کوئی دارو تو اس مرضِ کہن کا بھی خدارا دو
جو خدمت گار کا حق ہے، اسی کو حق وہ سارا دو
غلام اب ہے کوئی، کوئی نہ آقا اب کسی کا ہے
انہیں اس آخری خطبے کا وہ پیغام پیارا دو
جہالت، درد، غربت کی نہ چکی پیس دے ان کو
اخوت، عدل، شفقت اور محبت کا نظارا دو
سفینہ ڈوبنے پائے نہ ان مجبور لوگوں کا
انہیں طوفان سے لڑنے کو چپو دو، کنارا دو
علوم و فن کے جوہر سے انہیں بھی آشنا کر دو
پلٹ دو روز و شب ان کے، اک ایسا استعارا دو
پڑھاؤ نونہالوں کو، جگاؤ نوجوانوں کو
جہادِروزوشب میں آگے بڑھنے کو سہارا دو
پلٹ دیں گے زمانے کو، یہ ایسا عزم رکھتے ہیں
بس ان کو اپنا جوہر آزمانے کا اشارا دو
اٹھاؤ خاک سے ان کو، بناؤ سیرتیں ایسی
کوئی خالد، کوئی غزنی، سکندر اور دارا دو
ادا سیکھیں جہاں میں سر اٹھا کر آگے بڑھنے کی
جہاں میں دوسروں جیسا انہیں درجہ خدارا دو
وطن کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ہیرے ہیں یہ موتی ہیں
نہ بے قیمت سمجھ کر ان کو جینے میں خسارا دو
یہ کہسارِ عزیمت ہیں، جھکے شانوں پہ مت جانا
زماں کی تلخیوں میں بس محبت کا سہارا دو
سحرؔ کا عکس ان ویران آنکھوں سے جھلکتا ہے
شبِ تاریک کو رخصت کرو، روشن ستارا دو