جب اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف اندھیرا تھا۔اس نے بے ہوشی سے پہلے کا منظر یاد کرنے کی کوشش کی۔اچانک ہلکی ہلکی تلاوت کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی جو غورکرنے پر اسے اپنے بالکل نیچے کی طرف سے آتی محسوس ہوئی۔
’’ کیا ہم شہید ہو کر اجتماعی قبر میں ہیں؟‘‘
’’ شہید بے شک زندہ ہوتے ہیں لیکن ابھی ہمارے حصے کا کچھ کام باقی ہے‘‘۔
حمدان کی آواز نے اسے سب کچھ یاد دلا دیا، کیسے وہ ہاسپٹل میں لائے جانے والے مریضوں اور زخمی بچوں کی وڈیوز بنا رہا تھا کہ اسی دوران قریب ہی ہونے والےدھماکے کے بعد ہونے والی افرا تفری میں حمدان اور وہ تیزی کے ساتھ بھاگنے لگے،عمارتیں گرتی جارہی تھیں۔ جانے کب ڈھیتی ہوئی چھتوں سے بچتے بچاتے،بھاگتے آخر وہ بھی زد میں آ ہی گئےاور انہوں نے اپنے ہوش گنوا دیے۔
’’حمدان….حمدان…. تم ٹھیک ہو؟‘‘
’’ہاں شاید….ابھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا‘‘۔
اوہ میرا کیمرہ ۔
اس نے جلدی سے اپنی کمر اور کندھے کے گرد بیلٹ کو ٹٹولا اور الحمدللہ کہہ کر بڑی کوشش کے بعد خود کو سیدھا کیا۔ جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کرتے ہی اسے ارد گرد کا منظر واضح نظر آنے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ ملبے کا…