سیف اللہ خان ( التمش)

برفیلے چنار – بتول مارچ ۲۰۲۳

جب ماں کے لمس کی خواہش ایک حسرت بن جائے …..
شاید دسمبر کی ایک یخ بستہ رات تھی ۔
گاؤں کے ہر ذرے نے سفید لباس زیب تن کیا تھا ، گھر گھر، لان اور کھیت کھلیان سب برف کی دبیز چادر اوڑھ چکے تھے ، اس قدر شدید سردی تھی کہ گھر سے باہر نکلنا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا ، لوگ سر شام گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے ، لکڑیاں چولہوں میں بھڑکائی گئی تھیں ۔ جانوروں کے اصطبل کے چاروں طرف موٹے موٹے کپڑے تان دیے گئے تھے ۔
یہ دوسری رات تھی جب سے برف باری شروع ہوچکی تھی ۔ صبح تڑکے میں ذرا سی دیر کو رکی تھی اور پھر مسلسل جاری رہی ۔ کنوؤں کے منڈیر خالی تھے۔ پانی جم کر برف بن گیا تھا۔ رات بھاری ہوچکی تھی ۔ عموماً ہم قضائے حاجت کے لیے گھر سے ذرا فاصلے پر کھیتوں میں جاکر فارغ ہو لیتے تھے ، بچوں کے لئے گھر میں ایک مخصوص برتن یا کہیں کہیں ٹین کا ڈبہ ہوتا تھا ، رات میں باہر نکلنا قدرے مشکل ہوتا تھا ۔ بڑوں کو تو کم ہی ضرورت پیش آتی البتہ چھوٹے بچے رات میں اسی ڈبے کو…

مزید پڑھیں

کیاکیا دان کیا مٹی کو – بتول مئی ۲۰۲۳

میں اس چرواہے کی طرح ہوں جو اپنی بکریاں چراگاہ سے واپس لاتے ہوئے پہاڑی غزلیں گنگناتا ہو ۔ یہ یاد اس سے بھی زیادہ سہانی ہے
حاجی مرید گوٹھ خاموش کالونی کا قبرستان ہے ۔
میں حاجی نور اللہ خان کی قبر کے سرہانے کھڑا ہوں ، حاجی صاحب کے ساتھ کئی مرد و خواتین خوابیدہ ہیں ، میں چاروں طرف دیکھ رہا ہوں ، کتبے پڑھ رہا ہوں ، میری بہن کی قبر نہیں مل رہی ۔
وہ دور مجھے بھولا تو نہ تھا کہ جب جان سے عزیز زندگی سے بھر پور زندگی کی علامت کے بچھڑ جانے پر تین سال بلاناغہ میں ہر جمعہ کے دن اپنی بہن کے اس نئے گھر میں اس کے سرہانے بیٹھ جاتا تھا ، کچھ تلاوت کرتا ، پھر خاموش بیٹھ جاتا ، بہن کا حال احوال دریافت کرتا ، قبر پر نظر پڑتے ہی مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجاتا اور سلام کر کے دعائیں لیتے واپس آتا ، مجھے ہمیشہ ایسا ہی لگا جیسے وہاں قبر نہیں بلکہ زندہ و تابندہ وہ ہمیشہ کی طرح آنکھوں میں زندگی بھر کے مجھے دیکھ رہی ہوتی ، مجھے تسلی دیتی ، امی ابو بہن بھائیوں کے حال احوال پوچھتی ، کچھ اپنی سناتی کچھ…

مزید پڑھیں