کہتے ہیں کبھی کوئی ایک شخص کسی کی منزل بن کر سوچوں کا محور و مرکز بن جاتا ہے ۔ماسی زلیخا میں کوئی ایسی خاص بات تو نہ تھی کہ لیس دار محلول کی طرح ہزارجتن کے باوجود ذ ہن کےپردے سے یاد مٹ کر نہ دے لیکن کچھ ایسا ضرور تھا کہ اس کی یاد محو ہوکر نہ دے رہی تھی ۔
میری پہلی ملاقات جب ہوئی تھی تب میرا تیسرا بچہ کم وقفہ سے دنیا میں شان سے آچکا تھا ۔کچی عمر میں امی نے شادی کر دی تھی ۔پہلوٹھی کی لڑکی ربیعہ فطرتاً ضدی تھی ہمہ وقت وہ میرے پلو سے چپکی رہتی یا میں۔ بہر حال میں ،ربیعہ پھر تنزیل پھر صفورا کے دھندوں میں پھنسی رہتی ۔ میاں سمیت ہر قریبی فرد یک زبان یہی شکوہ کرتے نظر آتے کہ اپنے بچوں ہی کے پیچھے لگی رہتی ہو اپنے دائیں بائیں بھی دیکھ لیا کرو ۔ میرے دن رات انہی کی ناز برداری میں وقف ہوچکے تھے۔ ایسے میں ماسی زلیخا کی آمد جہاں میرے لیے بہار کا جھونکا ثابت ہوئی وہیں میاں سمیت گھر والوں نے بھی سکون کا سانس لیا تھا۔
زلیخامحنتی تھی۔سندھی زبان کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتی تھی۔ کام بھی کبھی نہیں کیا تھا۔حتی کہ جب اس سے کمرے کا پنکھا صاف کرنے کو کہا اور شکر میں فورا ہی کسی وجہ سے پلٹ کر کمرے میں آئی تو زلیخا سیڑھی بیڈ کے اوپر رکھ کر اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔جب تو غصہ کم خوف سے میں چیخی تھی کہ کیا مطلب پہلے کبھی کام کیانہیں؟کیا اسپتال جانے کا ارادہ ہے؟جھنجلاہٹ میں ان کو بہت کچھ کہہ بیٹھی تھی مگر پھر اس کا معصوم فق چہرہ دیکھ کر چپ ہوگئی ۔بعد کے بہت عرصہ تک زلیخا کی چھپی صلاحیتوں نے ثابت کر دیا کہ اس کو رکھنے کا فیصلہ غلط نہیں بل کہ دانشمندانہ تھا ،گو کہ زلیخا کی اصول پرستی و سادگی نے کئی بار ذہنی اذیت بھی پہنچائی تھی۔مجھے اس کی عادات سے بہت ہی کوفت رہتی تھی ۔
اس روز بھی یہ دو پہر پیاسی بیٹھی میری آمد کا انتظار کرتی رہی ۔میں کھانا گرم کر کے روٹی لپیٹ کر ٹرے میں رکھ کر ڈاکٹر کے پاس چلی گئی تھی اور پانی کا مجھے دور تک خیال بھی نہ رہا۔ماسی پیاسی بیٹھی رہی تھی۔
جب میں نے جھلا کر پوچھا ،ارے ماسی پانی فریج سے نکال کر پینے میں کیا قباحت تھی ؟
کیابولا بیٹی ؟معصومیت سے پوچھا جاتا۔
افوہ ماسی میرا مطلب فریج کھول کر پانی پینے میں آپ کو کیا مسئلہ تھا۔
نہ بیٹی نا….مالک کی اجازت کےبنا تو میں کسی چیز کو ہاتھ تک نہ لگاوں گی….کیا نلکے میں پانی نہیں تھا جو میں فریج کھول کر پیتی ….نہ بھئی۔میں امین ہوں۔
ارے اس میں خیانت کی کیا بات آگئی….اتنی شدید گرمی میں باہر دھوپ میں تپتا ہؤا نلکے کاپانی پی لیا۔فریج سے ٹھنڈا پانی نکال کر پیتی نا ۔
مجھ سے صدمے سے بولا ہی نہ گیا۔ پھر جب ہی سے میں نے آئندہ ان کو تھرماس میں پانی دے کر جانا شروع کردیا تھا۔
اس دوران میرے مزید تین بچے بھی ہوئے ۔اسپتال جاتے تک گھر ،سامان، ایک ایک چیز کی نگرانی ۔میری حفاظت ،صحت کا خیال ، میرے پیچھے تینوں بچوں کی دیکھ بھال ۔میرے پیچھے ان کے پاس کون رکے گا مجھے کبھی فکر ہی نہ ہوئی۔
اسپتال سے واپسی پر میری ننھے مہمان کے ہمراہ خوش دلی اور ناز سے استقبال کرتی ۔گو کہ میری امی ساس بھی ساتھ ہوتیں لیکن ان سے انتہائی عزت سے برتاو ،ان کے لائے کھانوں کی حفاظت ،اور حفاظت اس صورت میں بھی کہ آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھنا ،نہ ہاتھ لگانا،نہ دسترخوان
سے بندھا کھانا کھولنا،نہ ہی شاپر سے نکال کر فریج میں رکھنا۔بھلے باہر رکھے رکھے خراب ہوجائے یا فوری فریج میں رکھنے والی چیز پگھل جائے ….زلیخا کی بلا سے ۔بقول اس کے یہ امانت ہے اوریہ کام گھر والا ہی کرے گانا!
پھر ایسا بھی ہؤا کہ بڑی بیٹی کے آگے پیچھے پڑ کر اس سے فریج فریزر میں رکھوادیتی۔ لیکن اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہؤا کہ چھوٹی عمر ہی سے ربیعہ کو ذمہ دار بنا دیا۔دودھ ابل کر دیر ہوگئی آجا ربیعہ میری بچی دودھ خراب ہوجائے گا چل اس کو ٹھنڈی مشین میں رکھ دے۔
میرے سب بچوں کو ماسی نے بہت شفقت و محبت سے پالا تھا۔ان کے بالوں کی صفائی ،کپڑے، چیزوں کی دیکھ بھال حتیٰ کہ دیے گئے گفٹ میں موجود ریپر اور پیکنگ کے کچرے کو بھی اس احتیاط سے رکھ دیتی کہ صفورا مومنہ بھی جھلا جاتیں ۔
ماسی یہ تو پھینکنے والا تھا،آ پ نے اتنی احتیاط سے رکھ دیا۔
تو بٹیا !آپ ڈسٹ بن میں ڈال کر جاتی نا ….اور ماسی کے اس جواب پر دونوں ٹھنڈی ہوجاتیں۔
بدتمیزی سے بات کرنے کی تو میرے بچوں کو بالکل بھی اجازت نہ تھی ورنہ باپ کی گوشمالی سہنی پڑتی ۔یہ بات ہر بچے کو روشن تھی امان ماسی سے بدتمیزی نہیں کرنی ،جواب نہیں دینا۔
ربیعہ کی منگنی تھی گھر میں سب سامان بکھرا پڑا تھا ۔کچھ جیولری بھی آچکی تھی ۔جب ہی جیولر کا فون آیا، اس کو ایک سیٹ میں کچھ پوچھناتھا۔مجھے فوری نکلنا تھا میں پورا گھر مع گولڈ کی جیولری ماسی کے حوالے کر کے نکل گئی تھی ۔تقریباً تین گھنٹے بعد واپسی ہوئی اور میرے قیمتی سامان پر میری ماسی نگران تھی۔ مجال ہے جو کوئی بھی چیز ادھر سے ادھر ہوئی ہو ۔
ماسی میرے پیچھے کوئی آیا تھا ؟
ہاں بیٹی گھنٹیاں تو بہت بجی تھیں مگر میں بہری بن گئی تھی۔پتہ نہیں کون تھا مگر میں نے جواب ہی نہیں دیا جس کو کام ہوگادوبارہ آجائے گا۔
شان بے نیازی سے زلیخا ماسی نے جواب دیا تھا۔یہ اور بات کہ بعد میں دیورکی عدالت میں کھڑی ان سے معذرت کرنی پڑی تھی کہ وہ کہہ رہے تھے کہ آوازیں بھی دے رہا ہوں ماسی میں ہوں ، چاچا ….لیکن مجال ہے جو وہ سن لے ۔
کبھی کبھی ماسی کی گفتگو اور ماسی کے کہے جملےبھی ورطہ حیرت میں ڈال دیتے۔اس روز بے انتہا طبیعت خرابی کے باوجود ماسی گھر آگئی۔ میں نے سختی سے کہا ،کیوں ماسی ، کیوں آئی ہو ، گھر پرآرام کرتی نا، تو ماسی نے جواب دیا میرادل نہیں بیٹی مجھے عادت ہو گئی ہے ، تیری اور بچوں کی محبت کھینچ لاتی ہے۔
ماسی کی اب اچھی خاصی عمر ہوچکی تھی ۔اوپر کے پورشن پر اور سیڑھی چڑھ کر جانے والے کام متاثر ہورہے تھے۔مددگار کے طور پر لڑکی صبح سے سہ پہر تک کی رکھ لی گئی ۔اب لڑکی توعادت کے مطابق کہیں سے چھوڑتی اور کہیں سے کام ادھر ادھر ڈنڈی مار کر کام پورا کر لیتی۔ پیاس لگی اس نے جھٹ فریج کھولا پانی پی لیا۔ میز پر رکھے فروٹ میں سےآرام سے بنا پوچھے یا مانگے کھالیا۔افففف….اب تو گویا گھر میں بھونچال ہی آگیا۔
یہ کیا بیٹی….مالکوں کی چیز ایسے اٹھا لیتے ہیں؟ارے اتنی نیت کی خرابی….ارے اس نے کیا سوچ کر اٹھایا،یہ تو صاف چوری ہوئی۔
لڑکی آؤٹ….مجھے چور کہا میں کل سے کام نہیں کروں گی ۔
ہاں تو نہ کرو ،تمہارے نہ کرنے سے کیا گھر صاف نہیں ہوگا ۔فورا ً نکلو میں خود ہی صفائی کر لوں گی ۔ماسی زلیخا بپھر ہی جاتی۔
ارے ماسی آپ سے نہیں ہوتا نا اب….اپ تھک جاتی ہیں۔
نہیں میں خود کرلوں گی چھوڑ دو اس کو۔
ماسی کیا ہوگیابچی ہےنا، جانے دیں، میں جواب دیتی۔
نہ بچی ہے یہ….عقل نہیں ہے اسے؟ اسے یہ نہیں پتہ کہ مالکوں کی اجازت سے چیز لینی ہےلیکن یہ پتہ ہے کہ نوالہ کان میں نہیں منہ میں ڈالنا ہے۔ہونہہ بچی ہے….ماسی نے بڑبڑانا شروع کر دیا اور اور ماسی کے ’’عالمانہ‘‘ جواب پر میں اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔
ماسی کے آگے باہر دوسرے کم ہی ٹکنے لگے ۔ان کو ماسی کی ٹوک
برداشت نہیں ہوتی اور ماسی کو ان کے کاموں میں کی جانے والی ڈنڈی ہرگز ہضم نہیں ہوتی، یوں دونوں کے مابین اب گھمسان کا رن پڑجاتا۔ اور ان سب کا اثر گھر کے سکون پر تو پڑہی رہا تھا اوپر کی صفائی جو جیسے تیسے ہوہی جاتی تھی اب بالکل نہ ہونے کی وجہ سے سوالیہ نشان بن چکی تھی۔
بیٹوں کی شکایتیں الگ ۔امی میرا باتھ روم صاف نہیں….کوئی استری کرنے والی بھی نہیں رکھتیں ۔اماں ماسی سے اب کام تو ہوتا نہیں اور کسی کو یہ برداشت نہیں کرتیں۔
اب ماسی کے خلاف بچے بولنے لگے تھے۔
انہی دنوں جب کہ دلوں میں کھنچاؤ پیدا ہونے لگا تھا ،بڑے بچوں کو اپنے کمرے باتھ روم کی صفائی و استری کی جھلاہٹ سوار رہنے لگی تھی کیوں کہ ماسی کسی مددگار کو بھی ٹکنے نہیں دیتی تھیں اور نتیجے میں ان کو اپنا کمرا باتھ روم استری خود کرنی پڑرہی تھی،تینوں بیٹیاں بھی اپنے گھر کی ہوچکی تھیں،میری حج کے مقدس سفر پر روانگی طے پاگئی۔اور ڈیڑھ پونے دو ماہ کے اس سفر میں پیچھے صرف لڑکے اور ان کے والد محترم تھے۔
تو ایسے میں ماسی ہی نعمت غیرمترقبہ نکلیں اور پیچھے گھر کا پورا انتظام سنبھال لیااگرچہ صفائی و نگرانی کی حد تک ۔فریج کھولنا ،ہانڈی سے سالن یا چپاتی دان سے روٹی نکالنے والا کام تو بالکل ہی نہیں کرتی تھیں وہ پیچھے بچیاں ہی سسرال سے آکر سیٹ کر جایا کرتی تھیں کہ پکا کر کھلانے کی سیٹنگ کر جاؤ لیکن ماسی سے سہولت بہت ہوگئی تھی کہ برتن دھو کر سمیٹنے والا کام کر جاؤ بقیہ وقت تو ماسی نگرانی کر لیا کرتی تھیں۔
ایسے میں جب کہ میں مکہ شریف میں تھی صفورا کا میسج آیا کہ امی میرا سیٹ سنبھال کر رکھ لیا تھا نا!اس کی شادی روانگی سے چند ماہ پہلے ہی ہوئی تھی۔
میں سناٹے میں آگئی ۔مجھے تو اس کےگولڈ کے سیٹ کا بالکل بھی یاد نہیں رہا تھا۔ذہن بالکل خالی تھا ۔صفورا کے کہنے سے یہ تو یاد آگیا تھا کہ ہاںاس نے لاکر میں رکھوانے کو دیا تھا مگر میں نے کیا کیا کہاں رکھا ۔میں تو سفر کی تیاری میں بالکل ہی بھول چکی تھی۔
وہا ںحجاز مقدس میں میری حالت غیر ہونے لگی ۔کچھ اور راستہ نہ تھا ۔میاں سے ذکر تک نہیں کر سکتی تھی کہ اپنی ہی شامت آتی ۔بس مالک کائنات کے آگے سر بسجود ہو گئی ۔دل بہت پریشان رہا ۔ کھانے پینے یا مال پر شاپنگ کرنے کا کچھ بھی دل نہیں لگتا تھا ۔بس اللہ کے آگے دعائیں کرتی رہی حتیٰ کہ واپسی ہوگئی ۔ایک ہفتہ تک گھر کے کونوں کھدروں تک کو کھنگال ڈالا مگر وہ ولیمہ والا بھاری سیٹ نہ ملنا تھا نہ ملا ۔نہ ہی ذہن میں یاد آیا کہ ہاتھ سے رکھا کہاں تھا ۔اللہ سے یہ بھی دعا کرتی رہی کہ کوئی شادی کا موقع نہ آجائے کہ اس کی ساس کوسیٹ یاد آجائے ۔
انہی دنوں جبکہ میں تنہا اداس بیٹھی اپنی کنپٹی مسلے جارہی تھی کہ ماسی زلیخا نے مجھے پکارا ۔مجھے اس کی آواز ہی نہیں آئی بقول اس کے اس نے مجھے کئی آوازیں دی تھیں ۔پھر بالآخر جھنجوڑا،تب میں نے پوچھا کیا بات ہے زلیخا ،کیا ہؤا۔
مجھے تو کچھ نہیں ہؤا بیٹی تو بتا تجھے کیا ہؤا ہے جب سے آئی ہے بیٹھے بیٹھے کھو جاتی ہے۔
ہاں ماسی ! بہت پریشان ہوں۔
ارے تو کیا ہؤا ہے ۔کیوں پریشان ہو مجھے تو بتائو۔
کیا بتائوں…. کیا فائدہ ،آپ کیا کر لیں گی!
دلاسہ ہی دے دوں گی بیٹی صرف کہتی ہی نہیں سمجھتی بھی ہوں۔ ماسی کی آواز اب رندھی ہوئی تھی۔
اچھا بھئی بتاتی ہوں لیکن پلیز کسی کے آگے نہ بولنا ۔مجھے صفورا نے اپنی چیز دی تھی وہ کہیں رکھ کر بھول گئی ہوں اور یاد نہیں آرہا کہ کہاں رکھی تھی چیز قیمتی ہے۔
ارے بس اتنی سی بات!
مجھے غصہ و جھنجلاہٹ نے گھیر لیا۔اچھا اب نکلو کمرے سے۔ تمہارے لیے ہوگی اتنی سی بات ۔بلا وجہ مجھے تنگ کیا۔
ارے بیٹی ….ایک ڈبہ مجھے تیرے جانے کے اگلے دن مسہری کے نیچے سے ملا تھا تو کہیں اس کی تو بات نہیں کر رہی؟مجھے وہ بھاری لگا،میں نے فوراً لپیٹ کر ادھر مسہری ہی کے نیچے بالکل کونے پر کہ نظر نہ آئے رکھ دیا تھا ۔مجھے نہیں پتہ اس کے اندر کیا ہے۔لیکن تو ڈبہ کہہ رہی
پے نا تو وہ ڈبہ ہی ہے ،میں نکالتی ہوں مگر لمبے ڈنڈے سے نکلے گا میں نے بہت پیچھے کی جانب دھکیل دیا تھا۔
اورمجھ پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی ۔میرا دل چاہا خوشی سے خوب چلائوں کیوں کہ جو ڈبہ ماسی اس دوران باقاعدہ لیٹ کر لمبی چھڑی سے نکال لائی تھی وہ جیولری ہی کا ڈبہ تھا ۔
اس وقت کے ہزاروں اور موجودہ لاکھوں کی مالیت کے سیٹ کو ماسی زلیخا نے بنا کھولے بنا دیکھے سنبھال کر رکھا ہؤا تھا!
مجھے تو ہفت اقلیم کی دولت جیسے مل گئی تھی ۔میں نے ماسی کو گلے لگا کر رونا شروع کر دیا تھا۔میرا بس نہیں چل رہا تھا ماسی کا منہ چومتی رہوں۔
ارے بلاوجہ اتنی سی چیز کے لیے اپنی جان ہلکان کرتی رہی ۔ ماسی مجھ پر فریفتہ تھی ۔مجھ سے تو کہتی اپنی پریشانی ۔
اور میں اللہ کے آگے دوگانہ ادا کرنے کھڑی ہوگئی تھی جس نے مجھے اتنی ایمان دار محنتی مددگار عطا کی ۔
ماسی زلیخا اج بھی زندہ سلامت اورمیری مددگار ہے۔مگر اب وہ ضعیفی کے باعث بیمار رہنے لگی ہے ۔میں اس سے کام نہیں کرواتی کیوں کہ اب اس کی کمر ضعیفی کے باعث جھک گئی ہے ۔ٹانگوں میں درد ،چکر رہتے ہیں ۔وہ ملیر پندرہ سے بھی کافی آگے سے دو بسین بدل کر آتی ہے تو اس کو اب روز آنے سے منع کر دیا ہے ۔ہاں البتہ اس کا ماہانہ وظیفہ باندھ لیا ہے اور مہینے یا پندرہ دن میں یہ اپنی ہمت سے گھر میں آتی ہے مگر خالی ہاتھ نہیں بیٹھتی۔ کبھی لہسن چھیلنے بیٹھ جاتی ہے کبھی پیاز کاٹ لیتی ہے ۔بے انتہا نفاست سے کٹی پیاز جو ایک ہی سائز کی ہوتی ہے، جب اسےتیل میں سنہرا کرتی ہوں تو خوب خستہ کراری اترتی ہے ۔
لیکن اب میں پھر کسی نادیدہ مددگار کی تلاش میں ہوں جو میرے گھر کے درودیوارکو اس طرح چمکا دے جیسے پہلے ماسی زلیخا کے دور میں چمکتے تھے ۔ اپنےگھر کے صحن کی گھنیری چھائوں میں مجھے سکھ سے بیٹھنے کے لیے ماسی زلیخا جیسی مددگار کی تلاش ہے جو سکون آورپھوار بن کرمیرے گھر پہ برس جائے۔
٭ ٭ ٭