زینب جلال

فر ابھی طے کرنا ہے – بتول اگست۲۰۲۲ – زینب جلال

صبح کے دس بج رہے تھے۔ نور فاطمہ سست روی سے گھر کے کام سمیٹ رہی تھیں ۔ آج نجانے کیوں ان کا دل زیادہ ہی بوجھل ہورہا تھا۔ شاید موسم کا اثر تھا یا گزرتے حالات کا۔اگست کا آخر ہونے کو آیا اور برسات کا سلسلہ رکنے کو نہ آرہا تھا۔
کام والے لڑکے نے ڈیوڑھی کا کنڈا بجا کر متوجہ کیا اور کہا۔
’’بی بی بیگم کھیت سے کامو کاکا آئے ہیں‘‘۔
کاموکی آمدبھی ایک کام ہی کا آغاز ہوتی ۔ وہ ڈیوڑھی کے دروازے پر آم اور ناشپاتی کے ٹوکرے رکھوارہے تھے ۔
’’ کاکا آپ بھی بس ذرا بارش رکنے کے منتظر تھےجیسے… ابھی کل ہی اناج کے بورے رکھواکر گئے ہیں اور آج یہ اتنے پھل !ابھی گودام میں رہتے تو حفاظت رہتی برسات میں گھر پر سنبھالنا مشکل ہوگا‘‘۔
نور بی بی نے پردے کی اوٹ سے ذرا سخت لہجے میں کہا۔
کامو کاکا پردے کے باوجود نظریں جھکائے بیٹھے تھے مؤدب ہوکر بولے۔
’’بی بی ہر سال کی طرح برسات نے پھلوں میں رس اور خوشبو تو بسادی لیکن یہ کیسی ہوا چلی ہے کہ انسان کڑوا ہوگیا ۔بھری برسات میں بیرسٹر صاحب کے گودام ان کے مزارع نے بلوائیوں سے مل کر لوٹ لیے کھیت اجاڑ دیے ۔ تب…

مزید پڑھیں

نئی صبحیں – زینب جلال

’’امامن بوا شام کے جھٹپٹے میں کیسے نکل آئیں ‘‘۔
مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر بیگم ڈیوڑھی کی بتی جلانے باہرآئیں تو پوٹلی سنبھالے بوا کو بیٹھا دیکھ کر حیران ہوگئیں۔
’’ارے بیوی صبح کس نے دیکھی ہے،ہم توزندگی کی شام گزار آئے۔اللہ تمہیں نئ صبحیں مبارک کرے۔ سنا ہے پاکستان جانے کا قصد کرلیا ہے‘‘ بوا جذبات سے لبریز ہوکر بولیں ۔
’’ہاں بوا کتنی جانگسل جدوجہد کے بعد ہمیں الحمدللہ اپنا وطن ملا ہے‘‘۔ بے ساختہ بیگم کے لہجے میں جوش سا نمایاں ہؤا، وہ امامن بوا کے قریب بیٹھ گئیں۔’’ مگرپاکستان بننے کی خبر کے ساتھ ہی فسادات کی آگ بھڑک گئی ہے‘‘۔
’’اب امن صرف اپنے وطن کی فضا میں ملے گا۔ تم بھی چلو ہمارے ساتھ ایک اکیلی جان ہو‘‘ بیگم نے بوا کو سمجھایا۔
’’اپنے پیاروں کی قبریں چھوڑ کر کیسے جائوں بی بی !‘‘ بوڑھے چہرے کی شکنوں میں چند آنسوخاموشی سے نکل کر کھو سے گئے ’’ہاں اپنی امانت حضرت جی کو دینے آئی ہوں ‘‘۔
امامن نے سینے سے لگی پوٹلی , ان کے سامنے کھول دی , حضرت جی مسجد سے آکر وہیں بیٹھ گئے تھے، بچےبھی اردگرد کھڑے ,سب حیران نظروں سے کھلے سامان کو دیکھ رہے تھے۔ ماں کی یادگار چاندی کی بالیاں…

مزید پڑھیں