اس یاد گار دن کا تذکرہ جب میں نے وقت کو اپنی مٹھی میں قید کرلیا
وقت تیزی سے گزارا روزمرہ میں منیرؔ
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے
دن مہینے سال تیزی سے گزرتے جا رہے ہیں ۔ وقت سیل رواں کی طرح بہتا چلا جا رہا ہے ۔ کبھی تو وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی انسان کو وقت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے ۔ کبھی وہ تیز دوڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں اکثر وہ منہ کے بل گرتا ہے ۔ وقت اب دریا ہے جس کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا ۔ گزرے ہوئے وقت پر نگاہ دوڑائیں تو ابھی کل کی بات لگتی ہے ، کل ہم بچے تھے آج ہمارے بچے جو ان ہیں اور ہم ان کے بچوں کی خوشیاں دیکھ رہے ہیں ۔
ہزاروں سالوں سے انسان وقت کو شکست دینے کی کوشش میں مصروف ہے لیکن وہ ابھی بھی وقت سے بہت پیچھے ہے۔ وہ جتنی بھی کوشش کر لے وقت اس کے ارادوں کو پچھاڑ دیتا ہے اس کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ ابھی اس کام کے ہونے کا وقت نہیں آیا ۔ ہر کام اپنے رب کے مقررہ وقت پر ہی ہوتا ہے ۔وقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سورۃ العصر میں فرماتا ہے ۔
’’ زمانے کی قسم ۔ در حقیقت انسان بڑے خسارے میں ہے ۔ سوائے ان لوگوںکے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے ‘‘۔
کسی بزرگ نے وقت گزرنے کی مثال برف بیچنے والے کی دی ہے جو برف کو پگھلتے دیکھ کر کہتا ہے ہائے میری برف پگھل گئی ۔ وقت ریت کی طرح مٹی سے پھسلتا جا رہا ہے انسان کبھی وقت کو قید کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی کوشش ہوتی ہے خودکو وقت کی قید سے آزاد کروا لے ۔دکھ تکلیف کی گھڑیاں کاٹے نہیں کٹتیں خوشی کی گھڑیوں میں انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے ۔
تجھ سے ملتا ہوں تو اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں
وقت کے پائوں میں زنجیر میں ڈالوں کیسے
امجد اسلام امجد کہتے ہیں :
وقت سے کون کہے یار
ذرا آہستہ ……
وقت کی ہمیشہ قدر کرنی چاہیے ۔ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا یہ عقل مند انسان کو مشکل کے وقت مایوس نہیںہونے دیتا اور خوشی کے وقت غرور کرنے پر نہیں ابھارتا۔
آج ہر دوسرا شخص وقت کی کمی کی شکایت کرتا دکھائی دیتا ہے کہ فلاں کام کرنا تھا وقت نہیں ملا کیسے کریں، کیوں کر ہو بہت مسئلے ہیں مگروقت کی قدر صرف وہی لوگ کرتے ہیںجو زندگی میں لگن اور محنت سے کام کرتے ہیں تبھی کامیابی ان کے قدم چومتی ہے ۔
وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں
وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے
ہم اپنے بچپن کے دور پر نگاہ دوڑائیں تو دن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فجر کی نماز کے بعد ایک سپارہ روز پڑھنا اور پھر سکول جانا سکول سے واپسی پر سکول کا ہوم ورک اور پھر کوئی رسالہ یا کتاب کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا تھا ۔ دوپہر کا کھانا اور دوپہر کو سونا یہ دونوں رواج بہت دیر سے ہماری زندگیوں میں آئے ۔ گرمیوں کی لمبی دوپہریں کاٹے نہیں کٹتی تھیں۔ کوئی غیر ضروری سر گرمیاں نہیں تھیں۔اپنے عزیز و اقارب کے ہاں جانے اور خیر خیریت دریافت کرنے کے لیے سبھی کے پاس بہت وقت ہوتا تھا۔
بچپن میں ہمیں ہمیشہ یہ درس دیا جاتا وقت ضائع ہو رہا ہے وقت ضائع ہو رہا ہے فارغ مت بیٹھو کچھ کر لو ، کچھ پڑھ لو ۔
ہمیں ہر وقت یہ احساس دامن گیر رہتا ہے
پڑے ہیں ڈھیر سارے کام اور مہلت ذرا سی ہے
اس دور میں ٹی وی تو ہوتا نہیں تھا سرشام سونے کی تیاری شروع ہو جاتی مغرب کی اذان کے فوراً بعد کھانا کھا لیا جاتا ، رات بارہ بجے تک صرف وہی لوگ جاگ رہے ہوتے جو نو سے بارہ کا فلم شو دیکھنے جا رہے ہوتے یا پھر کوئی طالب علم اپنے بہترین مستقبل کے لیے تا دیر پڑھائی میں مصروف دکھائی دیتا۔
پھر ٹی وی کا دور آیا تو آٹھ بجے کے ڈرامے اور نو بجے کی خبروں کے بعد سونے کے لیے جانا ہوتا ۔ آج کل نفسا نفسی کا دور ہے سوشل میڈیا نے ہماری زندگیوں کا سکون ہمارے پیارے رشتے ایک دوسرے سے دلوں کے حال احوال سنانے کے تمام مواقع چھین لیے ہیں ۔ فیس بک اورواٹس ایپ کی عفریت نے ہمارے وقت کو نگل لیا ہے ۔
اگر ہم وقت کی اہمیت کو جان لیں اور زندگی میں کامیابیاں حاصل کرنے کے متمنی دکھائی دیتے ہیں تو زندگی کی ڈگر کو تبدیل کرنا ہوگا اس کے لیے کچھ پروگرام ترتیب دینے ہوں گے ۔ ہم اپنا وقت کس طرح مختص کرتے ہیں اس سے ہماری ترجیحات اور اقدار کی عکاسی ہوتی ہے اور یہ چیز ظاہر ہوتی ہے کہ ہم کس چیز کو اہمیت دیتے ہیں ۔ ہم اپنے وسائل کوکس طر ح خرچ کرتے ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے وسائل کو سمجھداری سے ایسی سر گرمیوں میں لگائیں جو ہماری اقدار اور اہداف کے عین مطابق ہوں ۔
مثلاً اگر ہم اپنے خاندان کے لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں تو یہ طے کرنا ہوگا کہ ان کے ساتھ کیسے بہترین وقت گزارا جا سکتا ہے بزرگوں کے لیے کیسے وقت نکالا جائے گا اور بچوں پر کیسے توجہ دی جائے گی۔
اگر ہمارا ہدف علم حاصل کرنا ہے تو ہمیں غیر ضروری مشاغل ترک کرنا ہوں گے اور پڑھائی پر ہر صورت فوکس کرنا ہوگا اگر ہم لکھنا چاہتے ہیں شاعری کرنا یا تخلیقی صلاحیتیں بڑھانا چاہتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنا ہوگا اور اپنے ایسے دوستوں کا دائرہ کار بڑھانا ہوگا جو اس میدان کے شاہسوار ہیں ۔ ان سے بات چیت کر کے ان کی صحبت اختیار کر کے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
اگر ہمیں اپنی صحت کی فکر ہے تو کرسی پر بیٹھ کر غورو فکر کرنے او ر صحت کے متعلق مضا مین پڑھنے سے توصحت حاصل نہیں ہو گی ۔اس کے لیے ہمیں ورزش کرنے ، سیر کرنے اور صحت مند کھانے کھانے کے لیے اپنے وقت کا استعمال کرنا ہوگا۔
آج ہم مغرب کی طرف دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں ۔ ترقی یافتہ قوموں نے ہمیشہ وقت کی قدر کی اور اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے۔ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں کھول کردیکھ لیں جن لوگوں نے وقت کی قدر کی کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔
انگریز جب برصغیر پر قابض ہوئے تو اس وقت مغل سلطنت کے آخری شہزادے عیش ونشاط کی زندگیاں گزار رہے تھے ۔ تمام رات گانے بجانے اور دادِ عیش دینے میں گزرتی ۔ دوپہر کے قریب ان کی صبح ہوتی۔ خدام چلمچیاں اور آفتابے ہاتھوں میں تھامے ان کے منہ دھونے کا انتظار کر رہے ہوتے ۔ ان کے بر عکس انگریز جو اس ملک پر قابض تھے وہ صبح صبح منہ اندھیرے صبح کی سیر کونکل کھڑے ہوتے ۔ آٹھ بجے تک وہ اپنے دفاتر میں پہنچ کر اپنے فرائض کی انجام دہی بجا لا رہے ہوتے ۔دوپہر کے دو بجے جب مغل شہزادے غسل سے فارغ ہوتے صاحب لوگ اپنے گھروں کو روانہ ہوچکے ہوتے اور ہمارے آقائوں یعنی مغل شہزادوں کی غلط منصوبہ بندیوں نے انہیں شکست سے دوچار کیا اور وقت نے انہیں پچھاڑ دیا۔
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
اب اس سے اگلا ہدف وقت کو تابع بنانے کا ہے کہ کیسے وقت سے فائدہ اٹھایا جائے اسے کیسے قید کیا جائے اس کا آسان سا حل ہمارے دین نے ہمیں دیا ہے کہ صبح کے وقت میں برکت ہے یہ بات ہم بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں مگر آنے والے وقتوں میں ہم نے صبح کے وقت کی ناقدری ہی کی۔
آج میں آپ سے اپنی زندگی کے اس یاد گار دن کا ذکر کرنا چاہوں گی جس دن نے مجھے وقت کی برکات اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بہت سے اسباق سکھادیے۔
ہؤا یوں کہ ہمارے گھر سے آدھ گھنٹے کی ڈرائیو پر لڑکیوں کا ایک دینی مدرسہ تھا جس میں بچیاں دینی علوم سیکھنے اور قرآن حفظ کرنے کے لیے ہاسٹل میں رہتی تھیں ۔ مجھے اتفاق سے کسی کام کے سلسلے میں وہاں جانا تھا ۔ وہاں کی پرنسپل کا اصرار تھا کہ میں تہجد کے وقت وہاں آکر اس پُر نور ماحول کودیکھوں ۔ میں نے ان کی دعوت قبول کرلی اور سوچا میرا کام بھی ہوجائے گا ۔
گجروم میں چھوٹے بیٹے کے ہمراہ چل پڑی ہم لوگ نماز فجر سے ایک گھنٹہ قبل نکلے ہماری گاڑی درمیانی رفتار سے جا رہی تھی ۔ سڑک کی دونوں جانب گل مہر کے پھولوں سے لدے ہوئے درخت ہلکی ہؤا سے جھوم رہے تھے ۔ میں نے گاڑی کا شیشہ کھول کردیا ٹھنڈی ہوائیں درختوں کے پتوں کے درمیان سے گزرتی تھیں اور پھولوں کی خوشبو نے فضا کو معطر بنا رکھا تھا ۔ آج مدرسے جاتے ہوئے راستے میں امی کی سنائی ہوئی ایک کہانی جو صبح خیزی کے بارے میں تھی یاد آنے لگی ۔
وہ ایک یونانی بادشاہ کی کہانی تھی جو سحر خیزی کا عادی تھا ۔ وہ ہفت اقلیم کا مالک تھا علی الصبح اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل کی سیر کو نکل جاتا ۔ درختوں، پتوں، پرندوں اورجانوروں سے باتیں کرتا ۔ دریائوں اور چشمو ں کی روانی سے لطف اندوز ہوتا ۔ پہاڑوں اور صحرائوں میں چل پھر کر بلند آوازوں سے انہیں پکارتا اوراپنی دھاک بٹھاتا ۔ اس بادشاہ کواس سحر خیزی سے بہت فائدہ ہؤا۔ وہ اپنی دھانت ، دانش مندی، معاملہ فہمی اور بہادری کی ایک مثال بن چکا تھا ۔ اس کی یاد داشت اتنی اچھی تھی کہ وہ ایک دفعہ جس بات کو سن لیتا اسے کبھی نہ بھولتا ۔ وہ بے پناہ دولت کا مالک تھا اس کے خزانے کئی سالوں تک گنے نہ جا سکتے تھے اسے آنے والے واقعات کا پہلے سے ہی ادراک ہو جاتا تھا اس کی ذہانت بے مثل ہوچکی تھی ۔ وہ اڑتی چڑیا کے پر بھی گن سکتا تھا ۔ سامنے والے کے دل میں کیا بات ہے وہ اس کا چہرہ پڑھ کر بتا دیتا تھا ۔ وہ بہت سے علوم میں ماہر تھا ۔ اس کی زندگی میں شکت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی ۔ اس نے اپنے دور میں بے شمار فتوحات حاصل کیں اور اپنی سلطنت کے دائرے کو بڑھایا۔ وہ اپنی آنکھوںکی مقناطیسی کشش سے سامنے والے کی آنکھوں میں جھانک کر جو بات بھی کرتا وہ اس کا حکم ماننے پر مجبور ہو جاتا ۔
مگر پھر کچھ ایسا ہؤااس نے سحر خیزی کی عادت چھوڑ دی ہر وقت کمرے میں بند پڑا رہتا ۔ اس کی یاد داشت کمزور ہو گئی تھی ۔ تمام علوم جن میں وہ مہارت رکھتا تھا اب بے معنی ہو چکے تھے ۔ اس کی سلطنت میں قحط پڑ گیا ۔ تمام خزانے خالی ہو گئے اردگرد کے ملکوں نے اس کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا اور یہ سب اس کی سستی کاہلی اوردیر تک سونے کی وجہ سے ہؤا۔
یہ کہانی ہمیں ہر دوسرے روز سننے کو ملتی مگر ہم نے کبھی بھی اس پر عملدرآمد کانہیں سوچا تھا ۔
گاڑی کی بریک نے مجھے چونکا دیا مدرسہ آگیا تھا ۔ میزبان خاتون جو مدرسے کی سربراہ بھی تھیں انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا ۔ ہم نماز فجر سے آدھ گھنٹہ قبل مدرسہ پہنچ گئے ابھی ستارے ٹمٹا رہے تھے اندر صحن میں بہت پر سکون ماحول دکھائی دیا۔ سبھی بچیاں اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دے رہی تھیں ۔ آٹھ دس بچیاں صحن میں چٹائیاں اور ان کے اوپر سفید چادریں بچھا رہی تھیں ۔ کچھ دوسرے صحن اور راہداری میں جھاڑو لگا رہی تھیں ۔ چند ایک نوافل ادا کر رہی تھیں ۔ میں نے بھی جا کر نوافل ادا کیے اتنے میں مؤذن نے اذان دے دی ۔ سب سے مل کر نماز ادا کی یوں محسوس ہوتا تھا ہمارے چاروں اور انوار کی بارش ہو رہی ہے۔ فضا میں سوندھی سوندھی خوشبو پھیلی تھی معصوم ننھی طالبات کی تلاوت کرتی آوازیں ارد گرد کے ماحول کو جان فزا اور دل و دماغ کو پُر سکون کر رہی تھیں۔ نماز کے بعد میزبان خاتون نے رقت بھرے انداز میں خصوصی دعا کروائی ۔ یہاں سے اٹھنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا ۔ ایک ایساماحول جہاں معصوم بچیاں اپنا گھر بار کا آرام و آسائش چھوڑ کر حفظ قرآن اور علم القرآن کے لیے جمع تھیں وہاں سکینت نہیں ہوگی تو کیا ہوگا ۔ میں نے ان سے اجازت چاہی اور گاڑی کی طرف چل دی جہاں بیٹا
گاڑی میں بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا۔
بات کہیں دور نکل گئی بات وقت کی ہو رہی تھی ۔ یہ وہ لمحات تھے جب میںنے وقت کو اپنی مٹھی میں قید کرلیا تھا میرے اس دن کے وقت میں برکت پیداہو گئی تھی ۔ یہ سب مجھے بعد میں معلوم ہؤا۔
مدرسہ سے واپسی پر گھر آتے آتے سات بج چکے تھے ۔ بچوں کے سکول کالج جانے کا وقت ہو رہا تھا گھر پہنچ کر سبھی افراد کوناشتہ کروایا اور بچوں کو سکول چھوڑنے چلی گئی ۔ واپسی تک ملازمہ آچکی تھی اس کے صفائی کرنے تک میں نے کھانا بنا لیا۔
آج مجھے فی سبیل ا للہ ٹرسٹ والوں کے ساتھ شاہدرہ سکول سالانہ فنکشن میں جانا تھا ، نو بجے ٹرسٹ والوں کی گاڑی مجھے لینے آگئی ۔ ہمارے گھر سے شاہدرہ سکول کا فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا ۔ اس روز رش کم ہونے کی وجہ سے ہم لوگ ایک گھنٹے میں منزل مقصود پر پہنچ گئے ۔ سالانہ جلسے میں سیرت النبیؐ پر بات ہونی تھی ۔ راستے میں مجھے میری ہمراہی گل رعنا صاحبہ نے کہا کہ آپ نے سیرت کے موضوع پر بات کرنی ہے میں نے کہا آپ کو مجھے پہلے بتانا چاہیے تھا میں بغیر تیاری کے کیسے بات کر سکتی ہوں ۔ انہوں نے کہا آپ لکھ لیں آپ کے پاس ایک گھنٹہ ہے میں نے دل میں دعا کی۔
اللہ تیرے ہاتھ ہے اب آبروئے شوق
دم گھٹ رہا ہے وقت کی رفتار دیکھ کر
نبی پاکؐ کی شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا اور لکھنا میرے لیے بہت سعادت کی بات تھی میری آنکھیں بھیگ گئیں اور پھر میں نے جو کچھ کتابوں میں پڑھ رکھا تھا وہ سب میں نے جلدی جلدی لکھ لیا میں خود بھی حیران تھی کہ کیسے میں نے یہ سب لکھ لیا تھا ذہن ترو تازہ اور ہشاش بشاش تھا۔پروگرام دوگھنٹے میں اختتام کو پہنچا اور ہم لوگ بخیر و خوبی ڈیڑھ بجے تک واپس گھر آگئے۔
گھر آکر کھانا گرم کیا اور بچوں کو سکول سے لینے چلی گئی ۔ واپسی پر سب نے مل کر کھانا کھایا۔ اب میں کچھ آرام کرنا چاہتی تھی لہٰذا سونے کے لیے کمرے میں چلی گئی ۔ چار بجے اٹھی تویاد آیا کچھ ضروری چیزیں بازار سے لینی ہیں ۔ بازار گئی چھ بجے واپسی ہوئی چھ سے آٹھ بجے تک بچوں کو ہوم ورک کروایا ۔ رات کا کھانا کھلا کر انہیں سونے کے لیے لٹا دیا اور اپنے صاحب میاں کے ساتھ اپنی ایک بیمار عزیزہ کی عیادت کوچلی گئی۔ د و گھٹنے ان کے ساتھ گزار کر رات دس بجے ہم واپس آئے ۔
یقین مانیے اس دن میں نے بہت سلیقے اور آرام سے گھر کے سبھی کام نپٹا لیے چار جگہوں سے ہو آئی ۔ دوپہر کو دو گھنٹے آرام بھی کرلیا نہ مجھے کوئی تھکاوٹ ہوئی نہ ہی کوئی ٹینشن بلکہ رات تک میں ہشاش بشاش تھی ، مجھے یوں لگا صبح کے فرشتے تمام دن میرے معاون رہے ۔ ہرکام میں میری مدد کرتے رہے یہ سب اللہ کی رضا اور صبح کے وقت کی برکت سے ہؤا۔
مجھے اکثروہ دن اوراس کی برکات یاد آتی ہیں جس کی وجہ سے میں یہ سب لکھنے پر مجبور ہوئی ۔ شاید بہت سے لوگ ہر روزاتنے زیادہ کام یا اس سے بھی زیادہ ذمہ داریاں اداکرتے ہوں گے ان کے وقت میں بھی یقینا برکت ہوتی ہو گی لیکن میری زندگی کا یہ پہلا با برکت دن تھا ۔ میں اس دعا کے ساتھ اپنی بات ختم کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کوصبح کے وقت کی کرشماتی برکات سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ انسان کی خواہشات کی تکمیل کا جادو سحر خیزی میں پنہاں ہے اور وقت آ پ کی مٹھی میں آجاتا ہے۔
٭…٭…٭