آمنہ راحت

سفر سعادت( ۲) – اور سامنے منزل آجائے – آمنہ راحت،برطانیہ

باہر نکل کر میںنے بھائی سے رابطہ کیا جو طواف مکمل کر چکے تھے ۔ میں بھائی کا انتظار کرنے کے لیے مطاف ہی میںجائے نماز بچھا کر بیٹھ گئی۔ جب بھائی آئے تو انہوں نے خانہ کعبہ کے سامنے میری تصویر اتاری۔ ہم اس کے بعد اپنی بہن کا انتظار کرنے کے لیے پہلی منزل کی سیڑھیوںپر جا بیٹھے ۔ وہاں سے خانہ کعبہ سامنے نظر آ رہا تھا ۔ میں نے اوربھائی نے ابھی اپنے ہاتھ دعا کے لیے بلند کیے ہی تھے کہ شرطوں نے ہمیں وہاںبیٹھا دیکھ لیا اور ’’یلہ حجہ‘‘ کرکے وہاں سے اٹھا دیا ۔ ہم وہاں پاس ہی زمین پر بیٹھ گئے ۔ بہن کے واپس آتے ہی واپس جانے کا ارادہ کیا ۔ میں باربار اپنے ہاتھ اور بازو کو دیکھ رہی تھی سبحان اللہ ! اللہ جی کیسے نا ممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں۔
قیام اللیل کے بعد ایک بار پھر میں طواف کے لیے چکروں کا قصد کر کے ہجوم میں شامل ہو گئی ۔ لا تعداد لوگ تھے ، بے انتہا رش تھا اور سب انتہائی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہے تھے ۔ کہیں فرش پر کسی کا جوتا گرا تھا تو کسی کی جراب ۔ لگتا تھا کہ…

مزید پڑھیں

سفر سعادت – اور سامنے منزل آجائے – آمنہ راحت،برطانیہ

بارہ سال کی عمر میں جب میرے والدین مجھے بڑے بہن بھائی کے پاس چھوڑ کرسعادت حج کے لیے سر زمین عرب کی جانب روانہ ہوئے تو دو وجوہات کی بنا پر میری آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی جاری ہو گئی ۔اولاً تو ماں باپ سے چالیس روز کی جدائی اور دوم خانہ کعبہ کے دیدار کی خواہش۔
جب ماما اور ابو چالیس روز بعد گھر لوٹے تو انہوں نے وہاں کی داستانیں سنائیں جن کو سن کر وہاں جانے کی خواہش دل کے کسی گوشے میں شدت پکڑتی گئی اور اللہ سے اپنے بلاوے کے لیے دعائوں کو اور تیز کر دیتی ۔ کئی بار امید بندھی مگر کسی نہ کسی وجہ سے خواب ٹوٹنے لگے ۔ کچھ ان چاہے خیالات ایسے بھی پیدا ہوئے کہ شایدمیری قسمت میں یہ نہ لکھا ہو مگر شیطان کے پیداکیے ہوئے ان وسوسوں کوکتنی بار جھٹکتی رہی ۔ تصاویر اور ویڈیوز میں اللہ کے گھر کو دیکھتی ، دعا کرتی اور اس سے پہلے کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں … اپنا دھیان گھر بچوںاور جاب میں لگا لیتی۔کبھی کبھاراس انتظار کی شدت اتنی بڑھ جاتی کہ ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے اور اللہ کے گھر جانے کے لیے بلک بلک…

مزید پڑھیں