کوئی بھی ایسا جائزکام جو فرض یاواجب نہ ہو، ایسا کام کرنے سے پہلے جلد بازی کرنے کی بجائے دو کام کرنا سنت ہے :
1۔استخارہ
یعنی اللہ رب العزت سے اس کام کے خیر کے پہلو کی دعا کرنا کہ یا اللہ اگر فلاں رشتے ، کاروبار ، ملازمت وغیرہ میں اگر میرے لیے دنیا آخرت کی خیر ہے تو مجھے نصیب فرما ورنہ مجھے بچا کر کوئی نعم البدل عطا فرما۔
2۔ استشارہ
یعنی اللہ کے بندوں سے اس کام کے متعلق مشورہ کرنا ۔
استخارہ اور استشارہ کی فضیلت سے متعلق مقولہ ہے کہ :
ماخاب من استخار ولا ندم من استشار
یعنی جس نے استخارہ کیا وہ کبھی دھوکے کا شکار نہیں ہوا اور جس نے مشورہ کیا وہ کبھی شرمندگی اور پچھتاوے کا شکار نہیں ہؤا۔
چونکہ انسان ہرفن مولیٰ نہیں بن سکتا لہٰذا کچھ امور میں متعلقہ ماہرین سے رائے لینا پڑتی ہے اور اسی کا نام مشورہ ہے۔ قرآن کریم سورہ شوری میں اللہ رب العزت اہل ایمان کی ایک اہم خوبی بتلاتے ہیں کہ’’وامرھم شوری بینھم‘‘ یعنی ان کے آپس کے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں ۔
ذیل میں مشورے کے آداب و شرائط ذکر کی جاتی ہیں:
اہلیت
سب سے پہلے دیکھا جائے گا کہ جس شخص سے مشورہ طلب کیا جارہا ہے وہ مشورے کے لائق ہے بھی یا نہیں ۔ لہٰذا ہر مشورہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں بلکہ مشورے میں مشیر کی متعلقہ معاملے سے متعلق اہلیت کو دیکھا جائے گا۔ بہت سے مشورے غلط ثابت ہونے کی وجہ یہی ہے کہ مشورہ غلط شخص سے لیا جاتا ہے لہٰذا کاروباری امور سے متعلق مشورہ وہی شخص دے سکتا ہے جو تجارت کرچکا ہو کوئی ڈاکٹر انجینئرنگ فیلڈ سے متعلق مشورہ کیسے دے سکتا ہے؟ اسی طرح دین سے متعلق مشورہ علماء سے کیا جائے گا کسی انجنیئر پروفیسر یا ڈاکٹر سے نہیں۔
الغرض یہ دیکھاجائے گا کہ فلاں شخص کے اندر اس معاملے میں مشورہ دینے کی اہلیت اور اس بارے میں معلومات ہیں یا نہیں ۔
امانت داری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے’’ ان المستشار موتمن‘‘ (ترمذی) یقینا جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانتدار ہے۔ لہٰذا امین کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلوص اور سچائی کے ساتھ مشورہ دے، اپنی انا ضد لحاظ مروت کے چکر میں غلط مشورہ نہ دے ۔
مثلاً کسی جگہ رشتے یا لین دین سے متعلق مشورہ ہو تو صاف بتادے کہ یہ رشتہ یا فلاں سے لین دین درست ہے یا نہیں، بلاوجہ غلط کو صحیح اور اطمینان بخش بتاکر دوسروں کی زندگی اجیرن نہ کرے۔
رازداری
مشورے کو راز میں رکھے ۔کسی نے مشورہ مانگا اب ظاہر ہے اس کا کوئی راز پتہ چل گیا لیکن اس بات کی بالکل بھی اجازت نہیں کہ اس راز کو فاش کیا جائے یا کسی کو بھی بتائے بلکہ یہ مشورہ لینے والے کا حق ہے کہ اس کی بات کسی کو بھی نہ بتائی جائے ۔
مشورے کے چند آداب
1۔ عمر کی شرط نہیں
مشورے کے لیے عمر کی شرط نہیں، عین ممکن ہے کہ مشورہ لینے والا عمر میں بڑاہواورمشورہ دینے والا عمر میں کم ہو لیکن اپنی صلاحیت و تجربے میں وسیع ہو ۔
2۔ مشورہ اور حکم میں فرق
مشورہ حکم کا درجہ نہیں رکھتا لہذا ضروری نہیں کہ مشورہ لینے والا اسی کے مشورے پر عمل کرے بلکہ وہ اس سے ہٹ کر دوسری رائے پر بھی عمل کرسکتا ہے اور اس میں خفگی و ناراضگی کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔٭