فلموں،ڈراموں کی طرح انیلہ کا رشتہ بھی اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی طے پا گیا تھا ۔رفیق ماموں نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا۔
’’آپا اگر بیٹا ہوا تواپنی مرضی سے فیصلہ کریں اور بیٹی ہوئی تو وہ میرے عتیق الرحمن کی دلہن بنے گی‘‘۔
رفیق ماموں کے اس فیصلے سے انہیں گنوار دیہاتی اور ان پڑھ مت جانیے ۔بھئی وہ تو جنوبی پنجاب کی ایک مشہور و معروف یونیورسٹی کے پرنسپل تھے …..جی پرنسپل!
واشنگٹن ٹاؤن کی ایک یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کر کے لوٹے تھے اور واپس آتے ہی انہیں یہ عہدہ پلیٹ میں رکھا مل گیا۔اور آپا بھی کوئی گھونگھٹ نکال کر کولہو کے بیل کی طرح گھر بار کی مشقت میں مصروف عورت نہیں تھیں، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے تین گولڈ میڈل حاصل کر کے اپنے علاقے کی واحد گائنا کالوجسٹ تھیں ۔بات تو ساری محبت کی تھی جو ان دونوں سگے بھائی اور بہن میں تھی۔سکول اکٹھےجاتے ،ہر بریک میں مل بیٹھتے،ایک ٹافی بھی ملکیت میں ہوتی تو آدھی آدھی تقسیم کر کے کھاتے،ٹی وی پر کارٹون ہوں یا اشتہار ،دونوں کی ایک ہی پسند تھی ۔رفیق اپنی پسند سے نہیں اپنی بہن زیتون بیگم کی پسند سے کپڑے پہنتا اور زیتون بیگم اپنے بھائی رفیق کی پسند سے ۔میٹرک میں دونوں کے نمبر ایک جیسے تھے، ایف ایس سی میں دونوں نے ایک جیسے مضامین رکھے ایک جیسا ٹائم ٹیبل…..ایک جیسے مشاغل اور سرگرمیاں!
بس ایف ایس سی کے بعد زیتون بیگم میڈیکل کالج میں پہنچی اور رفیق نے فزکس میں آگے تک جانے کا پروگرام بنایا ۔پھر بھی دونوں کی روٹین ایک جیسی رہی ۔ ڈسٹکشن کے ساتھ دونوں نے تعلیم مکمل کی ۔ دونوں کی شادیاں ایک ہی خاندان میں آگے پیچھے بس چند ماہ کے فرق سے طے پائیں۔
دونوں کی ازدواجی زندگی خوشحالی اور مسرت سے گزر رہی تھی ۔ لیکن …..لیکن دونوں کے اگلے مراحل قطعی ایک جیسے نہیں تھے!
رفیق ماموں کے ہاں اللہ نے شادی کے پہلے سال ہی بیٹا دے کر رتبہ بلند کردیا جبکہ زیتون بیگم مشہور و معروف گائنا کالوجسٹ اور میڈیکل کالج میں گائنی کی پروفیسر اس بارے میں تہی دامن تھیں۔یہ تو اب اوپر والے کو ہی معلوم ہوگا کہ تہی دامنی میں ان کی اپنی خواہش تھی یا رب کا فیصلہ۔مگر دوسرے بھتیجے کی آمد تک وہ فارغ البال تھیں(سرائیکی زبان میں بال ،بچوں کو کہتے ہیں )۔
پھر معجزہ ہؤا ۔اللہ کی طرف سے خوشخبری کا علم ہوتے ہی رفیق ماموں نے فیصلہ سنا دیا اور ان کی خواہش پوری ہوئی۔ماہا ان کی بھانجی دنیا میں کیا آئی خوشیوں کا در کھلتا چلاگیا ۔ان کے ہاں دو بیٹے مزید پیدا ہوئے اور ماہا کی دو بہنیں دنیا کی رونقوں میں اضافے کے لیے آئیں ۔
ماہا اور عتیق الرحمان ،دونوں کو ان کے بچپن میں ان کے طے کیے جانے والے رشتے کا بتا دیا گیا تھا ۔دونوں گو ایک ساتھ تو نہیں رہتے تھے مگر ویک اینڈ کے علاوہ ہر موسمی بے موسمی چھٹی پر ان دونوں گھرانوں کا اکٹھے ہونا لازمی تھا۔ دونوں کی اچھی انڈر سٹینڈنگ تھی ،دونوں پڑھنے والوں میں اک مثال تھے ۔خیال یہی تھا کہ تعلیمی مراحل اور مدارج طے کرتے ہی ان کی شادی کردی جاے گی مگر وہ کچھ ہؤا جو سوچا بھی نہیں تھا!
اپنی چچازاد بہن کی شادی میں باراتیوں کو دیکھ کر ماہا کو خوشگوار حیرت ہوئی۔دلہا کا بھائی اس کی کلاس کا سب سے ذہین لڑکاتھا. ….بہت سنجیدہ اور پڑھاکو۔اسے اپنی پڑھائی میں یہ ہوش ہی نہ تھی کہ پتہ چلتا کہ چچا زاد بہن کا رشتہ کہاں طے ہؤا ہے۔ اب غیر متوقع طور پر اپنے کلاس فیلو رافع اسماعیل کو دیکھ کر اسے بہت ہی اچھا لگا۔
وہ سب باراتیوں سے بہت اچھے انداز سے ملی اور رافع تو خود دو چار مرتبہ اس سے اس نئے رشتے پر مسرت کا اظہار کر چکا تھا ۔
شادیوں پر ریزرو اور الگ تھلگ سی رہنے والی ماہا اس دن تتلیوں کی طرح اڑتی پھر رہی تھی یا شاید نفسیاتی طور پر یہ بات بھی شامل تھی کہ رافع اسماعیل کی تعلیمی کیریئر میں سب نے تعریف ہی کی تھی تو قابل تعریف چیز کی خوشی تو بنتی ہے!
چچازاد بہن کی رخصتی کے وقت ایک اور فلمی سین ہوگیا۔سٹیج سے اترتے ہوئے اس کا پاوں رپٹا اور وہ اوندھے منہ گرنےسے بال بال بچی۔رافع اسماعیل قریب ہی تھا ۔ایک دم اس نے آگے بڑھ کر اسے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ورنہ شاید اتنے اونچے سٹیج سے گر کر ایک نہ ایک ہڈی پسلی ضرور تڑوا بیٹھتی۔
چچازاد بہن کی رخصتی بھی ہوگئی لیکن وہ دہشت زدہ سی ایک طرف بیٹھی رہی ۔سب لوگوں کے ہجوم میں اتنی بری طرح سے گرنا اور پھر رافع اسماعیل کا آگے بڑھ کر اسے تھام لینا…. اس کے اوپر عجیب سا خوف طاری ہوگیا۔
ولیمہ پر بھی وہ گئی ۔دلہا کا بھائی ہونے کے ناطے رافع ہر سرگرمی میں پیش پیش تھا ۔چاروں طرف اس کی پکار تھی ۔رافع! اے سی بند کروادو ، ٹھنڈ ہوگئی ہے
رافع….بچوںکے لیے کچھ کھانے کا بندوبست کرو ۔
رافع ،بڑے ماموں اور تایا کی فیملی کو ائر پورٹ سے کون لا رہا ہے ؟
وہیں پر اسے رافع کی بہن یعنی اپنی چچا زاد بہن کی نندوں سے ملنے کا موقع ملا۔وہیں اسے پتہ چلا کل بارات میں ایک دم بخار زیادہ ہونے کی وجہ سے نہ آسکنے والی اس سے ایک سال جونیئر لائق فائق ہونہار سیکنڈ پرَوف کی طالبہ ازکیٰ اسماعیل،رافع کی بہن ہے۔وہ اس بچی سے بھی بہت متاثر تھی۔ ہر میدان میں آگے ،کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے والی پیاری سی ازکیٰ اسماعیل رافع کی بہن اور اس کے اتنی قریبی رشتے داروں میں شامل ہوجاے گی؟ وہ بچوں کی طرح خوش ہو رہی تھی۔ رفیق ماموں کی ساری فیملی سوائے عتیق الرحمان کے شادی میں شامل تھی، ماہاان سب کو اپنی خوشی میں شریک کر رہی تھی ہر دو منٹ کے بعد عتیق کو وائس ریکارڈنگ اور تصویریں بھیج بھیج کر بتا رہی تھی ۔ اس کا حال بہت معصوم چھوٹے سے بچے کا تھا جس سے خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی!!
کلاس میں بھی اس نے سب کو بتایا ۔ہم پہلے صرف کلاس فیلو تھے اب نئے رشتے دار بھی بن گئے ،اس نے جلی حروف میں ٹویٹر پر ٹویٹ کیا، فیس بک اور واٹس ایپ پر سٹیٹس ڈالا۔اپنی چھوٹی سے چھوٹی بات اور جذبات میں ماموں کے گھرانے اور عتیق الرحمان کو شامل رکھا ۔
چند ہی دنوں میں اسے رافع اسماعیل نے کیفے میں بلایا۔اس کی آنکھیں سرخ تھیں، چہرہ مرجھایا ہؤا ۔چڑیا جیسے دل والی ماہا اسے دیکھتے ہی بہت پریشان ہو گئی۔
’’کیا ہؤا ہے رافع ؟ گھر میں سب خیریت تو ہے؟‘‘ اس کے منے سے دماغ کو فوری طور پر اپنی چچازاد بہن کاخیال آیا۔
’’نہیں ماہا خیریت نہیں ہے‘‘ وہ ایکدم ہی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں کو ہتھیلی کی پشت سے صاف کرنے لگا۔
’’بھائی پلیز بتاؤ ،ناجیہ تو ٹھیک ہے ناں‘‘اس نے چچازاد بہن کا حال دریافت کیا۔
’’بھابھی تو ٹھیک ہیں لیکن ازکیٰ ٹھیک نہیں۔مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کیا کروں کس سے اپنی ٹینشن شیئر کروں‘‘اس کے آنسوؤں کی ڈوری نے ماہا کے دل کو اس کی مٹھی میں بند کردیا ۔
’’ازکیٰ بارات میں نہیں آئی تھی ناں…..‘‘وہ رکا اور آنسو پونچھے۔’’ اسے بہت تیز بخار اور متلی تھی …..اس کے ٹیسٹ اچھے نہیں۔ اسے بلڈ کینسر ہے….. لاسٹ سٹیج پر…..میں گھر میں ابھی تک کسی کو نہیں بتا سکا ۔ میں کیا کروں ؟ پلیز میری مدد کرو ‘‘وہ رندھے لہجہ میں بول رہا تھا ۔اس کی آنکھوں میں خوف تھا جدائی کا …..اپنی بہن سے دوری کا …..اتنے پیارے رشتے کو اذیت اور کرب میں دیکھنے کا۔
’’کیا کہا ؟‘‘ وہ شاک میں تھی ’’اوہ‘‘اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔اب دریا اس کی آنکھوں میں تھا۔وہ دو منٹ نہیں دو صدیاں تھیں جو بن کہے گزریں لیکن اسے امید دینا تھی، اس کے پاس وہ
مسیحائی کے لیے آیا تھا۔
’’ بھائی مجھے بتاؤمیں کیا کرسکتی ہوں ؟‘‘
’’آپ ابھی کسی سے کچھ مت کہیے بس بھابھی کو بتائیں اور امی کو بھی مناسب لفظوں میں ہلکا پھلکا سا…..ماں ہیں ناں ،بہت دیر لگے گی سنبھلنے میں ان کو‘‘اس کے چہرے پر آنسو بہہ رہے تھے۔
’’اور ازکیٰ کو کون بتائے گا؟‘‘ماہا نے فوری سوال کیا۔
’’ازکیٰ کو؟‘‘ رافع کا چہرہ پارہ پارہ ہؤا ’’وہ بہت تکلیف میں مبتلا ہے ۔اسے مزید تکلیف کیسے دیں؟‘‘
’’نہیں رافع بھائی اسے بتانا بہت ضروری ہے‘‘وہ قطعیت سے بولی ۔
’’میرا خیال ہے اسے بتانا لازم نہیں آگہی بہت بڑا عذاب ہوگا اس کے لیے وہ تو خو دسے ہی مر جائے گی‘‘ ،اس نے رائے دی ۔
’’میں متفق نہیں ہوں۔اسے ہی تو پتہ چلنا چاہیے کچھ بھی ہو اسے بتانا چاہیے ‘‘۔
’’ڈاکٹر نے زیادہ سے زیادہ دس گیارہ دن کا کہا ہے‘‘ ،اس نے حسرت سے بتایا ۔
’’ڈاکٹر خدا تو نہیں ہوتے ،دوسری بات یہ ہے کہ زندگی کا تو ایک پل کا نہیں علم ایکسیڈنٹ میں تو ایک لمحہ بھی نہیں ملتا ۔معجزے بھی ہوتے ہیں میرا خیال ہے بتادیں ۔آخر کار وہ خود بھی تو میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہے کچھ نہ کچھ اسے بھی اندازہ ہوگا ہی‘‘ماہا نے دو ٹوک خیال ظاہر کیا۔
’’چلیں پھر میرے ساتھ چلیں اسے آپ ہی آہستہ آہستہ بتادیں ، میری ہمت نہیں ہے ‘‘رافع نے اٹھتے ہوے کہا اور اس وقت اس کی عمر ستر سال کے بابے کی طرح تھی چال میں لنگڑاہٹ دیوار کو پکڑ پکڑ کر چلتاہؤا۔
’’ٹھیک ہے میں گھر میں بتادوں کہ آپ کی طرف جا رہی ہوں ، دیر سویر سے ماما بہت پریشان ہوتی ہیں‘‘ ۔
فون کال کے لیے موبائل فون ہاتھ میں لیا تھا تو ماما کی دو مسڈ کال سکرین پر چمک رہی تھیں۔
یا اللہ خیر ،جی ماما خیریت ؟ اس نے فوری بیک کال کی۔
’’ہاں سب ٹھیک ہے بس عتیق الرحمان کے تین چار مرتبہ میسج آچکے ہیں تم سے بات کرنا چاہ رہا ہے‘‘ ۔
’’اوہ ماما میں اس وقت ناجیہ کے ہاں جارہی ہوں واپسی پر بات کر لوں گی‘‘۔
پندرہ بیس منٹ کا فاصلہ اس دن وزیر اعظم کی آمد اور پروٹوکول کی وجہ سے گھنٹے میں طے ہؤا لیکن تب تک ازکیٰ ساری مسافتیں طے کر چکی تھی ۔
ازکیٰ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکی تھی ۔گھر میں آہ و بکا عالم تھا ۔ ماما کو فون کرکے اس نے ازکی کی وفات کا بتایا اور سب گھر والوں کو دلاسہ دینےلگی۔
اگلے دن وہ کلاس فیلوز کے ساتھ تعزیت کے لیے آئی ۔اتنی بے یقینی کی کیفیت تھی کہ اسے خود پر بھی یقین نہیں رہا ۔تین چار دن وہ ان کے ہاں جاتی رہی لیکن ازکیٰ کی موت نے اس کے وجود کو ایکدم کھوکھلا کردیا تھا ۔
زندگی کی بے ثباتی کا اتنا احساس کبھی بھی نہ ہؤا تھا ۔وہ سیل فون جس کے بغیر اس کا پل دو پل گزارہ نہ تھا اب دو دن سے چارجنگ کے بغیر کہیں پڑا تھا اور اسے علم ہی نہ تھا ۔کام والی ماسی کو صفائی میں کہیں سے ملا اسے چارجنگ پر لگایا ۔اوہ میرے خدایا !پچپن مسڈ کالز ….. اور سب کی سب عتیق الرحمان کی۔تھوڑی سی چارجنگ پر اس نے عتیق الرحمان کو کال ملائی۔
’’جی ،کیا حال ہے ؟‘‘ سلام دعا کے بعد اس نے بات شروع کی
’’ہم غریبوں کا حال چال کیا پوچھنا یہ بتائو ،رافع کیسا ہے ؟ ‘‘اس نے سرد سے لہجہ میں کہا یا شاید ماہا کو سرد سا محسوس ہؤا ۔
’’اس بیچارے کا کیا پوچھتے ہو ،بہت صدمے میں ہے وہ ابھی ‘‘ماہا دکھی سی بولی ۔
’’کیوں کیا تم نے جانا چھوڑ دیا ان کے ہاں؟‘‘ لہجہ مزید برفیلا ہؤا ۔
’’میرے جانے یا نہ جانے سے کیا تعلق ہے…..اس کی بہن تھی بیس اکیس سال کا ساتھ تھا ان کا‘‘ماہا نے کہا ۔
ان کا تو ساتھ جتنا بھی تھا تمہارا تو ساتھ اب مضبوط ہی ہے ان کے گھرانے سے ۔تمہارے سب سٹیٹس گواہ ہیںلہجہ میں برف کے ساتھ کچھ سفاکی بھی تھی۔
’’آپ کیا کہہ رہے ہیں عتیق؟ ‘‘وہ ہکلائی۔
’’میں نے کیا کہنا ہے۔سارے زمانے کو معلوم ہے جب سے تمہاری کزن کی شادی ہوئی ہے تمہارے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ہیں،کبھی اس کے دیور کے بازوؤں میں جانے کے لیے گرنے کا ڈرامہ کرتی ہو کبھی کیفے میں گھنٹے گھنٹے کی ملاقات کرتی ہو اس کی بہن مر گئی تو تین چار دن ادھر جاتی رہیں میں کبھی پھوپھو کو میسج کرتا ہوں کبھی تمہیں کال کرتا ہوں….. فون ہی بند کردیا کہ کال اٹینڈ نہ کرنی پڑجائے ۔بندے بدل بھی تو جاتے ہیں …..‘‘
پتہ نہیں اور کیا کہا اس نے مگر ماہا کو نہیں پتہ چل سکا وہ ہوش و حواس کی دنیا چھوڑ چکی تھی ۔صوفے پر وہ بے ہوش گری ہوئی تھی جب چھوٹی بہن اسماء وہاں سے گزری اور اس کی یہ حالت دیکھ کر چیخی ۔
زندگی کے اگلےتین دن اس کے اپنے نہیں تھے ۔وہ مشینوں کے ذریعے مصنوعی تنفس لے رہی تھی ۔جوڈاکٹرز پینل پر تھے سب کی مشترکہ رائے یہی تھی کہ صدمہ کی شدت دماغ پر سوار ہو چکی ہے ۔ بی پی شوٹ کر گیا تھا ۔ مکمل طور پر ہوش میں آنے اور زندگی کی بھاگ دوڑ میں شامل ہونے کے لیے تیس بتیس دنوں نے نذرانہ لیا ۔
اس کے ہاتھ میں موبائل فون اور اس وقت کالر کی جگہ پر عتیق الرحمان کا نام دیکھ کر ماما نے از خود اس سے رابطہ کیا تھا ۔اس کا بیانیہ اب قدرے نرم اور کم سفاکیت لیے ہوئے تھا تاہم مدعا زیتون بیگم تک پہنچ چکا تھا ۔ انہوں نے بغیر کسی سے مشورہ کیے رشتہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔اگلے تین ماہ میں یہ فیصلہ ان کے دل و دماغ سے رفیق کے گھرانے تک پہنچ چکا تھا۔
’’لیکن یہ اتنی بڑی بات نہیں تھی جتنی تم نے بنالی زیتون‘‘رفیق بھائی پریشانی سے بولے ۔
’’ماں اپنے ہر بچے کی فطرت کو بہت اچھی طرح جانتی ہے اور مجھے بھی معلوم ہے کہ ماہا مجھے ہر بات بتاتی رہی ہے ۔عتیق نے جس کے ذریعے ساری جاسوسی کروائی ، پل پل کی رپورٹ حاصل کی ،جو زہر بھرے فقرے ماہا کے کانوں میں ڈالے آپ رفیق بھائی خود اندازہ لگائیں کہ ان کی شدت کتنی تھی کہ اس کا دل ان فقروں کا بوجھ سہار سکا نہ دماغ‘‘۔
’’لیکن یہ محض غلط فہمی تھی ۔اور غلط فہمی کا نتیجہ کبھی بھی اتنا سنگین نہیں ہوتا وہ ہم سے بھی معافی مانگ چکا ہے تم لوگوں سے بھی معافی مانگ چکا ہے۔ آب آج ہی وہ آکے ماہا سے بھی معافی مانگ لے گا۔ بس دل بڑا کرو اور اتنی سی بات پر رشتہ ختم نہ کرو‘‘۔
موبائل فون ماہا نے چپکے سے پکڑا اور سلام کے بعد بہت نرم لہجے میں بولی ۔
’’رفیق ماموں! آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر رشتوں کی پائیداری کا احساس اعتبار پر ہوتا ہے …..اعتبار ہی تو کھویا ہے میرا عتیق نے ،میں تو اب سمجھ پائی ہوں کہ اللہ نے بار بار اپنے آپ کو سینوں کے بھید جاننے والا کیوں کہا ہے۔ عتیق نے سب سے معافی مانگی مجھے بھی اس کے معافی والے میسجز تواتر سے موصول ہوتے ہیں لیکن …..ماموں میں اتنی کم ظرف نہیں کہ معاف نہ کروں ۔اس نے مجھے اذیت دی ،مجھ پر شک کیا میں نے معافی مانگنے پر اسے معاف کردیا ۔مگر پیارے ماموں معاف کردینے کا مطلب دل صاف کرنا ہے ناں! تو وہ میں نے کر لیا جو میرے بس میں تھا ،اس کے ساتھ جو ذہنی اذیت مجھے پہنچی وہ شاید مدت تک میرے ساتھ ہی رہے گی اور جب بھی میں عتیق کو دیکھوں گی وہ اذیت پھر سے دکھ دے گی ۔کیا ایسے نہیں ہوتا؟ اور آپ کو تو پتہ ہی ہے معاف تو میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حمزہ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو بھی کردیا تھا لیکن اس نکتے پر کہ آئندہ میرے سامنے نہ آنا…..سامنے آنے سے زخم پھر سے رسنے لگتے ہیں ۔پھر سے ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں ۔ ماموں آپ کو ایک سے ایک اچھی بہو مل جائے گی اور آنے والے کل میں اس رشتے کے ختم ہونے والا قصہ کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا …..آپ کو نہ مجھے ‘‘۔
ماما نے اس کا کرچی کرچی چہرہ دیکھ کر فون اس کے ہاتھ سے لے لیا تھا …..جو بھی تھا دکھ ہی امر ہوتے ہیں خوشیاں تو پل بھر کے لیے ہوتی ہیں ان میں بھی اگر اذیت اور شک شامل ہوجائے تو زندگی بوجھ بن جاتی ہے ۔اور اس سانحے کے بعد وہ کوئی دکھ اور صدمہ کا بوجھ نہیں سہار سکتی تھی۔
اگر بن کہے یہ بات ماما کو سمجھ میں آگئی تھی تو باقیوں کو بھی آہی جائے گی !یہ سوچ کراس نے ٹھنڈی سانس بھر کر سر صوفے کی پشت سے ٹکا دیا۔
٭ ٭ ٭