بچوں کی جنسی تعلیم اور اسلام
مصنفہ : ثریا بتول علوی
موجودہ دور میں سوشل ، ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے جنسی بے راہ روی کا ایک طوفان امتِ مسلمہ کے گھروں میں داخل ہو چکا ہے ۔ وطن عزیز کے مختلف علاقوں سے لڑکیوں ، خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے بے شمار ، روح کو تڑپا دینے والے واقعات آپ کو روزانہ دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں ۔ اور اب تو اس ملک کی ’’ اشرافیہ نما مافیا‘‘ نے نجی اور انفرادی زندگی کی بے شمار وڈیوز کو چلانے کا جو وطیرہ اختیار کیا ہے ، وہ اسلامی روایات اخلاق کے خلاف ہی نہیں بلکہ مغرب میں رائج عریاں تصاویر(Porno Graphy) کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے۔
جنسی تعلیم کے موضوع پر ہمارے معاشرے میں بر سرِ عام گفتگو کو مناسب خیال نہیں کیا جاتا ۔ تاہم اخبارات اور وسائل کے جمعہ اتوار کے ایڈیشنوں میں پورے کے پورے صحافت پر مختلف دوا خانوں کے ایسے اشتہارات شائع ہوتے ہیں جن میں مختلف مردانہ اور زنانہ امراض کے علاج کا دعویٰ کیا جاتا ہے ۔ ہماری معاشرتی زندگی کا یہ منافقانہ طرز عمل ہمیں کہاں لے کر جائے گا ، اس پر اس ملک کے مذہبی علما، دیگر اہلِ علم اور مختلف سیاستدانوں نے کبھی غور ہی نہیں کیا۔
انسانی جبلتوں میں جنسی جبلت بھی اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ ہے اور اس جبلت کا تعلق ایک انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے متعدد درج ذیل اہم ترین پہلوئوں سے جڑا ہؤا ہے ۔
۔ شادی ، بیاہ کے ذریعے انسانی نسل کا تسلسل جو بالاخر مختلف تہذیبوں کو وجود میں لانا ہے ۔
۔یہ جبلت انسانوں کی طبعی اور فطری احتیاجات(جذباتی نفسیاتی) کی تکمیل کرتی ہے ۔
۔متعدد معاشرتی مسائل از قسم زوجین کے درمیان نا چاقی ، طلاق، خاندانی نظام کی تباہی وغیرہ کا تعلق بھی اسی جبلت کے ساتھ ہے ۔
۔صحت عامہ کے مسائل جس میں عورتوں اور مردوں میں عارضی اور مستقل بانجھ پن کا تعلق بھی اسی جبلت کا ایک پہلو ہے ۔
۔ قدیم ترین جنسی قباحتیں از قسم زنا اور طوائفوں کا وجود بھی اس کا ایک اہم پہلو ہے ۔
۔ جنسی تشدد کی مختلف اقسام بھی اسی جبلت کے ساتھ منسلک ہیں۔
۔ جنسی انحرافات از قسمہم جنس پرستی اور خود لذتی وغیرہ جیسے امور بھی اس کا شاخسانہ ہیں یہاں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نہ صرف ان تمام امور کے بارے میں رہنمائی فرمائی ہے بلکہ(قرآن ِ ناطق اسوہ حسنہ) کے ذریعے بھی انسانوں کی رہنمائی فرمائی ہے ۔ اور اس رہنمائی کو صحابہ کرام ؓ ، محدثین کی وساطت سے ہم تک پہنچایا ہے ۔ اور اس رہنمائی سے استشہاد کرتے ہوئے فقہائے کرام نے اس قسم کے فقہی اصول و قوانین اخذ کیے جن پر امت مسلمہ عرصہ چودہ سو سال سے دنیا کے مختلف خطوں میں عمل پیرا ہے اور یہ عمل از خود اس رہنمائی کے الہامی ہونے کا ایک نا قابل تردید ثبوت ہے ۔ واضح ہو کہ یہ تمام تر رہنمائی جنسی تعلیم کے زمرے میں آتی ہے۔
اسلام کے دور اوّل میں مسلمان مرد اور خواتین بلا جھجک اور شرم و حیا ایسے تمام مسائل اللہ کے رسولؐ سے براہ راست پوچھ لیا کرتے تھے اور یہ تمام تر رہنمائی قیامت تک کے لیے آنے والے انسانوں کے لیے راہِ عمل ہے ۔ اس لحاظ سے ہمیں یہ یقین ہے کہ ان امور کے بارے میں
تمام تر تعلیم بچوں کو ان کی عمر اور ذہنی نشوونماکے مطابق(Age and Development Specific) دی جانی چاہیے جس کی اولین ذمہ داری والدین پر ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ معلومات سکولوں میں بھی اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے دی جانی چاہئیں ، جس کے لیے مناسب نصاب ماہرین تعلیم کو وضع کرنا چاہیے ۔ مزید برآںمنبر و محراب سے بھی بلوغت اور عائلی زندگی کے مہمات مسائل از قسم خاندانی نظام ، طہارت وغیرہ کی تعلیم دی جانی چاہیے ۔ یہاں ہم یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ممبرو محراب سے ان تمام امور پر رہنمائی کا سلسلہ ایک طویل عرصہ سے نہیں ہوا ۔ اہل علم کا تمام تر زور یہاں نماز ، روزہ کی حد تک محدود رہا جبکہ اسلام کو بحیثیت زندگی کے لائحہ عمل کے طور پر واضح کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور یوں ان امور پر گفتگو کرنے سے گریز کیا گیا جن کا تعلق اس جبلت کے ساتھ تھا ۔ ایسے عالم میں نوجوان نسل نے تمام تر معلومات کے لیے ٹی وی، انٹر نیٹ اور موبائل کا سہارا لیا جہاں سے غلط تصاویر ،ویڈیوز ، آڈیوز سے انہیں غیر مستند اور جذبات کو برانگیختہ کرنے والی معلومات حاصل ہوئیں۔
جب ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ اس رہنمائی کو ہمارے اہلِ علم نے کیونکر نظر انداز کیا تو پتہ چلا ہے کہ دورِ حاضر میں اس موضوع پر اردو زبان میں مستند اور تحقیقی کتب کی شدید کمی ہے جبکہ عربی زبان میں ایسی تمام معلومات قرآن و حدیث اور سیرت رسولؐ کی کتب میں واضح کی گئی ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ مخصوص سیاسی اور تعلیمی حالات ہیں جن میں مسلمانانِ عالم اور بالخصوص امت مسلمہ برصغیر ہندوستان آزادی سے دو صدیوں تک غلامی میں مبتلا رہے۔ انگریز نے اس ملک پر قبضہ کر کے یہاں عربی اور فارسی کی تعلیم کی جگہ انگریزی زبان کو لازمی قرار دے دیا ۔ یوں امت مسلمہ اپنے بہت عظیم الشان ماضی کے علمی ورثے سے محروم ہو کر رہ گئی ۔ جس کے نتیجے میںدینی تعلیمات سے روگردانی کی وجہ سے وہ غلامی کے شکنجے میں پھنس گئے ۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں ہم امت مسلمہ کو بتدریج روبہ زوال ہوتے دیکھتے ہیں جبکہ یورپ نے اپنی علمی برتری کی بنا پر سر اٹھانا شروع کیا اور یوں امت کو امامت کے منصب سے جدا ہونا پڑا۔
اس موضوع پر علمی کام کی اردو میں بہت حد تک رہنمائی ہمیں مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب بہشتی زیور سے ملتی ہے ۔ تاہم بعد ازاں مختلف اہل علم ڈپٹی نذیر احمد اور علامہ راشد الخیری نے بھی معاشرتی امور پر اپنے ناولوں میں لکھا جو ان کے زمانے کے لحاظ سے کافی تھا ۔ تاہم اس صدی کے آغاز میں ان موضوعات پر کسی حد تک کھل کر گفتگو کرنے کا موقع فراہم ہؤا اور متعدد کتب و رسائل لکھے گئے ان میں تفہیم القرآن( سیدمودودی ؒ) سورۃ نور اور الاحزاب کے علاوہ دیگر تفاسیر میں اس موضوع پر کھل کر گفتگو کی گئی۔ اس کے علاوہ ، پردہ ، حقوق الزوجین ، اسلام اور ضبط ولادت کے موضوع پر سید مودودیؒ کی اہم نگارشات ہیں۔
2006ء میںراقم کی کتاب (sex and sexuality in Islam) کی تقریب رونمائی اسلامک انٹر نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد ، پروفیسر ڈاکٹر محمود غازی و دیگر نے کتاب پر تبصرہ کیا۔ ڈاکٹر محمود غازی نے اس کتاب کو سید مودودی کی کتاب پردہ کا تکملہ قرار دیا ۔ اس کے بعد اس موضوع پر گویا ایک سلسلہ اہلِ علم کی جانب سے شروع ہؤا جس کے تحت ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن میں متعدد مقالہ جات شائع ہوئے اور بعد ازاں مختلف کتب اردو اور انگریزی میں شائع ہوئیں۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی موجودہ کتاب ’’ بچوں کی جنسی تعلیم اور اسلام‘‘ کے موضوع پر اسی سال شائع ہوئی ہے جس کی مصنفہ ملک و ملت کی ایک مشہور اور مستند عالم دین پروفیسرثریا بتول علوی صاحبہ ہیں ۔ موصوفہ کا تعلق نہ صرف ایک بڑے علمی اور دینی گھرانے سے ہے بلکہ انہوں نے اسلام کے خاندانی نظام پر متعدد کتب بھی لکھی ہیں جن میں ’’جدید تحریک نسواں اور اسلام‘‘ نامی کتاب اہم ترین ہے ۔ تاہم ان کی یہ نئی کاوش جو عام فہم انداز میں لکھی گئی ہے بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ یہ کتاب نہ صرف میٹرک، انٹر میڈیٹ تک کے طلبہ و طالبات بلکہ گھریلو خواتین بھی بآسانی پڑھ سکتی ہیں۔
یہ کتاب تین بڑے حصوں اور آٹھ ابواب پر مشتمل ہے جو کل
228صفحات پر محیط ہے ۔ کتاب مجلد اور اچھے کاغذ پر طبع شدہ ہے تاہم قیمت بہت زیادہ ہے۔
موصوفہ چونکہ ایک طویل عرصے تک تعلیم و تعلم کے شعبہ سے منسلک رہی ہیں اس لیے اس کتاب میں بچوں کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی ایسا پہلو نہیں چھوڑا جو موضوع کے لحاظ سے ضروری ہو۔ انہوں نے نہ صرف قرآن و حدیث سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے بلکہ موجودہ زمانہ کے چند فتنوں ، تحریک آزادی نسواں (Feminism) اور ٹرانس جینڈر کے موضوع پر بھی بہت فکر انگیز گفتگو کی ہے ۔
کتاب کے حصہ اول میں تین ابواب ہیں جن میں پاکستان میں جنسی تعلیم کے آغاز کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس حصہ کے باب سوئم میں (جنسی تعلیم اور اسلام) بڑے مربوط انداز میں اس تعلیم کے تصور عمومی کا ایک بہت خوبصورت جائزہ شامل ہے جس سے اسلام کے اس شائستہ اور مہذب تصور جنسی کا علم ہوتا ہے جو قرآن و حدیث سے ہمیں حاصل ہوتی ہے ۔
کتاب کا حصہ دوم کے باب چہارم میں مصنفہ نے بچوں کی عمومی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت ہی معلومات افزا رہنمائی دی ہے جبکہ باب پنجم میں جنسی تعلیم کے مختلف مراحل پر گفتگو کی گئی ہے جو بچوں کو اوائل عمر سے لے کر ان کی بلوغوت اورشادی شدہ زندگی کے لیے بہت ضروری ہیں ۔ اس بات میں ایک اہم ترین پہلو ’’ شادی کے لیے ریفر شرکورس ‘‘ کا وہ انوکھا اور نہایت اہم حصہ ہے جو آج تک کسی صاحب علم سے نہیں دیا ۔ تاہم دنیا میں (pre and post marital counselling)کا سلسلہ ایک عرصہ سے رائج ہے جس کی بہت حد تک تفصیل ہم نے اپنی کتاب 2006میں دی ہے۔
کتاب کا حصہ سوئم بہت اہم مسائل کے حل پیش کرتا ہے جس میں نکاح کے مسائل، جنسی بے راہ روی ( باب نمبر 6) اور باب نمبر 7میں اہلِ مغرب نے جنسی تعلیم سے کیا فوائد حاصل کیے ہیں، کا ذکر ہے ۔ کتاب کا سب سے درد ناک حصہ سوئم میں وہ چند خطوط ہیں جو در اصل معاشرے میں موجود ہ جنسی فساد کی دیگ سے ایک چاول کو دیکھنے سے ہی بخوبی اس کا علم ہو جاتا ہے ۔ ان خطوط میں پنہاں درد کرب اور نوجوان نسل کی پریشانی کو کوئی ماں ،باپ، مولوی ، پیر فقیر، سر مایہ دار، سیاست دان اور علمی دنیا کے جغا دری پہلوان نہیں پہچان سکے تاہم جس کا بہت محدود حد تک مداوا کرنے کا شرف ہماری ممدوحہ محترمہ بہن کو حاصل ہؤا ، یہ خطوط دراصل ممبر و محراب اور تعلیمی امور سے متعلق صاحبان اقتدار کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ دیکھیے نئی نسل ان سب سے پکار پکار کر اپنے ان ذہنی ، نفسیاتی ، جذباتی اور بلوغت کی وجہ سے پیدا ہونے والے طبعی، جسمانی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی تدابیر جاننا چاہتے ہیں ۔ یہاں ہم اپنے ایک سروے کے مطابق ایک ماہر نفسیا ت کے ان خیالات کا حوالہ بھی دینا چاہتے ہیں جو انہوں نے ہماری ایک کتاب کے لیے تحریر فرمائے تھے ۔ انہوں نے اپنے طویل نفسیاتی علاج کے تجربے کی روشنی میں لکھا تھا ’’ مغرب میں جنسی بے راہ روی نے قریباً ایک ڈیڑھ صدی میں وہ گل کھلائے تھے جو آج مغرب کو درپیش ہیں تاہم پاکستان میں وہ حالات گزشتہ چند دہائیوں میں ہی حاصل ہو گئے ہیں ۔ایک ماہر نفسیات کا یہ تبصرہ جنسی بے راہ روی اور اخلاقی منزل کے گھمبیر حالات کی عکاسی کرتے ہیں وہ اس ملک کے ماہرین تعلیم بالخصوص مذہبی رہنمائوں سے یہ سوال کرتے ہیں ۔
حرم کے والیو تم تو مراقبوں میں رہو
بتانِ دَیر یہاں چھا گئے تو کیا ہوگا
(نعیم صدیقی)
ہم والدین ، اساتذہ اور عام لوگوں سے اس کتاب کو پڑھنے کی پر زور سفارش کرتے ہیں ۔
٭…٭…٭