بتول جون۲۰۲۳گھریلو ملازمین اور قانون - بتول جون ۲۰۲۳

گھریلو ملازمین اور قانون – بتول جون ۲۰۲۳

پاکستان میں گھریلو ملازمین کو کئی مسائل کا سامنا ہے ۔وہ طویل دورانیہ ملازمت ، بہت زیادہ کام لینا ،قانونی تحفظ نہ ہونا، دوران ملازمت بدسلوکی اور کبھی مار پیٹ بھی ہونا ۔چھوٹے بچوں کو کام کے لیے رکھنا ،بچوں کے والدین کو ایڈوانس رقم دے کر بچوں کو کام کے لیے رکھ لینا ، تنخواہ کا مقرر نہ ہونا اور کم ادائیگی کرنا ،بروقت ادائیگی نہ ہونا ادارہ جاتی پشت پناہی مہیا کرنا ،کھانا پورا اور بروقت نہ دینا ،پرائیویسی کا لحاظ نہ رکھا جانا وغیرہ گھریلو ملازمین کی کم سے کم تنخواہ اوقات کار وغیرہ صوبائی ملازمین سوشل سکیورٹی آرڈنینس کے دائرے میں آتا ہے۔
دنیا بھر میں کل کتنے افراد گھریلو ملازم ہیں ،اس کے کوئی مستند اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں مگر ایک سروے کے نتیجے میں جو تخمینہ سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ ہر چوتھے گھر میں ایک ملازم موجود ہےاور ان کی اکثریت خواتین اور بچے ہیں ۔عالمی لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں چار تا دس فیصدافراد گھریلو ملازمین ہیں ۔پاکستان میں گھریلو ملازمین کی تعداد تقریباً ساڑھے آٹھ ملین ہے۔
ہمارے لیبرلازمیں گھریلوملازمین کا ذکر دوبار کیا گیا ہے ۔ صوبائی ملازمین کے سوشل سکیورٹی آرڈیننس 1965 ءکے مطابق کل وقتی گھریلو ملازمین کو صحت کی سہولتیں بشمول زچگی کی چھٹی دی جانی چاہیے (55اے)۔کم از کم تنخواہ کا آرڈیننس 1961ءبھی گھریلو ملازمین کولیبر کی تعریف میں شامل کرتا ہے۔گھریلو ملازمین کے حقوق ایکٹ 2013 ء پہلا بل سینیٹ میں پیش کیا گیا تاکہ ان ملازمین پر لیبر قوانین کا اطلاق ہو سکے ۔ یہ بل پھر 2015 ءمیں پیش کیا گیا اور 2017 ءمیں یہ سینٹ سے پاس ہو گیا۔ اس کے بعد متعلقہ بل نیشنل اسمبلی کی کمیٹی میں زیر بحث ہے ۔اس کا مقصد گھریلو ملازمین کے حقوق کا تحفظ، ان کی ملازمت ، حالات اور ان کے سوشل سکیورٹی تحفظ ،صحت کی سہولیات ا ور ان کی ویلفیئر کو یقینی بنانااور ان کے لیے ایک فنڈ قائم کرنا ہے –
پنجاب میں گھریلو ملازمین ایکٹ 2019 ء، کے مطابق گھر کے کام کی تعریف یہ ہے کہ کوئی کام جو گھر کے اندر کیا جاتا ہے ۔جس میں چھوٹے بچے کی دیکھ بھال، ،بزرگوں کی دیکھ بھال ،بیماروں کی دیکھ بھال، حاملہ عورت کی وضع حمل سے پہلے اور بعد میں کی جانے والی دیکھ بھال اور اسی قسم کے گھریلو کام شامل ہیں ۔
اس ایکٹ میں ملازمین کے لیے کم سے کم عمر 15 سال ہے۔ چھوٹی عمر والا ملازم یا ملازمہ ہلکے کام کے لیے رکھا جاسکتا ہے ۔ہلکے کام کی تعریف وہ کام ہے جو بچے کی صحت تحفظ اور تعلیم کو متاثر نہ کرے ۔ان کووقتی کام کے لیے رکھا جا سکتا ہے، جب تک ان کی تعلیم مکمل نہ ہوجائے۔ یہ ایکٹ گھریلو ملازم کے لیے ’’نوکر‘‘کا لفظ استعمال کرنے سے منع کرتا ہے ،یہ ملازم کو زبردستی کام کروانے سے روکتا ہے ،اس کے علاوہ مذہب ،نسل ذات ،جنس ،مالی حالات ،جائے پیدائش ،یا رہائش وغیرہ کی بنیاد پر امتیاز برتنے سے روکتا ہے۔ بلکہ یہ بھی ذکر کرتا ہے کہ فالتو کام، گھریلو ملازم کی مرضی ہو تو لیا جائے اور پھر اضافی معاوضہ دیا جائے گا۔باعزت حالات میں رکھا جائے اس کی بیماری میں تعاون کیا جائے ، حادثہ، معذوری وغیرہ میں مدد کی جائے۔
پنجاب ایکٹ 2019ء کے مطابق گھریلو ملازمین کو 8 دن بیماری کے لیے چھٹی 6 ہفتے زچگی کی چھٹی اور 10دن تعطیلات عام ملیں گی ۔یہ ایکٹ یہ بھی کہتا ہے کہ گھریلو ملازمین کے ساتھ معاہدہ ملازمت کیا جانا چاہیے ۔ملازمت سے نکالنے کے لیے ایک ماہ کا نوٹس یا فوری رخصت کی صورت میں طرفین معاوضہ دینے کے پابند ہوں گے ۔کام کے اوقات 8 گھنٹے روزانہ ہیں اور 48 گھنٹے ایک ہفتے کے لیے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ 56گھنٹے اوور ٹائم کو ملا کر کام لیا جا سکتا ہے ۔تنخواہ بھی حکومت کی طے کردہ تنخواہ سے کم نہیں ہونی چاہیے اور جنس کی بنیاد پر اس میں تفریق بھی نہیں کی جانی چاہیے۔
کل وقتی ملازم کے لیے اچھی جائے رہائش کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ اسی ایکٹ کے مطابق تنخواہ ماہانہ اور ہر ماہ کی پانچ تاریخ تک دے دینی چاہیے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 17 کے مطابق ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسوسی ایشن بنائے ،جو کہ دیگر مذکورہ حدود و قیود کا لحاظ رکھے۔ اسی طرح کی ایک یونین پنجاب لاہور میں 2010 میں رجسٹر کروائی گئی، اس کا بننا ایک اہم امر ہے ۔
قانون کا بننا ایک اہم قدم ہے مگر اس کی آگاہی دوسرا، اور اس پرعمل اگلا اور اہم تر ہے جس میں ہم سب کو حصہ ڈالنا ہے۔
پنجاب میں گھریلو ملازمین اور گھروں کی بنیاد پر کام کرنے والے افراد کے لیے سروے 2021-22 ہؤا ہے جو کہ حکومتِ پنجاب کے لیبر اور انسانی وسائل ڈیپارٹمنٹ نے کروایا- 26 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں کل کام کرنے والے افراد کا 80 فیصد غیر سرکاری شعبہ ملازمت میں کام کرتے ہیں اوران میں سے پچاس فیصد عورتیں ہیں۔عورتیں عموماً غریب، مختلف عمر والیاں اور کم تعلیم یافتہ ہوتی ہیں، یہ اپنے گھروں میں یا قریب کے علاقوں میں کام کرتی ہیں، یہ براہ راست یا کسی اور فرد کے واسطے سے ملازمت حاصل کرتی ہیں۔
گھریلو ملازم خواتین ترقی پذیر ممالک میں ہی نہیں ترقی یافتہ ممالک میں بھی کام کرتی ہیں – ایک اندازے کے مطابق دنیا میں گھریلو ملازمین کی تعداد260ملین ہے جس میں سے 35فیصد ترقی یافتہ ملکوں میں ہیں۔گھریلو ملازم عورتیں سب سے زیادہ استحصال زدہ طبقہ ہے ۔یہ مختلف قسم کے کام کرتی ہیں جن میں سلائی ،مختلف اشیاء کی پیکنگ ، چھوٹے پرزوں کو جوڑ نا، اشیاء کو لیبل کرنا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
گورنمنٹ آف پنجاب نے گو کہ عالمی لیبر آرگنائزیشن 177سی کنونشن پر دستخط نہیں کیے تاہم اس نے گھریلو ملازمین کے تحفظ کے لیے پالیسی بنائی ہے اور قانون ’’پنجاب گھریلو ملازمین ایکٹ 2021ء‘‘کو پنجاب اسمبلی میں منظوری کے لیے متعارف کروایا ہے۔
پاکستان میں 2050تک ان افرادیعنی گھریلو ملازمین کی تعداد ا181ملین تک ہو جائے گی جن کو نہ صرف ملازمت درکار ہوگی بلکہ ان کی حفاظت کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات بھی کرنا ضروری ہو ں گے،ان کے لیے رہائش اور قدرتی آفات کا سامنا ،مہنگائی وغیرہ جیسے مسائل پر بھی توجہ کرنا ہوگی۔ جن امور کا جائزہ لیا گیا ہے وہ کام کا دورانیہ ،صحت و حفاظت کی صورتحال ،تعلیم اور عمارتوں کے حصول میں امداد ،عمر اور شادی شدہ /غیر شادی شدہ وغیرہ ہیں۔
ورک فورس میں گھریلو ملاز مین کو بہت کم شامل کیا جاتا ہے ۔ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی تعریف کے مطابق معاشرتی تحفظ کا انحصار پالیسیز اور پروگرامز پر ہے جو کہ غربت کے خاتمے کے لیے بنائے جاتے ہیں-
اکثر گھریلو ملازمین کے رویے اور معاملات بھی ناگفتہ بہ ہیں۔ کام شروع کیا، آتے جاتے راستےمیں کچھ زیادہ پیسوں کی ملازمت مل گئی، یہ جا وہ جا ،قرض لیا واپس کرنا کیا ضروری ہے، زکوٰۃ، صدقات و خیرات تو ہمارا حق ہے، ہمارے علاوہ کسی کو کیوں دیا جاتا ہے۔ کام چوری تو بدرجہ اتم موجود ،چوری کا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، کھاناکپڑا گھریلو اشیا اور کبھی تو زیورات اور نقدی بھی نہیں بخشتے۔ مالک کی خیرخواہی نہیں بدخواہی مطلوب ہوتی ہے،کچھ ملازمائیں تو گھر کے مردوں پر بھی نظر رکھتی ہیں الا ماشاء اللہ ۔
ملک کی معاشی صورتحال کی ابتری کی بنیاد پر غریب کے لیے دو وقت پیٹ بھر نا مشکل ہے ۔امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر ، متوسط درمیانہ سفید پوش طبقہ بھی غربا کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ امیروں کی بڑی بڑی کوٹھیاں کئی کئی گاڑیاں اور نوکر چاکر ہیں۔ مارکیٹ میں فلک بوس شاپنگ مالز ہیں ۔ہر بازار میں کھانے کے لیے کیفے ہیں، جن سے ان کے بچے آرڈر کر کے ہر دوسرے روز پیزا ،برگر وغیرہ کھاتے ہیں، گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کے حصے میں خالی شاپر ،ڈبے اٹھانا آتا ہے اور اس کھانے کا ذائقہ بھی کبھی نہ کبھی چکھا ہوگا ۔گھر میں تازہ اور اکثر فریج میں رکھ کر باسی کر کے ملازمین کو دیا جاتا ہے ۔
غربت کا بڑھنا، معاشی حالات کی خرابی تو ایک پہلو ہے دوسرا پہلو اخلاقیات کا ہے۔ پچاس سال پہلے گھریلو ملازم گھر کا فرد ہوتا تھا ،اس کو بیٹا بیٹی کہہ کر پکارا جاتا تھا ، یتیموں اور بیواؤں کوگھروں میں رکھتے،یہ کام میں ہاتھ بٹاتے، کھاتے پیتے اور اپنی ضروریات ، بیماری اور بچوں کی فیس ،عید، گرمی ،سردی کے کپڑے سب ان کو ملتا تھا۔ان کو اچھا ادب ،گھر کا کام کاج سکھا کران کی شادی کی جاتی ، شادی کے اخراجات بھی مالکان اٹھاتے تھے۔ فیکٹری ورکرز کو بھی مالکان اپنا مددگار سمجھتے اور کہتے یہ کہ ہماری اولاد ہے ،نوکر بھی مائی باپ کی طرح ادب و احترام کرتا ،وسیع احاطے ان کے لیے مختص ہوتے۔ ان کے کام کے بوجھ اوراس کے بدلے ان کی سہولیات کا جائزہ نہ ہوتا، بس اللہ کی رضا کے لیے یہ سب ہوتا۔
آج گھریلو ملازمین کو ملازمت دیتے ہوئے بھی کم سے کم تنخواہ سے لایا جاتا ہے ۔کوئی سٹینڈرڈ نہیں ہے۔ جو گھریلو ملازم جتنا مجبور ہوتا ہے اتنا ہی کم تنخواہ پر معاملہ طے پا جاتا ہے۔ رکھتے ہوئے کام کی تفصیل نہیں بتائی جاتی ۔یہ ذرا سا کام کر دو ،وہ کر دو، کہہ کرسارے گھر کے کام کروا لیے جاتے ہیں ۔کھانا خود کھا لیا جاتا ہے پھر ان کو دیا جاتا ہے ،کبھی بھول گئے تو اور وقت گزر گیا۔
غلطی پر سخت الفاظ میں سرزنش ڈانٹ اور کبھی کبھار مار بھی ہو جاتی ہے، ملازم معافی مانگتا رہتا ہے مجبوریاں بتاتا ہے مگر مالک کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ تنخواہ بروقت بھی کم ہی دی جاتی ہے ،کسی مجبوری کی بنا پر گھریلوملازمین کل وقتی لمبی چھٹی لیتے ہیں تو مالکان کے لیےفوری طور پر دوسرے فرد کا بندوبست ہو جاتا ہے اور ملا زمت ختم ہو جاتی ہے۔
مختلف افراد اس درد کو محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ہی ’’فلاح خواتین ٹرسٹ‘‘ کا ایک پروجیکٹ گھریلوماسیوں سے متعلق ہے، اس پر اسلام آباد کے سیکٹر آئی ایٹ میں کام ہو رہا ہے۔مرکزی دفتر ،گھر اور فرد میں رابطہ ہو جائے تو ان خواتین کو رجسٹر کر لیا جاتا ہے ،ان کے لیے ہفتہ وار پروگرام کیا جاتا ہے جس میں ان کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے نصاب ترتیب دیا جاتا ہے۔ نماز یاد ہو، قرآن پاک کی کچھ سورتیں ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھ لیں ،حدیث کی کتاب کے کچھ ابواب اور کوئی اسلامی لٹریچر کی سادہ کتاب منتخب کر لی جاتی ہیں ۔اس نظام کا مقصد ان کو دنیا میں آنے کا مقصد بتانا ،کلمہ کا مطلب ، نماز کی ادائیگی، معاملات میں سچائی حیا،صفائی ،دیانتداری ، رزق کی تقسیم پر مطمئن رہنا،رسم و رواج سے بچنا وغیرہ ہے ۔ان خواتین کو رجسٹریشن کارڈ جاری کیے جاتے ہیں – اگر شناختی کارڈ نہیں بنا ہؤا تو بنوا دیا جاتا ہے، ووٹ کا اندراج نہیں ہے تو کروا دیا جاتا ہے ،علاج معالجے کے لیے رقم اور ہسپتال بھجوایا جاتا ہے۔
روٹین کا میڈیکل چیک اپ بھی کروایا جاتا ہے حقوق کے تحفظ اور مالکان کی زیادتی کے سدباب کے لیے وکلا کے ایک گروپ ’’ویمن ایڈ ٹرسٹ‘‘ کے ساتھ طےہے کہ اگر کوئی ایسا معاملہ ہوتا ہے تو وہ کیس اٹھائیں گے۔رمضان کے مہینے میں خواتین کی حاضری دگنی ہوجاتی ہے کلاس اٹینڈ کرتی ہیں اور رمضان کے اختتام پر راشن ملتا ہے ۔ان کے لیےملازمت تلاش کی جاتی ہے اور ان افراد کو ریفر کر دیا جاتا ہے۔
قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے ایسے اقدامات کے ذریعے حکومت کا ہاتھ بٹانا ضروری ہے۔
٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here