طلعت نفیس

بس سٹاپ – بتول نومبر ۲۰۲۲

مجھے گمان ہے کہ آج پھر میں ناکام لوٹ جائوں گا۔
معید ہا تھ میں بریف کیس لیے بس اسٹاپ پر کسی حقیقی ضرورت مند کے انتظار میں تھامگر روزمرہ کے فقیر اور خواجہ سرا جو ہرطرح سے کما کر اپنا گزارا کر لیتے تھےعلاوہ اس کو کوئی حقیقی ضرورت مند نظر آیا نہ سمجھ ۔وہ اپنی چالیس سالہ زندگی میں بہت سا تجربہ جمع کر چکا تھا۔
رات خاصی گہری ہو چکی تھی اور سخت سردی کے باعث نیون سائن بھی اونگھ رہے تھے ۔وہ بریف کیس لیے مایوسی سے پلٹ رہا تھاکہ سستے پرفیوم کی تیز مہک نے اس کو پلٹنے پر مجبور کردیا۔ وہ میک اپ اور خوب تراش خراش کے کپڑوں سے آراستہ تھی جن کی فٹنگ نے اس کے جسم کی بناوٹ کو اچھی طرح نمایاں کر دیا تھا۔ حلیے سے وہ خواجہ سرالگ رہی تھی مگر معید کو اس کی حرکات میں کوئی چیز کھٹک رہی تھی۔
اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھیک نہیں مانگ رہی تھی بلکہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتی ، پھر بس اسٹینڈ کی یخ بستہ اسٹیل کی بنچ پر بیٹھتی اور پھر کھڑی ہوکر ٹہلنے لگتی ۔ایک دو افرادبھی اس کے پاس آئے، کچھ بات…

مزید پڑھیں

درد آشنا – طلعت نفیس

آج معیز کے انتقال کو چار ماہ دس دن گزر چکے تھے۔اچھا خاصاجواں سال معیز اسنیچنگ کا شکار ہو گیا۔
راحمہ کے میکے میں دور دراز کے رشتے داروں کے سوانہ والدین نہ بہن بھائی ….شادی کےوقت صرف اس کی امی تھیں وہ بھی شدید بیمار۔ راحمہ کی ساس اور امی اسکول کے دَور کی سہلیاں تھیں۔راحمہ کی شادی کےایک سال بعد اس کی امی بھی ساتھ چھوڑ گئیں۔یوں راحمہ کی مکمل دنیا اب اس کی سسرال تھی۔
معیز نہایت پیار کرنے والا اور خیال رکھنے والا شوہر تھا ۔راحمہ کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔تین سالہ معوذ، راحمہ اور بوڑھے ماں باپ….بس اللہ ہی بہتر جانتاتھا ۔ یقناًاس نے کچھ اچھاہی سوچا ہوگا۔
” دیکھو بیٹا اب تمھاری عدت کی مدت پوری ہو گئی ہے تم شادی کرلو “راحمہ کی ساس آمنہ بیگم نے اپنی جواں سال بیوہ بہو کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
” نہیں امی میں اپنے بیٹے کے بنا نہیں رہ سکتی۔ میرے لیے بس آپ لوگ ہیں نا‘‘۔
’’آپ بابا اور معوذ“اس نے گود میں لیٹے معوذ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’پھر معیز کی یادیں میرے کافی ہیں‘‘اس کی آنکھیں چھلک پڑیں’’مجھے اور کچھ نہیں چاہیے‘‘اس نے قطعیت سے جواب دیا۔
’’اور اگر کوئی معوذ کے ساتھ…

مزید پڑھیں