بشریٰ ودود

پیاری – بتول جنوری ۲۰۲۳

ہ بہت دیر سے تکیہ پر سر رکھے، چہرہ دوپٹے میں چھپائے روئے جا رہی تھی۔ اپنا دُکھ کہتی بھی تو کِس سے؟ اس کی تو کوئی بہن بھی نہ تھی۔ بس ایک بھائی تھا۔ پھپھو کا بیٹا! وہ بھی اتنا چھوٹا تھا۔ ابھی تیسری کلاس میں پڑھتا تھا۔ اسے بھلا کیا سمجھ آنی تھی۔ ہاں! اُسے بینا سے محبت بہت تھی۔ جب کبھی وہ دُکھی ہوتی یا آنسو اس کی آنکھوں میں سما نہیں پاتے تو وہ اس کے بہتے آنسو پونچھنے پتہ نہیں کہاں سے آجاتا۔ جانے اُسے کون بتا دیتا تھاکہ باجی اس وقت دکھی ہے ۔ آج بھی یہی ہؤا۔ وہ اس کے بستر پر آکر بیٹھ گیا۔ آہستہ سے اس کے ہاتھ ہٹا کر آنسو پونچھنے لگا۔ ’’کیا ہؤا باجی؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ چُپ ہو جاؤ۔ دیکھو میں تمہیں اپنی چاکلیٹ کھلاؤں گا….‘‘ یہ عامر کا بہت بڑا احسان ہوتا تھا۔ اس لیے

مزید پڑھیں