عبدالمتین

خوشگوار ازدواجی زندگی کے راہنما اصول – مارچ ۲۰۲۱

ہم اکثر نکاح کا خطبہ سنتے رہتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس خطبے میں کیا کہا جارہا ہے؟ خطبہ نکاح میں حمد وصلوٰۃ کے بعد قرآن کریم کے جن 3مقامات سے تلاوت کی جاتی ہے ان تینوں میں حیرت انگیز طور پر نکاح کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے، بلکہ تینوں جگہ ایک ہی مضمون پر زور دیا گیا ہے اور وہ ہے ’’تقویٰ‘‘۔ تقویٰ اور پرہیزگاری ایک ایسا موثر عنوان ہے جس کے تحت بہت سے مسائل خود حل ہوجاتے ہیں۔ خطبہِ نکاح کا پیغام اللہ رب ا لعزت نے خطبہ نکاح میں تقویٰ پر ہیزگاری کا حکم ارشاد فرما کر اس جانب توجہ دلائی کہ میاں بیوی ایک خوشگوار ازدواجی زندگی اور ایک پرسکون گھر اس وقت بنا سکیںگے جب دونوں ’’تقویٰ‘‘ کے زیور سے آراستہ ہوں، ان دونوں کو اپنے ہر عمل کی جوابدہی کی فکر لاحق ہو۔ اللہ کے ہاں

مزید پڑھیں

مشورہ کرنا اچھا ہے! – بتول دسمبر ۲۰۲۱

کوئی بھی ایسا جائزکام جو فرض یاواجب نہ ہو، ایسا کام کرنے سے پہلے جلد بازی کرنے کی بجائے دو کام کرنا سنت ہے : 1۔استخارہ یعنی اللہ رب العزت سے اس کام کے خیر کے پہلو کی دعا کرنا کہ یا اللہ اگر فلاں رشتے ، کاروبار ، ملازمت وغیرہ میں اگر میرے لیے دنیا آخرت کی خیر ہے تو مجھے نصیب فرما ورنہ مجھے بچا کر کوئی نعم البدل عطا فرما۔ 2۔ استشارہ یعنی اللہ کے بندوں سے اس کام کے متعلق مشورہ کرنا ۔ استخارہ اور استشارہ کی فضیلت سے متعلق مقولہ ہے کہ : ماخاب من استخار ولا ندم من استشار یعنی جس نے استخارہ کیا وہ کبھی دھوکے کا شکار نہیں ہوا اور جس نے مشورہ کیا وہ کبھی شرمندگی اور پچھتاوے کا شکار نہیں ہؤا۔ چونکہ انسان ہرفن مولیٰ نہیں بن سکتا لہٰذا کچھ امور میں متعلقہ ماہرین سے رائے لینا پڑتی ہے اور

مزید پڑھیں

ہماری گفتگو ہماری پہچان – بتول جنوری ۲۰۲۲

اللہ رب العزت نے انسانی جسم میں اعضا کی بناوٹ اور درستی کے حوالے سے قرآن کریم میں ’’تسویہ‘‘ کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے۔ ’’الذی خلقک فسوک‘‘ جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعضا کو درست اور برابر کیا۔ (انفطار) یعنی انسانی اعضا ایک اندازے اور اٹکل کے طور پر نہیں بلکہ ہر عضو اپنی جگہ بھرپور افادیت کے ساتھ جڑا ہؤا ہے اور اس عضو کا انسانی جسم میں اسی خاص مقام میں ہونا ہی انسان کے لیے مفید اور بہتر ہے۔ انہی اعضا میں ایک بہت بڑی نعمت ’’زبان‘‘ کی نعمت ہے جو انسانی کردار کی لفظی ترجمانی کرتی ہے۔قرآن کریم سورۂ رحمٰن میں ’’علمہ البیان‘‘ کہہ کر اس نعمت کا بطور خاص ذکر فرمایا کہ رحمٰن وہ ذات ہے جس نے انسان کو قوت بیان اور قوت گویائی عطا کی ۔یہ اسی کااعجاز ہے کہ انسانی ذہن جو سوچتا ہے اس سوچ کا اظہار سیکنڈوں سے

مزید پڑھیں

دعوتِ دین چند گمنام گوشے – بتول فروری ۲۰۲۳

قرآن کریم میں موجود انبیاء کے قصص قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے بہت سے موضوعات کے ساتھ ساتھ انبیاء کے قصوں کو بھی ذکر فرمایا ہے اور قرآن کی زبان میں اس مضمون کا مقصد عبرت قرار دیا ہے ’’لقد کان فی قصصھم عبرۃ لاولی الالباب‘‘ ترجمہ: یقیناً انبیاء کے قصوں میں عقلمندوں کے لیے عبرت کا سامان ہے‘‘ لہٰذا قرآنی قصے، قصہ برائے قصہ نہیں بلکہ قصہ برائے عبرت کے اصول سے مذکور ہیں، تاکہ ہم انسان ماضی کے ان قصوں کو سمجھ کر سبق سیکھیں، اپنے حال کا تجزیہ کریں اور اپنے مستقل کے لیے حکمت عملی طے کرسکیں۔ ان قصوں میں چند معروف انبیا کے قصے بالخصوص مذکور ہیں جن میں حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم ، حضرت یوسف ؑ کے قصے ہیں۔ان قصوں میں غور کیا جائے تو انبیا کی دعوت کے کئی پہلو واضح نظر آتے ہیں جس سے ان کی دعوت

مزید پڑھیں

لایعنی – بتول مئی ۲۰۲۲

لایعنی ایسے کام کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی مقصد ہی وابستہ نہ ہو۔ حکماء لایعنی کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ’’ہر وہ کام جس میں دین، دنیا کا کوئی بھی فائدہ نہ ہو‘‘۔زندگی مختصر ہے اسی لیے آپ علیہ السلام نے حدیث میں فرمایاکہ ایک مسلمان کے اسلام کو ماننے کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک اہم خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی سے اپنے آپ کو بچاتا ہے۔لایعنی میں مبتلا انسان دین دنیا دونوں کو ضائع کرتا ہے اور سب سے بڑی بات وہ اپنی زندگی کو ضائع کرتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہےکہ لایعنی سے زندگی کیسے ضائع ہوتی ہے ؟ در اصل زندگی کسی مخصوص لمحے کا کام کا نام نہیں، ایک عربی مقولہ ہے کہ الوقت ھو الحیات کہ وقت ہی زندگی ہے۔ کیونکہ ہم جو زندگی گزارتے ہیں وہ در حقیقت ایک وقت ہی ہوتا ہے جو سیکنڈ سے منٹ،

مزید پڑھیں

وحی الٰہی کا مختصر تعارف- بتول جون ۲۰۲۱

وحی کی اہمیت انسان اپنی زندگی میں ان سوالات پر بہت زیادہ غور و فکر کرتا ہے۔ میں کیوں پیدا ہؤا؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟اس کائنات کو کس نے اور کیوں بنایا؟ جب سب ختم ہوجائے گا تب کیا ہوگا؟ زندگی کیسے گزارنی چاہیے؟ علم کے ذرائع ان تمام سوالات کے جواب کے لئے علم ضروری ہے اور علم تین ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔ ۱۔ حواس خمسہ ۲۔ عقل ۳۔ وحی مثلاً بندوق کو دیکھ کر حواس خمسہ کے ذریعےاس کا سائز اور رنگ معلوم ہوتا ہے اور عقل کے ذریعے پتہ لگتا ہے کہ اس کو چلانے سے بندہ مرجاتا ہے۔ لیکن اس بندوق کو کہاں چلانا ٹھیک ہے اور کہاں نہیں یہ علم ہمیں نہ حواس سے ملتا ہے اور نہ ہی عقل سے بلکہ اس کے لیے ”وحی“ کی ضرورت ہے اور وحی ایسا علم ہے جو ایسی چیزوں میں رہنمائی کرتا ہے جہاں

مزید پڑھیں