹاں ہوں زنیرہ ہوں میں نہدیہ ہوں میں اُلفت، میں راحت مروت ، مودت میں نعمت، میں رحمت میں آرامِ جاں ہوں سراپا محبت ،

مزید پڑھیں

غزل – بتول جون ۲۰۲۳

آرزو کا شمار کیا کیجیے وصل کا انتظار کیا کیجیے کوئی قابض ہؤا خیالوں پہ تو بہانے ہزار، کیا کیجیے ان کی اب گفتگو کسی سے ہے لفظ اپنے شمار کیا کیجیے آپ ہی آپ مسکرانے لگے ان کا بھی اعتبار کیا کیجیے جس نےتھاما ہے ہاتھ اوروں کا اس پہ یہ جاں نثار کیا کیجیے دل کی پروا رہی کہاں ان کو دل کو پھر تار تار کیا کیجیے چھن گیا جو عزیز تھا سب سے آیتوں کا حصار کیا کیجیے موت کی منتظر ہوئیں نظریں زندگی کا خمار کیا کیجیے

مزید پڑھیں

صحرا سے بار بار وطن کون جائے گا! صحرانواد -بتول اپریل ۲۰۲۱

تھر ہمیں اپنی محبت کے سحر میں جکڑچکا تھا … ہمیں یقین ہؤا کہ محبت لمحے میں وارد ہو جاتی ہے! صاف ستھری سیدھی سڑک پہ گاڑی تیز رفتاری سے رواں تھی ۔ سڑک کے دونوں جانب صحرا تھا، ہم کہا نیوں اور ناولوں کی بنیاد پہ بننے والے تصورکے مطابق صحرا میں تاحد نگاہ ریت تلاش کر رہے تھے جب کہ یہاں دونوں طرف چھوٹے بڑے ریت کے ٹیلے اور بے شمار صحرائی پودے تھے ، اس کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ جانوروں کے ریوڑ چرنے میں مصروف نظر آئے۔ کہیں بکریاں ، کہیں بھیڑیں ،کہیں گائیں اور کہیں اونٹ ، یہ اونٹ ہمارے کراچی کے ساحل پہ نظر آنے والے اونٹوں کے مقابلے میں خوب اونچے لمبے اور صحت مند تھے ۔خاص بات یہ تھی کہ ان جانوروں کے ساتھ کوئی چرواہا دور دور تک نظر نہیں آیا، صاحب نے بتایا کہ یہ جانور خود ہی کھا پی کر

مزید پڑھیں