نہ ہم نے کھلتے گلاب دیکھے نظر نہ شکلِ ببول آئی
عجیب منزل تھی جس کی راہوں میں گرد دیکھی نہ دھول آئی
لکھے تھے قسمت میں اس کی شاید نشاط کے صرف چند جھولے
وگرنہ خواہش درختِ جاں کی تمام شاخوں پہ جھول آئی
جو چند اچھے سمے مقدر سے میری جھولی میں آ گرے تھے
انھیں بھی ظالم یہ دشمنِ جان موت جا کر وصول آئی
یہ سچ ہے میں زندگی کے ہاتھوں کئی برس پہلے مر چکا تھا
اے موت اب میری جان لینے تو آئی ہے تو فضول آئی
جو شرک و تثلیث و بت پرستی کی رد میں اخلاص میں اتاری
اُس آیتِ لم یلد کی لوگو سمجھ میں وجہِ نزول آئی
نہیں تھا جب میری آنکھوں، چہرے، جبیں پہ غم کا کوئی تاثر
تو پھر کوئی آہ میرے اندر سے ہو کے کیسے ملول آئی
مجھے تو لگتا ہے زندگی بھی فقط کوئی ایک دائرہ ہے
دنوں میں جس کے نہ عرض دیکھے نہ کوئی شب مثلِ طول آئی
عجب ہے بے کیفیت کا عالم میں ہوکے بھی جیسے میں نہیں ہوں
خدارا اے زندگی مجھے تو بتا کہاں جا کے بھول آئی
ہم چلو دودھ کے جلے ہوئے ہیں
آپ کیوں چھاچھ سے ڈرے ہوئے ہیں
جاگتی ہی نہیں ہے شرم و حیا
لوگ چکنے گھڑے بنے ہوئے ہیں
چین سے وہ نہ جی سکیں گے کبھی
تیری باتوں کے جو ڈسے ہوئے ہیں
آپ سے ہم ہی شکوہ سنج نہیں
آپ بھی تو بہت بھرے ہوئے ہیں
کامیابی بہت بڑی ہے مگر
امتحاں بھی بڑے کڑے ہوئے ہیں
اجنبی کب ہیں ایک ساتھ ترے
کھیلتے کودتے بڑے ہوئے ہیں
کیا عجب دور آ گیا ہے کہ اب
کھوٹے سکے بھی سب کھرے ہوئے ہیں
فتح حاصل ہوئی ہے جب بھی کبھی
ایک پرچم کے ہم تلے ہوئے ہیں
سب کی سب سے یہاں ٹھنی ہوئی ہے
اپنی اپنی پہ سب اڑے ہوئے ہیں
کچھ بتائیں ہمیں خدا کے لیے
روٹھ بیٹھے ہیں یا بنے ہوئے ہیں
تیر و تیغ و تبر کی چھاؤں کہاں
ہم درختوں تلے پلے ہوئے ہیں
پار اتریں گے کیا ہے ڈر کہ اگر
کچی مٹی سے ہم گھڑے ہوئے ہیں
سچ بتائیں کہ کیا عدو کے لیے
ہم کبھی لوہے کے چنے ہوئے ہیں
آپ نے جتنے، آپ سے وہ دیے
جو جلائے تھے، سب جلے ہوئے ہیں
وقت پر تجھ کو سارے چھوڑ گئے
دیکھ ہم آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں
بات کیا ہے حبیبؔ آپ سے وہ
کچھ دنوں سے کھنچے کھنچے ہوئے ہیں
وہ جو ماں کے تلخ سے تند سے مجھے چھٹ پنے میں رلا گئے
وہی لہجے ڈانٹ کے پِیٹ کے مری زندگی کو بنا گئے
مرے سب گناہ مٹا گئے، ترا آسمان ہلا گئے
مرے نالے تیری جناب میں عجب ایک حشر اٹھا گئے
نہ وہ چہرہ اب ہے گلاب سا نہ رہا ہوں مثلِ شہاب سا
وہ جو دن تھے ہجر و فراق کے مرے رنگ روپ کو کھا گئے
وہ جو بت تھے ریت کے راکھ کے وہ تو دودھ تھے کسی آکھ کے
نہ تھے اہل عزت و ساکھ کے جنھیں ہم سے جانے خدا گئے
وہ جو روز و شب تھے وصال کے وہ جو روز و شب تھے فراق کے
کبھی یاد آکے رلا گئے کبھی یاد آ کے ہنسا گئے
وہ جو اٹھے لے کے کتاب کو بنا حرص اجر و ثواب کو
کیے ترک چنگ و رباب کو وہی اس جہان پہ چھا گئے
وہ جو ظلمتوں سے جہاد میں کبھی اپنے خوں سے جلائے تھے
یہ و ہی تو گھر کے چراغ ہیں جو مرے ہی گھر کو جلا گئے
میں تو اب بھی ان کا غلام ہوں، میں غلام ابنِ غلام ہوں
وہ عجب تھے لوگ سفید سے مرا خوں سفید بنا گئے
کبھی نیم شب کی دعاؤں میں جو گرے خطا کی چتاؤں میں
وہی چند اشک…
سر کی یہ آگ پیروں تک آنی ہے اور بس
اتنی سی شمع تیری کہانی ہے اور بس
پھر دیکھیے وہ جوش وہ جذبہ عوام کا
جھوٹی امید ان کو دلانی ہے اور بس
نفرت کی وہ مچے گی قیامت ہر ایک سے
ایک ایک کی ہزار لگانی ہے اور بس
ہاں آج تک اسی کی سزا کاٹتا ہوں میں
آنکھیں ہیں اور ان آنکھوں میں پانی ہے اور بس
کُل زندگی، بڑھاپا و بچپن کے درمیاں
اک مختصر سا دورِ جوانی ہے اور بس
تم کیا ہو، کس لیے ہو، کہاں لوٹ جاؤ گے
اتنی سی بات سب کو بتانی ہے اور بس
بھولا ہے مان لے گا کہاں دیر ہو گئی
گھر جاکے کوئی بات بنانی ہے اور بس
پھر دیکھیے گا رات کی سیماب پائیاں
ہر دل میں ایک جوت جگانی ہے اور بس
اُس کے حبیبؔ سارے فسانے حقیقتیں
لیکن مری کہانی کہانی ہے اور بس
کسی کو نرم بنا ئے کسی کو سخت کرے
سلوک آگ ہر اک شے کے حسبِ بخت کرے
جو کذب و جھوٹ کا تکیہ سفیرِ رخت کرے
وہ سچ پہ کیسے بھلا اپنی مہر ثبت کرے
یہ کس کے لمس کی تاثیر تھی کہ سوکھا ہؤا
اکھاڑ دینے پر آہ و بکا درخت کرے
امیر شہر کا حق فقط، اُسے مارو
غریب شہر جو لہجہ کبھی کرخت کرے
غلام نے جو کیا رحم ایک ماں پہ، کہا
خدا صلے میں عطا تجھ کو تاج و تخت کرے
کہے، نہیں ہے مساوات یاں، جو اس سے کہو
وہ اور ہی نہیں جینے کا بندوبست کرے
یہ بالا دست کا حق ہے فقط، اٹھاؤ اسے
کوئی جو رائے کا اظہار زیرِ دست کرے
گو انقلاب یہاں پر بہت ضروری سہی
مگر یہ کام کوئی کیسے ابنِ وقت کرے
جو پست پست ہے اور جو بھی ہے بلند تو بس
کوئی نہ بحث یہاں پر بلند و پست کرے
ہے فرق کیا کسی اپنے میں غیر میں وہ ذرا
بیاں جو ہم سے کبھی اپنی سر گزشت کرے
کہاں کا صبر کہ وہ ہے بہت حریصِ جزا
سو اتنا حوصلہ کیسے خدا پرست کرے
ہے سخت کاذب و مخبوطِ ہوش و عقل و خرد
ترے سوا جو کوئی دعوئے الست کرے
حبیبؔ دل میں کسی سے بھی دوریاں نہ رہیں
اگر حساب ہر ایک اپنا بود و ہست…
اے کاش جرمِ معاصی پہ اتنا رولوں میں
جو داغ دامنِ دل پر لگے ہیں دھولوں میں
تمام عمر ہی گزری اسی کشاکش میں
وہ پہلے پہل کرےگاکہ پہلے بولوں میں
کسی کے دل کو کوئی ٹھیس کیسے پہنچے گی
ہر ایک بات جو کہنے سے پہلے تولوں میں
اک اور رنگ کی دنیا ہو سامنے، آنکھیں
جو بند کرکے کبھی دل کی آنکھیں کھولوں میں
سبب ہے کیا سبھی مجھ سے کھچے کھچے کیوں ہیں
کبھی اکیلے میں خود کو ذرا ٹٹولوں میں
نہ کٹ سکیں گے اکیلے یہ عمر کے رستے
نہ دے جو ساتھ کوئی، ساتھ اپنے ہولوں میں
میں جھوٹ، جھوٹ کو اور سچ کو سچ ہی کہہ کہہ کر
کیوں زندگی کے فسانے میں زہر گھولوں میں
جہاں بھی سچ پہ زبانوں کو کاٹا جاتا ہو
وہیں تو فرض ہے مجھ پر کہ سچ ہی بولوں میں
جو اہلِ بیت سے نسبت اگر نہ ہو مجھ کو
تو شہرِ علم کا دروازہ کیسے کھولوں میں
جو شب گزار کے لوٹا ہو، گھر کا دروازہ
تو ایسے صبح کے بھولے پہ کیسے کھولوں میں
کبھی لگے نہ زمانے کی بد نظر، سر سے
حبیب بڑھ کے تمہارے بلائیں تو لوں میں