میرا بے تاب دل آنے والی خوشیوں کے احساس سے سرشار تھا۔کئی روز سے جاری جدوجہد اور پاسپورٹ آفس میں دھکے کھانے کے بعد زندگی کا پہلا ’’ پاکستانی گرین پاسپورٹ‘‘ میرے ہاتھوں میں تھا ۔
میں جس چھوٹی سی کیمیکل فیکٹری میں ملازم تھا کوویڈ وبا کی وجہ سے وہ دیوالیہ ہو گئی نوکری ہاتھ سے نکل گئی تو گزر اوقات مشکل ہو گئی ۔میری بیوی شرمین بہت صابر اور باہمت عورت ہے ، اس نے اس مشکل وقت میں میری ڈھارس بندھائی ۔ اس کے مشورے پر ہم نے ہوم میڈ کھانوں کا کام شروع کیاوہ گھر سے کھانے اور فرائی آئیٹم پکا کر دیتی ‘ اور میں انہیں گھروں اور دفاتر میں سپلائی کرتا ۔یوں زندگی کی گاڑی آگے چلتی رہی ۔
طویل عرصے بعد وبا تو ختم ہو گئی پر نوکری بحال نہ ہوئی نوکری کی تلاش میں اپنی ماسٹرز کی ڈگری لے کر سیکڑوں دفاتر میں چکر لگائےپر سب بے سود ثابت ہؤا ۔ آخر کار بے روزگاری اور شدید مایوسی کے عالم میں میں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ قسمت آزمائی کے لیے بیرون ملک جاؤں ۔ کچھ عرصہ کام کر کے سرمایہ جمع کروں پھر واپس لوٹ کر اپنے ملک میں زاتی کیمیکل کا کاروبار کروں گا۔
’’میری والدہ نے میرے اس فیصلے کی بہت مخالفت کی ‘ان کا کہنا تھا کہ اللہ پر توکل کروگے تو وہ اس پریشانی سے نکلنے کا کوئی نہ کو ئی راستہ نکالے گا‘‘۔
پر میں کسی طور بھی اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا ۔ انہیں بتا دیا کہ اب میرا فیصلہ کسی قیمت پربھی تبدیل نہ ہوگا میرے سر پر بس ایک ہی دھن سوار تھی اور میں ان کی کوئی نصیحت ماننے کو تیار نہ تھا ۔ بالآخر انہوں نے میری ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے ۔ شرمین بھی میرے بگڑتے تیور دیکھ کر بادل ناخواستہ راضی ہوگئی ۔
٭ ٭ ٭
ظہر کی نماز کا وقت ہورہا تھا۔ قریبی مسجد میں نماز پڑھنے پہنچا ۔ نماز پڑھنے کے بعد میری نگاہ اگلی صف میں کھڑے اجنبی شخص پر پڑی تو میں چونک گیا ۔وہ میرا یونیورسٹی کا دوست اشعر تھا ۔
اشعر نے بھی مجھے دیکھ لیا ’مگر اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ کہتا وہ تیزی سے مڑا‘ اور مسجد کے دروازے سے نکل کر میری نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔میں حیرت زدہ کھڑا اسے دیکھتا ہی رہ گیا ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اشعر مجھ سے نظریں کیوں چرا رہا ہے ۔
تقریباً’’آٹھ سال بعد اسے واپس اپنے ملک میں دیکھا تو ماضی کے بند دریچےپھر سے وا ہو گئے‘‘۔
’’اشعر کریم ‘‘یونیورسٹی کا ذہین ترین لڑکا ہونے کے باعث تمام پروفیسر کا ہر دل عزیز شاگرد تھا ۔ اس کا تعلق مڈل کلاس سے تھا ، لیکن اپنے نفیس ذوق اور رکھ رکھاؤ سے وہ منفرد اور باوقار دکھتا تھا ۔
یونیورسٹی میں ہمارا ایک ہی ڈیپارٹمنٹ تھا۔ویسے تو اشعر بے حد خوش گفتار اور ہنس مکھ تھا پراسے کسی معاملے میں بھی بدنظمی اور بے ترتیبی
برداشت نہ تھی ۔ جب بھی کچھ غلط ہوتا دکھائی دیتا اسے بے حد غصہ آجاتا اور وہ ہمیشہ ملک میں موجود بے ضابطگیوں سے بے زاری کا اظہار کرتا ۔ اسے اپنے وطن کے ہر ادارے اور ہر شعبے سے ڈھیروں شکایتیں تھیں۔اس بات پر اکثر ہم دونوں کے درمیان بحث ہو جاتی ۔میں اسے بارہا سمجھاتا رہتا تھا کہ اپنا وطن اور اپنے لوگ جیسے بھی ہیں اللہ کی نعمت ہیں اور ہمیں ان کا شکر ادا کرنا چاہیے۔اس پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوتا بلکہ الٹا وہ بہت سیخ پا ہوجاتا۔
اس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب امریکہ جانا تھا وہ اکثر کہتا، میرے جیسے سلجھے مزاج کو کسی پسماندہ ملک کے بجائے امریکہ جیسے مہذب ملک میں ہونا چاہیے ،اور امریکہ کی ترقی کے قصیدے پڑھتا رہتا ۔اس کی ان سب باتوں پر ہم اس کا خوب مزاق اڑاتے پر وہ پروا نہ کرتا اور کہتا ۔
’’ تم سب جتنا چاہے مذاق اڑاؤ پر میں بھی تم سب کو امریکہ میں کیریئربنا کر دکھاؤں گا ‘‘۔
اورپھر واقعی اس نے اپنا کہا سچ کر دکھایا۔ ماسٹرز کرنے کےلیے امریکہ کی یونیورسٹی میں اسے اسکالر شپ پر داخلہ مل گیا اور وہ اپنے خواب پورے کرنے امریکہ سدھارا ۔ہم سب بھی اپنے کیرئیر بنانے میں مصروف ہو گئے۔کئی سال بیت گئےاشعر سے بھی کچھ وقت تک رابطہ رہاپھر فکر معاش کے چکروں میں ایسے پھنسے کہ ایک دوسرے کی کچھ خبر نہ ہوئی ۔بس ہمیں یہ علم تھا کہ وہ وہاں بہت خوش تھا اسے پرسکون ‘ ڈسپلن والی زندگی مل چکی تھی اور اس کا واپس پاکستان آنے کا کوئی ارادہ نہ تھا ۔
اور پھر کچھ عرصے بعد خبر ملی کہ اسے اپنے خوابوں کے دیس میں اپنی زندگی کی ہمسفر بھی مل گئی ہے ۔اور وہ شادی کر کے وہیں بس گیا ۔
آج اچانک اس کا دکھائی دینا اور پھر غائب ہوجانا میرے تجسس کو بڑھا رہا تھا ۔آخر اشعر میرا سامنا کرنے سے کیوں کترا رہا ہے ؟واپسی کا راستہ میں یہی سوچتا آیا۔
٭ ٭ ٭
جب سے امی جان کومیرا پاسپورٹ بن جانے کاپتہ چلا وہ افسردہ ہو گئی تھیں ۔کب سے بیٹھی آنسو بہائے جا رہی تھیں ۔شرمین بھی اداس تھی ، میرے بغیر ایک پل بھی نہ رہنا چاہتی تھی پر وہ میرے خوابوں کے درمیان رکاوٹ نہیں بننا چاہتی تھی اس لیےخاموش تھی ۔میں نے انہیں دلاسا دیتے ہوئے کہا۔
’’امی جان آپ پریشان نہ ہوں میں کچھ عرصےکےلیے آپ سب سے دور جا رہا ہوں جلد واپس آجاؤں گا ‘‘۔
امی جان بولیں :
’’ بیٹا عمر کے اس حصے میں جبکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہ ہو،میں اپنی اکلوتی اولاد کی جدائی کا غم سہنے کےقابل نہیں‘‘۔
میں نے انہیں سمجھایا۔
’’ امی جان اس کے علاوہ اب کوئی اور راستہ نہیں ۔بس دعا کریں میرا فیصلہ ہم سب کے حق میں بہتر ثابت ہو ‘‘ میری بات سن کر امی جان نے اپنے آنسو پونجھ لیے اور میرا ماتھا چومتے ہوئے کہا :
’’ہاں میرے بیٹے مجھے اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے وہ بڑا کارساز ہے ، وہ ہمارے لیے اچھا راستہ ہی نکالے گا ‘‘۔
٭ ٭ ٭
اگلے روز میں دوبارہ اسی مسجد میں پہنچ گیا ۔مجھے امید تھی کہ اشعرنماز کے لیے شاید دوبارہ اس مسجد میں آجائے ۔
ظہر کی نماز کا وقت تھادور سے اشعر مسجد کی جانب آتا دکھائی دیامیری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اشعر مجھے سامنے دیکھ کر واپس پلٹنے لگا ۔اس بار میں چوکنا تھا اسے جانے نہ دیا اور لپک کر اس کے کندھے پر
ہاتھ رکھ کر محبت سے کہا :
’’ اشعر کیسے ہو میرے دوست؟ مجھے پہچانا نہیں کیا؟ میں شرجیل ہوں تمہارا یونیورسٹی کا ساتھی ۔‘‘
اشعرمیرے اپنائیت بھرے لہجے سے بے حد شرمسار ہؤا وہ میرے گلے سے لگ گیا ۔
’’ہاں شرجیل میں نے تمہیں پہچان لیا تھا پر تم سے نظریں ملانے کا حوصلہ نہ تھا اسی لیے تمہارا سامنا کرنے سے کترا رہا تھا‘‘۔اشعر نے گلوگیر لہجے میں مجھ سے کہا:
’’ایسا کیوں کہہ رہے ہو میرے دوست چلو مل کر نماز پڑھیں پھر بیٹھ کر بات کرتے ہیں‘‘۔
ہم دونوں نے نماز پڑھی اور پھر قریبی کیفے ٹیریا میں چلے گئے چائے کا آرڈر دیا اور ایک دوسرے کا احوال پوچھا
میں نے اسے اپنی بے روزگاری اور بیرون ملک جانے کے ارادے کا بتایا اشعر نے بتایاوہ بھی اب پاکستان واپس لوٹ آیا ہےاور واپس نہیں جانا چاہتا۔یہ میرے لیے بہت حیرت کی بات تھی میں نے اسے کہا :
’’اشعر تم تو پاکستان میں اپنا کیریئر بنانا نہیں چاہتے تھے ،اور امریکہ سیٹل ہو گئے تھے پھر واپس لوٹ آنے کی کیا وجہ ہے ‘‘۔
اشعر نے بجھی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ۔
’’اگر تم یہ سوال نہ بھی پوچھتے تب بھی میں تمہیں سب کچھ بتانے ہی والا تھا۔میں یہ چاہتا ہوں کہ جو غلطی مجھ سے سرزد ہوئی تھی اسے کوئی اور دہرائے ‘‘۔
میں نے حیرت سے کہا :
’’غلطی ؟کیسی غلطی اشعر کھل کر بات کرو کیا کہنا چاہتے ہو تم ؟
اشعر نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا :
’’ میرے دوست تم نے درست کہا مجھے پاکستان میں موجود بدنظمی اور بے ترتیبی سے کوفت ہوتی تھی ‘میں تو امریکہ کی مکمل طور پر ڈسپلنڈ سوسائٹی سے حد درجہ مرعوب تھا ۔ تم نے مجھے کتنی بار اپنے وطن کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کی پر میں تم سے بلا وجہ الجھ جاتا ۔
ویٹر چائےرکھ کر چلا گیااشعر نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئےکہا:
’’ میرے دوست میں بہت نا سمجھ تھا وقت نے مجھے سکھا دیا کہ اچھے برے لوگ ہر معاشرے کا حصہ ہیں ۔اور اگر قسمت میں برا وقت لکھا ہو تو وہ کہیں بھی آپ کو آن دبوچے گا‘‘۔
اشعر ٹھنڈی سانس بھرکر بولا :
’’ ایم فل کے بعد مجھے امریکہ میں بہت اچھی نوکری مل گئی اور میں حسب خواہش وہیں قیام پذیر ہو گیا اسی دوران نینا سے میری ملاقات کس میٹنگ میں ہوئی ۔وہ نہایت خوبصورت اور ذہین عیسائی لڑکی تھی میں
اس پر اپنا دل ہار گیا ۔راہ و رسم بڑھے تو پتہ چلا کہ پسندیدگی کا جذبہ اس کے دل میں بھی موجود تھا ۔ہم دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا ۔میرے والدین اس فیصلے پر خوش نہ تھےپر مجھے اب ان کی اجازت کی زیادہ پروا نہ تھی ۔میں نے نینا کے رسمی قبول اسلام کی بعد اس سے کورٹ میرج کر لی ۔ ہم دونوں بے حد خوش تھے جو چاہا وہی پالیا ۔ زندگی تتلی کے پروں جیسی رنگین اور خوبصورت ہو گئی ۔نینا مغربی انداز زندگی میں پلی بڑھی تھی، پارٹیز اور رات دیر تک کسینوز میں جانے کی رسیا تھی ۔ میں بھی خود کو مہذب اور ترقی یافتہ فرد ثابت کرنے کے لیے نینا کا بھرپور ساتھ دینے لگا۔ مجھے نینا کی خوشی اور نینا کی مسکراہٹ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز تھی۔ وہاں کا آ زاد ماحول اور اس ماحول کے ہم جولیوں کی سنگت بہت بھاتی ، نتیجہ یہ کہ رات دن وہاں کی رنگینیوں میں ڈوبارہتا ۔بوڑھے والدین میری واپسی کی راہ تکتے رہے پر مجھے ان کے بارے میں سوچنے کی فرصت کہاں تھی شروع شروع انہیں ہر ماہ رقم بھجوا دیتا’’پھر میری عیاشیاں بڑھتی گئیں اور یہ وقفہ طویل ہوتا گیا‘‘۔
یہاں تک پہنچ کر اشعر ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا ۔ماضی کی یادوں کے کرب کا احساس اس کے دھواں ہوتے چہرے سے عیاں تھا ۔
اشعر کی چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی میں نے ویٹر کو دوسری چائے کا آرڈر دیا۔
پھر وہ دوبارہ گویا ہؤا ۔
’’ نینا کا خیال تھا کہ بچے آزاد زندگی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ‘اسی لیے اس کی خواہش کے عین مطابق اولاد کی نعمت سے بھی محروم رہے اور پھر وہ ہؤا جو میں نے کبھی خوابوں میں بھی نہ سوچا تھا ۔ کرونا کی مہلک وبا نے جہاں ساری دنیا میں تباہی مچائی ‘وہیں میرے خوابوں کے خود ساختہ محل کو بھی خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئی‘‘۔
اشعر کی آنکھوں میں نمی اتر آئی جسے وہ کوشش کے باوجود بھی مجھ سے چھپا نہ پایا میں نے تسلی دینے کے لیے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اسے پینے کےلیے پانی کا گلاس دیا ایک ‘ لمحے کی خاموشی کے بعد وہ گویا ہؤا ۔
’’طویل لاک ڈاؤن کے باعث جن بے شمار کمپنیوں میں تالے لگے ان میں میری بھی کمپنی شامل تھی ۔ میری نوکری ختم ہوتے ہی نینا نے اپنا اصل چہرہ دکھایا ۔گھر سے سے تو پہلے ہی کوئی دلچسپی نہ تھی اب اسے مجھ میں بھی کوئی دلچسپی نہ رہی ۔ گھر بے ترتیب رہتا۔میں اپنی نفاست پسند طبیعت کو بالائے طاق رکھ کر گھر کے سکون کے لیے سب ذمہ داریاں خود اداکرتا رہا۔اور پھر نینا نے پیسوں کی تنگی سے فرسٹریٹ ہو کربے تحاشہ شراب نوشی شروع کر دی ۔بات یہاں تک نہ تھی بلکہ اس نے اپنے پرانے بوائے فرینڈ سے بھی تعلقات استوار کر لیے ۔ ہم دونوں کے جھگڑے بڑھتے گئے ۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ انہی دنوں مجھے شدید کرونا بھی لاحق ہوگیا ۔ مجھے قرنطینہ میں لے جایا گیا ۔میرے بچنے کے کوئی آثار نہ تھے۔ زیادہ دکھ یہ تھا کہ نینا نے میری کوئی خیر خبر نہ لی ۔میں پورے دو ماہ ہسپتال میں رہا،اللہ
نے مجھے ماں باپ کی دعاؤں سے دوبارہ زندگی دی ۔ہسپتال سے واپس لوٹا تو سب کچھ ختم ہو چکا تھا ۔میری محبت کا دم بھرنے والی نینا اپنے مالدار بوائے فرینڈ کے فلیٹ میں شفٹ ہو چکی تھی ۔اس نے کورٹ کے ذریعے طلاق لے لی اور امریکی قانون کے مطابق میری جائیداد کے بڑےحصے کی حقدار بھی بن گئی ۔ وہ مجھے کنگال کر کے چلی گئی ۔سب عیش پسند نام نہاد دوستوں نے بھی منہ پھیر لیا ۔میں در در کی ٹھوکریں کھانے لگا‘‘۔وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیاپھر خود کو سنبھال کر رقت بھرے لہجے میں بولا:
’’کووڈ کےلیے لگائے امدادی کیمپس سے قطاروں میں لگ لگ کر راشن لاتا اور پیٹ بھرتا۔میں نے اپنے والدین کا دل دکھایا تھا اللہ تعالیٰ نے وہ سب مجھ سے چھین لیا جس کی خاطر میں نے انہیں چھوڑا تھا ۔ پچھتاوے ناگ بن کر مجھے چاروں جانب سے ڈس رہے تھے اور پھر میں نے مقامی کرونا سینٹر میں رضاکار کے طورپہ کام کرنے کے لیے خود کو پیش کر دیا۔
وہاں تنہائی اور بے بسی کا راج تھا ۔بے حس سسکتی انسانیت کے نظارے تھے۔ ہر رشتے کا بھیانک خود غرض روپ تھا۔میں نے مغرب کے جذبات سے عاری مردہ معاشرے کو قریب سے دیکھ لیا ۔میں خود کو ضمیر کی ملامت سے بچانے کے لیے بے سہارا مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف رکھتا ۔
’’میرے بوڑھے والدین جو دن رات میری راہ تکتے رہتے تھے انہیں میری حالت زار کا علم ہؤا تو میری تمام تر نافرمانیوں کے باوجود ایک ایک پائی جوڑ کر مجھے ٹکٹ کےلیے رقم بھجوائی۔ لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی میں سیدھا پاکستان اپنے والدین کے پاس پہنچ گیا۔ ان کے قدموں میں سر رکھ کر اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگی ۔والدین کو اللہ نے بہت بڑا ظرف دیا ہے وہ اپنے بچوں کے سارے قصور پل بھر میں معاف کر دیتے ہیں ۔اب میں دن رات ان کی خدمت کرتا ہوں اور اللہ سے دوبارہ اپنا رابطہ استوار کر کے گناہوں کی بخشش کروانا چاہتا ہوں‘‘۔ اشعر نے میرا ہاتھ پکڑ کر نہایت مخلصانہ لہجے میں کہا :
’’میرے دوست والدین کی دعاؤں اور ان کی رضامندی سے ہی سب برکتیں ہیں ۔مجھے پاکستان پہنچتے ہی بہت اچھی نوکری مل گئی ۔ تمہاری والدہ نے دل پر پتھر رکھ کر تمہیں بیرون ملک جانے کی اجازت تو دے دی ہے ‘ پر انہیں اس عمر میں پیسوں کے بجائے اپنے بیٹے کی محبت اور اس کے لمس کی ضرورت ہے ‘‘۔
اشعر کی بات ختم ہو چکی تھی۔میرا سر شرمندگی سے جھک چکا تھا اس کی نصیحت آموز داستان نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔واقعی یہ سچ ہے کہ اپنی خود غرضیوں کی وجہ سےہم اپنوں کی بے لوث محبت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
اشعر ایک مخلص اور سچا دوست ثابت ہؤا اس نے مجھے کیمیکل کے کاروبار کےلیے پارٹنر شپ پر سرمایہ دینے کا ارادہ ظاہر کیا ۔جسے میں نے بخوشی قبول کر لیا ۔
اس روز اشعر سے ملا قات کے بعد گھر لوٹا تو سیدھا والدہ کے پاس جاکر ان کا دل دکھانے کی معافی مانگی ۔والدہ نے سجدۂ شکر ادا کیا ۔ شرمین بھی خوشی سے نہال ہو گئی ۔
آج جبکہ اس بات کو ایک سال ہو چکا ہے تو اللہ کے فضل اور والدین کی دعاؤں کے طفیل ’’اشعر اینڈ شرجیل کیمیکلز ‘‘ دن رات پھل پھول رہا ہے ۔ اشعر کے والدین نے ایک نیک سیرت لڑکی سے اس کی شادی بھی کر وا دی ہے اور یوں اس کی زندگی سچی خوشیوں سے سج گئی ہے۔
سچ کہا ہے شاعر نے:
ستارے جیسی پیشانی ہے میری
اسے چوما ہے جب سے میری ما ں نے