بریانی کی دیگ کھلی اور مہک کچن سے ہوتی ہوئی صحن تک پہنچی جہاں قرینہ سے بچھی دریوں پرعورتیں بیٹھی چنے پڑھ رہی تھیں ۔ دیگ کھلنے کی آواز پر جلدی جلدی چنے سمٹنے شروع ہوگئے ۔ نائلہ اور یمنیٰ نے کھانے کادسترخوان سجا دیا ۔سفید دوپٹہ سنبھالتی عورتیں دسترخوان کے گرد بیٹھ گئیں۔تھوڑی ہی دیر میں درودشریف اور فاتحہ کی آوازوں کی جگہ چمچوں ، پلیٹوں کی کھنکھناہٹ اور عورتوںکی باتیں کرنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔
یہ شاہد صاحب کا گھر تھاجہاں وہ اپنی بیگم ساجدہ خاتون اور دو بیٹیوں نائلہ اوریمنیٰ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ وہ پچھلے کئی برس سے فالج جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے ۔ شہر کے معروف بازار میں ان کی کپڑوں کی دکان تھی جہاں وہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ کام کرتے تھے لیکن فالج کی وجہ سے وہ کاروبار پر جانا بھی چھوڑ چکے تھے ۔ یوں سارے کاروباری معاملات ان کے بیمار ہوتے ہی بھائیوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیے ۔ سارا منافع اپنے پاس رکھ کربھائی ان کو قلیل سا ماہانہ خرچ دے دیتے جو ان کے علاج معالجہ میں ہی لگ جاتا ۔یوں گھر کی گاڑی کھینچنے کے لیے نائلہ اوریمنیٰ نے ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا ۔ یہ سفید پوش لوگوں کا محلہ تھا اور مہنگائی کا زمانہ ، صبح شام ٹیوشن پڑھا کر بس اتنی ہی آمدنی ہو جاتی کہ بمشکل گھر کاخرچ پورا ہو پاتا ۔ بہر حال جیسے تیسے ہی سہی زندگی کی گاڑی گھسٹ رہی تھی۔ دو تین سال مزید بیتے نائلہ اور یمنیٰ شادی کی عمروں کو پہنچ گئیں ۔ بھولے بھٹکے سے کوئی رشتہ آ بھی جاتا تو گھر کے حالات دیکھ کر واپس پلٹ جاتا ۔ شوہر کی بیماری بچیوں کی نکلتی عمریں ، معاشی بد حالی ، ساجدہ خاتون ڈپریشن کا شکار ہوگئیں ۔ بات بے بات بیٹیوں سے الجھ پڑتیں ، فرسٹریشن کاشکار ہو کر اک دم چلاناشروع کردیتیں،توکبھی اک دم رو پڑتیں ۔بستر پر پڑے فالج زدہ شاہد صاحب بولنے سے معذور اندر ہی اندر کڑھ کے رہ جاتے ۔ جن بیوی بچیوں کو انہوںنے ہمیشہ اچھا کھلایا پہنایا تھا آج وہ حالات کی ستم ظریفی کا شکار تھیں۔
یہ ہفتہ بھر پہلے کی بات ہے ۔ نائلہ کاایک بہت اچھا رشتہ آیا۔شاہد صاحب نے بہت عرصہ بعد بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تھی ۔ ساجدہ خاتون نے اپنے طور پر ہر طرح سے اطمینان کر وا لیا ۔ خود جا کر لڑکے کا گھراور نوکری دیکھی ۔ پھر دس دن بعد لڑکے والوں کو فون کر کے قبولیت کا عندیہ سنا دیا ۔گھر میں سادگی سے نائلہ کی منگنی کی تقریب منعقد کی گئی ۔ ساجدہ خاتون نے اپنی حیثیت کے مطابق مٹھائی بھی بانٹی ۔ نائلہ کی جانب سے وہ کافی حد تک مطمئن تھیں اب ان کو یمنیٰ کی فکر کھائے جا رہی تھی ۔ چند ماہ بعد جب نائلہ کے سسرال والے شادی کی تاریخ لینے آئے تو انہوںنے اپنے معذور بیٹے کے لیے یمنیٰ کا رشتہ مانگا ۔او ساجدہ خاتون نے اسی وقت انکار کر دیا ۔ لوگ مٹھائی کا ٹوکرا اٹھائے ، باتیں بناتے ہوئے نائلہ کا رشتہ توڑ کر چلے گئے۔
یہ رات ان کے گھر قیامت بن کر ٹوٹی تھی ۔ نائلہ اور یمنیٰ کے چہرے ستے ہوئے تھے ۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھنے سے بھی گریزاں تھیں ۔ ساجدہ خاتون شدید ذہنی دبائو کا شکار تھیں ۔ شاہد صاحب خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔
’’ اچھے وقتوں میں کچھ جمع جوڑ کری ہوتی تو آج کم ازکم بیٹیوں کے ڈھنگ کے بر تو مل جاتے ‘‘۔ انہیں خاموش دیکھ کر وہ اک دم زور سے بولیں ۔ شاہد صاحب نے کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن الفاظ ان کے لبوں میں ہی دم توڑ گئے۔
’’ ان بوجھوںکو میرے سر پر ڈال کر خود بستر پر پڑ گئے ‘‘۔
وہ دونوں ہاتھوںمیں سر گرائے زور زور سے رونے لگیں ۔ نائلہ اوریمنیٰ نے انہیںچپ کرانے کی کوشش کی تو انہوں نے ان کو غصے سے پیچھے دھکیل دیا ۔ وہ دونوں روتے ہوئے لکڑی کی ٹوٹی چوکھٹ والے دروازے سے باہر نکل آئیں ۔ شاہد صاحب اپنے بوسیدہ پلنگ پر بمشکل پہلو بدل کر رہ گئے۔ اس رات ان کوفالج کا شدید اٹیک ہؤا جوجان لیوا ثابت ہؤا۔
نائلہ کا رشتہ ٹوٹنے اور شاہد صاحب کے انتقال کی خبر ایک ساتھ پھیلی تھیں ۔ تعزیت کے لیے آنے والوں کے سوال ، تحیر بھرے کھوجتے جملے ، ساجدہ خاتون بت بنی بیٹھی تھیں ۔ کئی عورتوںنے انہیں رلانے کی بھی کوشش کی لیکن وہ تو گویا سکتے میں تھیں ۔ شاہد صاحب کے بھائی جو ان کی زندگی میں ان کی خبر بھی نہ رکھتے تھے ، کفن دفن ، تعزیت کے لیے آنیوالوں کے لیے دریاں بچھوانے ، کرسیاں لگوانے اور کھانا پکوانے میں پیش پیش تھے ۔ بڑے بھائی کی میت پر اتنے احسن اقدامات پر محلہ والے ان کو تحسین بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔
شاہد صاحب کے انتقال کوتین روزگزر گئے ۔ تعزیت کے لیے آنے والوں کا سلسلہ بھی اب کم ہو گیا تھا ۔ ہفتہ بھر بعد توکسی رشتہ دار نے ان کے گھر جھانک کر بھی نہیں دیکھا۔ محلہ دار کبھی کبھی کھانا بھجوا دیا کرتے تھے ۔ شاہد صاحب کے بھائیوں کی طرف سے آنے والا ماہانہ خرچ بھی اب بند ہو چکا تھا ۔ ٹیوشن سے روٹی پانی کا خرچ تو پورا ہو جاتا لیکن گیس، بجلی کے ہوش ربا بلوں کی ادائیگی ٹیوشن کی قلیل رقم میں نا ممکن تھی ۔شوہر کے انتقال اور گھر میں کسی مرد کی عدم موجود گی، وہ لوگوں کی بدلتی نظروں سے خوفزدہ تھیں ، بیٹیوں کوبھی باہر نکالتے ہوئے ڈرتی تھیں ۔ تیسرے ماہ جب بجلی اور گیس کے کنکشن کاٹنے کارندے آئے تو ساجدہ خاتون کو ہوش آیا۔
پھر ایک دن لوگوں نے دیکھا شاہد صاحب کے گھر سے ایک ادھیڑ عمر عورت کالی چادر میں لپٹی اسٹاپ پر کھڑی ہے۔ اردگرد رہنے والے لوگ دوران عدت شاہد صاحب کی بیوہ کوگھر سے باہر قدم رکھنے پر برا بھلا کہہ رہے تھے لیکن کوئی بھی آگے بڑھ کر ان کے سر پر ہاتھ رکھنے سے قاصر تھا ۔
٭…٭…٭