غزل/نثری نظم: یادیں اور باتیں – بتول دسمبر ۲۰۲۰
غزل زمانے سے بغاوت کیوں کریں ہم ملیں، چھپ چھپ کے لیکن کیوں ملیں ہم یہ کب لازم ہے سب، سب کو خبر ہو دلوں
غزل زمانے سے بغاوت کیوں کریں ہم ملیں، چھپ چھپ کے لیکن کیوں ملیں ہم یہ کب لازم ہے سب، سب کو خبر ہو دلوں
حمد اللہ سب کا مالک ہے رازق ہے اور خالق ہے ارض و سما ہیں سارے اُس کے سورج چاند ستارے اُس کے وہی تو
دریا کی سیر اِک دن ابا ہم کو لے کر گئے دریا کے پار خوشی خوشی سے بھاگے ہم توگلوں کے لے کے ہار بریانی
پٹھو گرما گرم کھیلیں گے آج ہم تو پٹھو گرما گرم بنیں گی اب دو ٹولیاں کوئی نہیں ہے کم کھیلیں گے آج ہم تو
کوئی دارو تو اس مرضِ کہن کا بھی خدارا دو جو خدمت گار کا حق ہے، اسی کو حق وہ سارا دو غلام اب ہے
This Content Is Only For Subscribers Please subscribe to unlock this content. I consent to processing of my data according to Terms of Use
This Content Is Only For Subscribers Please subscribe to unlock this content. I consent to processing of my data according to Terms of Use
غزل ہم سفر پھر نئے سفر میں ہیں ہم اسی آرزو کے گھر میں ہیں حالِ دل کی خبر نہ پھیلا دیں وہ جو بے
حمد
کتنا حسیں اس نے انساں بنایا
فرشتوںسے سجدہ بھی اس نے کرایا
یہ اُس کا کرم ہے یہ اُس کا کرم ہے
بھٹکے ہوئوں کو ہے رستہ دکھایا
دوزخ میں گرنے سے ہم کو بچایا
یہ اُس کا کرم ہے یہ اُس کا کرم ہے
رہِ زندگی میں ہدایت عطا کی
محمدؐ کی صورت شفاعت عطا کی
یہ اُس کا کرم ہے یہ اُس کا کرم ہے
فہم دین و دنیا کا اُس نے دیا ہے
عمل کا بھی سامان اُس نے کیا ہے
یہ اُس کا کرم ہے یہ اُس کا کرم ہے
ہوا میں پرندوں کو اُڑنا سکھایا
ترانۂ حمد مل کر ان سب نے گایا
یہ اُس کا کرم ہے یہ اُس کا کرم ہے