الحمدللہ ایک بار پھر اللہ رب العزت رب رحیم کی رحمتوں کا فیضان تھا ۔ ایک بار پھر یہ حقیر ذلیل گناہوں میں ڈوبی ہوئی ناتواں بے وقعت کمزور محتاج لاچار عاجز و حقیر بندی رب عظیم کے عظیم در پہ حاضر ۔جہاں سب کے لیے رحمتوں کے در وا ہیں ۔ جہاں مغفرت کی برکھا خوب ٹوٹ کر برستی ہے ۔
جہاں جلال وکمال کا کمال ہے ۔ جہاں محبتوں کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔جہاں عطاوبخشش کی انتہا انتہائی عروج پہ ۔جہاں ہیبت ہے ۔ رعب ہے ۔ جہاں انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ،بڑے بڑے متقی و پرہیز گارلرزاں ہیں ۔جہاں گناہوں میں لتھڑے ہوئے شان غفاری شان ستاری کی گھنی چھاؤں میں سکون قلب وروح سے مالا مال ہیں ۔
جہاں میرے جیسی گناہ گارجس کے سر پہ گناہوں کی بھاری گٹھری ہے اور دامن عمل صالح سے خالی ۔
اس در پہ اپنائیت کا احساس غالب ہے ۔ یہی تو میرا اللہ ہے میرا اپنا رحیم اللہ کریم اللہ ،الحمدللہ!کتنا سکون ہے یہاں ۔ کیسے دل کا غبار دھل سا گیا ہے۔کہیں یہ منافقت تو نہیں ؟
آنسو کیوں خشک ہیں ۔ پتہ نہیں خوشی ہے ، اپنائیت ہے ؟ استغفر اللہ کہیں میرے گناہوں کا بوجھ ہے؟
یا اللہ مجھے معاف فرما ۔میرے دل کی زمین نرم کر میرے اپنے آنسوؤں کی سیرابی سے ۔میرا غافل دل بے رغبت دل منافق دل تیری دو مہربان انگلیوں کے درمیان ہے ۔ تو ہی اسے الٹتا پلٹتا ہے ۔یا رب رحیم میرے دل کو اپنی محبت اپنی اطاعت پہ جما دے ۔ آمین ۔
طواف کعبہ بیت اللہ ۔طواف محبت طواف اطاعت طواف بندگی طواف ندامت طواف توبہ طوافِ توکل ۔
پہلی حاضری پہ طواف کعبہ جب حجر اسود سے شروع ہؤا اور حجر اسود پہ مکمل ….طواف کعبہ گول چکر …. چکر بس چکر ….؟تب دل کے دریچے وا ہوئے ۔
پتہ ہے طواف کعبہ حجر اسود سے شروع اور حجر اسود پہ مکمل کیوں ہے ؟
حجر اسود جنت کا پتھر جنت کا حصہ جنت کی نشانی جنت کی یاد ۔ ہاں یاد ہے ہمارا پہلا گھر بھی تو جنت تھا اور سفر دنیا بھی تو جنت کی طرف سفر ہے ۔ گول چکر،دنیا بھی تو گول ہے ۔اے ناداں ،اے غافل انسان ! تیرے رب کو کچھ حاجت نہیں ان سات چکروں کی ۔ تیرے یہ سات چکر اس کی کبریائی میں کوئی اضافے کا سبب نہیں ۔تیرے غفلت میں ڈوبے چکر….دنیا کے چکروں میں الجھے چکر…. اس کی عظمتوں میں کبریائی میں کوئی کمی کوئی سوئی کے ناکے جتنی کمی نہیں کر سکتے ۔
بیت اللہ کے چکر یہی تو پیغام دے رہے ہیں کہ اے انسان جنت تیرا گھر تھا اور اس دنیا کی مسافرت صرف اور صرف واپس اپنے اصل گھر جنت کی مسافرت ہے ۔جہاں سے چلے تھے وہی تیری ابدی منزل ہے ۔ اور بیت اللہ کے گرد چکر تیری زندگی کا رشتہ زندگی کے معاملات میں ازل تا ابد اللہ واحد لاشریک سے جڑا ہے ۔اس رشتے سے کوئی مفر نہیں ۔
جب اللّٰہ نے حضرت ابرہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ لوگوں کو اس گھر کی زیارت ،مناسک حج کی ادائیگی کے لیے پکارو ۔تو حکم ہو&ٔا کہ و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ۔اور اللہ ہی کے لیے لوگوں پہ بیت اللہ کا حج فرض کیا گیا ۔مناسک حج وعمرہ کی ایک ایک رکن بندے کا اللہ سے رشتہ مضبوط کرتا ہے ۔زندگی کے پل پل قدم قدم پہ اسی
رب کعبہ کی مرضی و منشا اطاعت و فرمانبرداری مقصود حیات ہے ۔جہاں بھی کبھی بھی ذرا سا اس محبت و اطاعت میں بغاوت کی، بے وفائی ہوئی، اس رشتے کی ڈور کو نہ صرف کمزور بنا دے گی بلکہ اس رستے سے بھٹک کر اپنے اصل گھر کے راستے سے بھٹک جاؤ گے ۔
ہاں بھول چوک اور پھر توبہ رجوع الی اللہ ،تو پھر اللّٰہ رب غفور رحیم بھی در توبہ کھول دیتا ہے ۔صفا مروہ کی سعی بھی یہی نسبت یہی پیغام محبت پیغام اطاعت ہے ۔یہی عہد وفا تو ہے سعی میں ۔
؎وفا کریں گے ،نباہیں گے، بات مانیں گے
اب یہ عہد زندگی کے سانسوں میں بسنے کے لیے تو ہے ۔میری نماز میری قربانی میرا جینا میرا مرنا صرف اور صرف رب العالمین کے لیے ہے۔رب العالمین کے اذن سے اس کی خاص رحمت سے اس کے خصوصی احسان سے تو حاضری ملی ہے الحمدللہ،ورنہ کہاں میں کہاں یہ مقام !
طواف کعبہ سات چکر ۔ سات چکر ہی کیوں ؟دھڑکتے دل نے سوال اٹھا دیا ۔
ہاں اللہ حکیم وخبیر کی حکمتوں کے رازاتنے انوکھے اور پیارے ہیں ۔
اللّہ رب العزت نے سات آسمان اور سات زمینوں کو پیدا فرمایا۔ چکر بھی سات۔
اللہ رب العالمین نے انسان کی تخلیق سے انجام تک سات مراحل طے کیے ۔1عالم ارواح ۔ 2 باپ کی پشت۔ 3۔ ماں کا رحم ۔ 4۔ زمین کی پشت یہ دنیا ۔ 5 ۔ زمین کا پیٹ قبر ۔ 6 ۔ عالم برزخ ۔ 7۔ ابدی گھر جنت یا جہنم ۔سات چکر !
اللّہ رب العالمین نے اپنے بندے کو سات اعضائے بدن پہ سجدے کا حکم دیا ۔سات چکر !
میرا رب قرآن عظیم میں فرماتے ہیں ،زمین آسمان اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے وہ سب میرے مطیع ہیں ۔ طوعاً یا کرہاً،خوشی سےیا ناخوشی سے۔سات چکر یہی احساس پیدا کرتے ہیں کہ جب زمین آسمان کی ہر چیز اللہ اس کی مطیع ہے ، اس کی طابع فرمان ہے،محتاج ہے اسی کی ،اسی کے سامنے سجدہ ریز ہے، ایک پل ایک قدم نافرمانی کر نہیں سکتی تو اے بندے تو بھی میرا غلام میں تیرا آقاتیرا مالک تیرا رب ہوں ۔ بےشک یہ سات چکر اقرار وفا ہے ۔اے انسان تو میرے ان سات زمینوں آسمانوں کے درمیان میری نگاہوں میں میری نگرانی میں میرے دائرہ اختیار میں۔ میری خدائی کا پابند ہے۔ تجھے کہیں بھی کبھی بھی مفر نہیں۔
اے گروہ انس وجن تم اگر زمین آسمان کے کناروں سے نکل سکتے ہو نکل کر بھاگ جاؤ اور تم نکل نہیں سکتے مگر زور کے ساتھ ،اور وہ زور تمہارے بس میں نہیں ۔
ازل سے ابد تک اسی آسمان کے سائے تلے اور اسی زمین پہ تم زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہو ۔ اور یہی بےبسی یہی تمہاری لاچاری اللہ کے رب ہونے اور تمہارے بندے ہونے کی دلیل ہے ۔ بندہ جو ناچیز حقیر عاجز محتاج ہے ۔اسی زمین آسمان سے انسان کی زندگی مشروط ہے ۔یہی زمین وآسمان تیرے ہر ہر عمل کے گواہ ہیں ۔جب یہ بیکراں آسمان یہ وسیع وعریض زمین میری مطیع ہے تو پھر تو اے انسان کیسے؟ کہاں ؟ کب تک ؟ کتنا ؟ نافرمان ہو سکتا ہے ۔
یہی تو سات چکر ہیں انسان کی زندگی کے مراحل ۔عالم ارواح سے لے کر دائمی ٹھکانے تک انسان اسی رب کعبہ کا محتاج ہے ۔وہی تو جو تجھے جیسے چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے ۔دیکھ اپنی بےبسی نہ تیرے والدین تیری مرضی کے ۔نہ تو خود اپنی مرضی کا ۔نہ تیرا انسان ہونا تیرے اختیار میں ۔نہ تیری جنس تیری من چاہی ۔تیرا رنگ روپ ۔نہ تیری صورت نہ تیرے خد و خال ۔تیری عمر تیرا رزق کتنا تیری قسمت کے فیصلوں میں تیری خواہشات کا کوئی حصہ نہیں ۔
محسوس کر اپنی عاجزی !
خوشیوں کے جھولے یا غموں کے بادل،نہ زندگی کی رونقیں تیرے بس میں نہ موت کی آرزو تجھے موت کی آغوش میں سلا سکتی ہے۔یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی ۔نہ تجھے اپنی قبروں کی خبر نہ عالم برزخ کا حال معلوم ۔قلم اٹھا لیا گیااور ابدی ٹھکانوں پہ تیرے نام کی تختی لگ چکی ۔ازل سے ابد اپنی بےبسی اپنی محتاجی کا احساس یقین
میں بدل جائے تو ہنسی بھول کر رونے میں زندگی بیت جائے ۔
لو یہ احساس بیچارگی ، یہ احساس محتاجی، یہ بےبسی، اپنے فانی اور رب جلال کے لا فانی ہونے کا اقرار ہے سات چکر ۔
ہم حقیر و فقیر تیرے در کے ۔تو ہی رب ہے رب العالمین ۔ہم تیرے در کے سوالی،ہم محتاج تو رب العالمین ۔تو مالک سماوات والارض،ہم کائنات کے حقیر ذروں سے بھی حقیر ۔تو علیٰ کل شی قدیر ،تیری کبریائی جیسی کسی کی کبریائی نہیں ،تیری عظمتوں کو کوئی چھو نہیں سکتا ۔ہم عاصی ہم گناہگار ہم غافل ہم سیاہ کار ۔ ہم پستوں میں گرے ہوئے ہم گناہ کی دلدل میں لتھڑے ہوئے ۔تو ہمارا رب تو غفار تو ستار تو تواب الرحیم۔ہمارے اعمالِ سوء کو نہ دیکھ،اپنی شان غفاری کے وسیلے سے بخش دے ۔معاف فرما ،درگزر فرما، عفوو رحم کا معاملہ فرما آمین ۔اسی لیے تو سات چکر ۔
اپنے بندے کو اپنی محبت میں کتنے پیار سے سمو لیتا ہے رب کریم !
بندے کے سات اعضائے بدن پہ سجدہ ۔سبحان اللّٰہ معراج کی بھی معراج ہے نماز ۔انسانی بدن میں اعلیٰ وارفع حصہ پیشانی ۔فہم و ادراک ، فراست سے بھرپور پیشانی، علم وعرفان سے منور پیشانی ،فیصلوں کو اختیار کرنے والی پیشانی ۔واحد لاشریک رب العالمین رحیم وکریم اللّٰہ مالک یوم الدین، رحمٰن ورحیم اللہ، رب العرش العظیم اللہ کے سامنے جب یہی پیشانی اپنی ذات کو فنا کر کے اسی رب کعبہ کے حضور جھک جاتی ہےتو بقا کی منزل پا لیتی ہے۔انسانی چہرے پہ ناک عزت کی علامت ہے،جب یہی ناک خاک آلود ہو جائے رب کائنات کے آگے تو یہی معراج ہے۔
لے میں نے اپنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں تیرے سامنے ۔بس تو ہی تو،تیری ہستی ہی مسجود تو ہی معبود ، معبود بر حق ،لا الٰہ الا اللہ۔میرے دونوں ہاتھ خالی،میں ہر حال ہر معاملے ہر وقت ہر زمانے میں خالی ہاتھ صرف تیری محتاج ۔
تو میرا اللّٰہ میں تیری عاجز تیری فقیر بندی،تیرے کن کی محتاج ، منتظر ہوں ۔میں تیری مہمان اور جب مہمان گھر آ جائے ،مہمان کتنا ہی کم کمین ہو،کتنا بےوفا ہو ،کتنا برا ہو،کتنا ہی غافل ہو،کتنا ہی بھٹکا ہؤا ہو،اس کو معاف کردیتے ہیں ۔
بس اپنی مغفرت کی چادر میں سمیٹ لےیا رب رحیم رب کریم رب عظیم ،اے کائنات کے بادشاہ ۔دنیا کے بادشاہ کے دربار سے کوئی فقیر خالی ہاتھ نہیں جاتا ۔یا رب العالمین تو تو بادشاہوں کا بادشاہ ہے ، تیرے در سے یہ عاجز محتاج فقیر کیسے خالی ہاتھ جائے ۔اپنی مغفرت اپنی رضامندی سے جھولیاں بھر دے۔یا رب غفار تیرے در کے سوائے کوئی در نہیں۔اپنی رحمت کے در کھول دے۔بس تو راضی ہوجا،اپنی نعمتوں کی برکھا برسا ۔
سعی کے سات چکر!
سعی کوشش محنت جد وجہد ۔زندگی کی پہلی سانس سے لےکر موت کی آخری ہچکی تک انسان مسلسل محنت کر رہا ہے ۔زندگی کی دوڑ ہے ہی مشقت کا نام ۔اللہ رب حکیم وخبیر نے بھی قرآن عظیم میں فرما دیا کہ انسان مشقت پہ پیدا کیا گیا ہے ۔ہر انسان مشقت کر رہا ہے خواہ نیکی کے لیے خواہ برائی کے لیے خواہ نفع کے لیے ۔اپنے لیے خواہ دوسروں کے لیے۔ خواہ نقصان کے لیے جہالت میں نادانی میں اپنے لیے ۔خواہ دوسروں کے لیے حسد میں دشمنی میںامن کے لیے خواہ فساد فی الارض کے لیے ۔کر وہ محنت رہا ہے ۔
بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔صفا مروہ کی سعی یاد ہے اللہ کی متقی، چنی گئی ،عظیم بندی حضرت حاجرہ علیھا السلام کی۔وہ صابرہ شاکرہ بندی کی صبر کا صلہ عظیم ،کہ ایک عورت جو اپنے رب کے حکم پہ تن تنہا ننھی جان کے ساتھ بے آب و گیاہ وادی میں توکل علی اللہ پہ سر تسلیم خم کر دیتی ہیں ۔جو اللہ کا ہو گیا پھر اللہ بھی اسے ضائع نہیں کرتا ۔یہ سعی کاپیغام ہے۔پیغام اطاعت ،پیغام محبت،پیغام توکل، یہی مقصود ِسعی ہے ۔
کبھی صفا پر چڑھنا اور کبھی اترنا ۔کبھی مروہ کی اونچائی اور کبھی مروہ کی ڈھلوان ۔سات چکر !
وہی بات زندگی کے نشیب و فراز ہوں ،کامیابیاں کا عروج ناکامیوں کے پاتال ،خوشیوں کی بہاریں یا دکھوں کے کانٹے ۔اپنے نسبی
خونی جذباتی رشتوں کی نزاکتیں،غیروں کی ظالم دشمنی ۔عبادات کی فرضیت یا حقوق العباد کی ادائیگی کا پل صراط ہو،بھوک کی تلخی یا معاشی فروانی،معاملات ، معیشت، معاشرت ، سیاست ہر حال میں حکم الٰہی کا پابند رہنا ہے ۔
یہ صفا مروہ کی سعی صرف سات چکر نہیں اب یہ درس محبت درس اطاعت زندگی کا مقصود ہے تادم آخر ۔
حج کی سعادت ہو یا عمرہ کی حاضری ،یہ سفر، یہ حاضری تجدید عہد ہے ،تجدید محبت و اطاعت ہے ۔اللہ اپنی رحمت سے صرف تیری توفیق سے یہ سعادت نصیب ہوئی ہے ۔اپنے خاص فضل وکرم سے قبولیت کی نوید دے ۔خالی دامن بھر دے اپنی رحمت کے در کھول دے ۔ اپنی رضامندی نصیب فرما دنیا وعقبی میں،بار بار حاضری مقدر فرما ۔اور روزِ محشر اپنے عرشِ کے سایہ تلے مہمانی نصیب فرما ۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری ،ایمان سے معطر فضائیں ، نور میں نہائے ہوئے شب وروز ،دل کے تاروں کو تار تار کرتیں اذانیں ، اس مقدس سر زمین پہ سجدے جہاں پیارے حبیب عظیم پیغمبر محبوب خدا خاتم النبیین رحمۃ اللعالمین امام الانبیا خیر البشرساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو بسی ہے ۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدموں کے نشاں ہیں ۔
الحمدللہ ریاض الجنہ میں حاضری ،زندگی کا ہر پل شکر ادا کریں کم ہے ۔ریاض الجنہ جنت کا ٹکڑا ،یا رب العالمین رب العزت تیرا فرمان ہے جو ایک بار جنت میں داخل ہو گیا وہ وہاں سے نکالا نہیں جائے گا ۔اتنی پیاری عظیم سعادت دی ،ریاض الجنہ میں سجدے قیام اب اپنی شان رحیمی کے صدقے روز محشر جنت سے محروم نہ کرنا ۔
یا رب رحیم رحم کر ،یا رب کریم کرم کر ،یا تواب الرحیم توبہ قبول فرما ۔
بس یہی تو ہیں سات چکر !
و ما توفیقی الا بااللہ ۔
٭ ٭ ٭