بہت دنوں بلکہ ہفتوں سے لان کی صفائی نہیں ہوئی تھی ۔میاں کو کسی کورس کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑ گیا اور بوڑھے مالی بابا کی بوڑھی بیوی فوت ہو گئی تھی ۔اس علاقے میں نیلم کو آئے ہوئے بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ واقفیت نکال لیتی بلکہ کچھ عرصہ تو یہی سوچتی رہی کہ خود ہی ہمت کر کے صفائی کر لے گی مگر بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہر چیز خشک مٹی سے اٹی پڑی تھی۔ لان کی صفائی تو کر بھی لیتی مگر وہ جو شیشم ،امرود اور آم کے درختوں کے پتے مٹو مٹ ہو رہے تھے ،دیواریں گندی اور انگور کی بیل لیموں کے پودے روکھے ہورہے تھے ان کا کیا کرتی !یہ تو اوپر والا ہی رحمت کی بارش برسائے تو بات بنے۔
اس کے علاوہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک کھانسی اور کرونا نام کی بلا چمٹی تھی وہ جان کیسے چھوڑے۔بچوں کو ایک ماہ میں دو مرتبہ کھانسی کا دورہ پڑ چکا تھا۔ اینٹی بائیوٹک دے دے کر بھی تھک چکی تھی ۔بوڑھی عورتیں کہا کرتی تھیں ،پتر دعا کرو رب سوہنا مینہہ برسائے تو بلائیں دور ہوں،لگتا ہے رب بندوں سے ناراض ہو گیا ہے تبھی تو بادل نہ برکھا کچھ بھی نہیں !
نیلم کو یہ باتیں یاد آئیں تو ماضی کی بہت سی یادیں دماغ کی کھڑکی کھول کر سامنے آگئیں ۔ بہت سے واقعات بہت سے چاند چہرے جو ہمیشہ کے لیے روپوش ہو گئے تھے ،بس دیر تک گم سم رہی ۔گلی میں جاتی تو ویرانی سی ویرانی ،بازار جہاں اس کا دل بہت خوش ہوتا تھا بھائو تائو سے اچھی کوئی بات نہیں لگتی تھی ،اب بہ امر مجبوری جاتی بھی تو ادھوری سدھوری خریداری کر کے واپس آجاتی ۔دل اداسی کے سمندر میں ہی ڈبکیاں لگاتا رہتا ۔
بچوں کو بھی ماں کے مزاج کا بہت اچھی طرح اندازہ ہو چکا تھا ، ماں کا کب ہنسنے کو دل چاہتا ہے اور کب خاموش رہتی ہیں۔آپس میں ہی آنکھوں سے اشارے ہوتے، اب امی کو نانی یاد آرہی ہیں…. اب اپنی آپی کو یاد کر کرکے روتی ہیں….مگر سچی بات یہی تھی کہ نیلم کو ناصر کاظمی والی اداسی ہی بال کھولے کبھی درودیوار سے لپٹ لپٹ کر روتی نظر آتی تو کبھی ساری دنیا اس کی لپیٹ میں ہوتی۔
مارچ کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ مہینے بھر کی گروسری کرتے ہوئے اس کے سامنے ایک خاتون نے پکوڑا مکس انار دانہ ریک سے نکال کر ٹرالی میں ڈالا۔ پھر دوسری خاتون آئیں تو بیسن کے دو دو کلو والے پولی تھین کے بیگ ،ان کے بعد ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی نے بھی انار دانہ،املی اور بیسن کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
یاالٰہی سب کو بیسن کیوں چاہیے ؟ سب کھجوروں کی طرف کیوں لپک رہے ہیں اور اور یہ ٹماٹو کیچپ ہی کیوں سب کی ٹرالیوں میں جا رہی ہے ؟
اوہ ….روزے شروع ہو رہے ہیں…. بس سترہ اٹھارہ دن ہیں درمیان میں!اسے اچانک یاد آیا۔
بس پھر کیا تھا۔ اس نے بھی رمضان کی مناسبت سے سودا سلف خریدا ،رکشے والے کو ہاتھ سے اشارہ کیا سامان کے تھیلے رکشے میں رکھوائے اور گھر واپس آگئی ۔
گلی میں داخل ہوتے ہی طبیعت سخت منغض ہو چکی تھی ۔دو تین دن سے گلی کی صفائی نہیں ہوئی تھی اور پڑوسیوں کی اقسام میں سے اس کی قسمت میں شر والے پڑوسی لکھے گئے تھے۔ کبھی ان کے بچے بیل کر کے بھاگ جاتے کبھی دیواروں پر کوئلوں سے لکیریں مار دیتے اور اب اپنا کوڑا جاہلوں کی طرح ان کے دروازے کے سامنے پھینک جاتے ۔
اب بھی ایسا ہی منظر تھا!
اسے بری طرح سے غصے کے ساتھ رونا بھی آرہا تھا ۔گلی میں مرد نہ کھڑے ہوتے تو وہ خود ہی کوڑا اٹھا کر دور پھینک آتی۔ اندر آئی، بچے قاری صاحب کو سبق سنارہے تھے ۔ان کے لیے چائے کا برتن رکھا ہی تھا کہ زور سے کسی چیز کے گرنے کی آواز ائی اور ساتھ ہی بجلی بند ہوگئی ۔
الٰہی خیر !وہ دہل کر بولی۔
’’امی آندھی ….‘‘
کالی سیاہ آندھی تو پل بھر کو آئی مگر اس کے بعد چاروں طرف سے کالی گھٹائیں ،خوب بارش ….ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے ایکدم اس کا موڈ اچھا کردیا۔
قاری صاحب بھی موسم دیکھتے ہوئے رخصت ہوئے ۔وہ بچوں کو لے کر چھت پر چلی گئی۔وہاں سے نیچے لان اور گلی کا منظر صاف نظر ارہا تھا۔چھوٹی علینہ چیخی ۔
’’امی جان درختوں کے پتے جھوم رہے ہیں ذرا دیکھیں تو….!‘‘
واقعی وہ مبہوت ہی ہوگئی۔ جیسے ہر پتہ رقص کر رہا تھا ،ہر ٹہنی جھوم رہی تھی۔ چھاجوں چھاج مینہہ برس رہا تھا ۔ہر گھر سے پرنالوں سے پانی شرل شرل نیچے گرنے کی آوازیں جلترنگ کی طرح سنائی دے رہی تھیں۔
پتہ نہیں خلق خدا کب سے پیاسی تھی ۔پرندے آسمان پر دائیں سے بائیں اڈاریاں مار رہے تھے ۔پپیہا ،پی کہاں پی کہاں کا راگ الاپ رہا تھا۔ بچے پاگلوں کی طرح بارش میں موج مستی کر رہے تھے۔ دو چار مرتبہ قریب ہی بجلی گرنے کی اور کڑکنے کی آواز لمحہ بھر کو ڈراتی پھر پانی میں کھیلنا شروع….کاغذکی کشتیاں بنا بنا کر پانی میں پھینکی جارہی تھیں۔ ڈیڑھ پونے دو گھنٹے کے بعد بادل اپنے پانی سے پیاسوں کو سیراب کرکے دوسری بستی کی طرف جا نکلے۔
ایسے ہی کسی کام سے نیلم گلی کے دروازے کی طرف گئی۔ دروازہ کھولا تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
ہر پتہ دھل چکا تھا۔ کیادرخت کیا درو دیوار سب نئے نکور !
اوہ میرے خدایا !گلی میں کسی کوڑے کے شاپر یا گندگی کا نام و نشان تک نہ تھا ۔چھل چھل کرتا پانی سب گند بہا کر جانے کہاں لے گیا تھا….گلی میں بس پانی اور نیچے چمٹی مٹی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
وہ دونوں ہاتھوں کے پیالے میں منہ چھپا کر رودی۔ اسے اپنے ابا مرحوم یاد آئے جب اس نے پہلا روزہ رکھنا چاہا تو ابا نے دلار سے اسے سمجھایا تھا۔
’’نیلم پتر…. روزہ بغیر سوچے سمجھے رکھنے والی چیز نہیں ہے ،یہ تو خدا کا انعام اور احسان ہے جو ہر کسی پر نہیں ہوتا ۔پہلے اس کا معنی سمجھ لو اس کے بعد رکھنے کی توفیق ملے گی!
نیلم پتر! روزے کے مہینے کو رمضان کہتے ہیں….رمض ….یعنی بہا کر لے جانا….اس میں اللہ کی رحمت تیز بارش کی طرح برستی ہے ،چھوٹے موٹے پہاڑوں جتنے سب گناہ بہا کر لے جاتی ہے ،اور رمضان کا مطلب ہے جلا دینا، اس میں اللہ رب العزت ….‘‘
’’امی جان ہمیں بہت بھوک لگ رہی ہے ،پکوڑے بنا کردیں ‘‘۔
نیلم کی بڑی بیٹی نے اسے یادوں کے نگر سے واپس لا کھڑا کیا ۔
اس بیٹی کی کئی دنوں سے اینٹی بائیوٹک کھا کھا کر بھوک ختم ہو گئی تھی۔ اب بارش کے ایک ہلے نے اس کی بھوک چمکا دی تھی۔ درختوں چرند پرند سب کو نئی زندگی مل گئ تھی اور نیلم ….نیلم کی آنکھوں سے جھرنے بہہ رہے تھے ۔باہر کی بارش نے اس کے اندر کو بھی صاف شفاف کردیا تھا ۔اب اسے من کی دنیا کو رحمتوں کے مہینے میں اجلا کروانا تھا ،اسے بھی دل کا زنگ اتروانا تھا، رب کی رحمتوں کا امیدوار بننا تھا مگر کیسے….؟
آج کی بارش نے سب کتنے آرام سے سمجھا دیا تھا!
٭ ٭ ٭