وہ تن دہی سے کام میں مصروف تھی۔ اس کا خاوندسلام بن مشکم صبح سے نکلا ہؤا تھا ۔ پر تکلف کھانے کے اہتمام کے لیے اسے کچھ خاص مصالحوں کی ضرورت تھی ۔ اُس نے اُسے یثرب کے آخری کونے میں ایک گمنام جڑی بوٹیوں والے سے زہریلی جڑی بوٹی بھی لانی تھی ۔ اس جڑی بوٹی کا ذکرکسی طبیب سے سنا تھا اس لیے ا س کے ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ آیا ۔ اُس طبیب سے اُس کے گہرے مراسم تھے ۔
جب سے مدینے والا نبی یہاں آیا تھا ، ان کو یثرب کی زمین اپنی نہیں لگتی تھی ۔ جہاں دیکھو، چار آدمی موجود ہیں ، وہیں چہ میگوئیاں ہونے لگتیں ۔ کوئی محفل اللہ کے ذکر سے معمور ہوتی تو کوئی مجلس اس نبی کی مخالفت میں مشورے کرتی نظر آتی اور وہ بھی چپکے چپکے ۔ آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے سے اطمینان کر لیا جاتا کہ اپنے ہی آدمی ہیں۔
یہودی مدینے میں صدیوں سے اپنا کاروبار جما کر بیٹھے ہوئے تھے ۔ اُس کے پاس تو رات و انجیل تھیں جو الہامی کتب تھیں ۔ عرب بھر میں اُن کی بڑی عزت تھی۔ بڑے بڑے دیوی دیوتائوں کے استھان تھے جن پروہ بڑے بڑے نذرانے قبول کرتے تھے ۔ ان کی سرداریاں اسی بل پر چلتی تھیں ۔ مذہبی موشگافیوں اور قانونی دلائل سے حقیقت چھپانے ، مڑوڑنے اور من چاہی تاویل گھڑنے میں ماہر تھے ۔ انہوں نے سود خوری کر کے عملاً اوس و خزرج کو اپنا غلام بنا رکھا تھا ۔ ایک کو دوسرے کے خلاف ابھارتے اور دونوں کو دھڑا دھڑا سلحہ دیتے ۔وہ یثرب کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ثالثی کی تجویز پیش کرتے۔ منظور ہو جاتی تو نئے دام اور نئے جال ۔ شکاری وہی پرانے تھے لیکن شکلیں بدلتی رہتی تھیں ۔
جب سے اس نئے نبی کا ظہور ہؤا تھا اور اس نبی پر وہ نازل کردہ کتاب جو اللہ کی طرف سے تھی ، اس نے یہودیوں کے چہرے سے مذہبیت کا خوش نما نقاب اتار پھینکا تھا ۔ اب جو اصل چہرہ سامنے آ رہا تھا وہ بہت بھیانک اور مکروہ تھا بجائے اس کے کہ وہ اپنی اصلاح کرتے وہ کھلم کھلا اس نبی کی عوت دین کے آگے مخالفت اور سازشوں کا کوہ گراں بن کر سامنے آگئے ۔ انہوں نے سادہ لوح عوام میں گمرا کن پروپیگنڈا کیا ۔ جنگوں میں بد عہدی کی اور اپنے عبرت ناک انجام سے دو چار ہوئے ۔ انہوں نے غزوہ خیبر میں بنو نصیر سے معاہدہ کر کے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ۔ وہ تو مسلمانوں کے خدا نے اور اس کے رسول کی فہم و فراست نے انہیں بچا لیا ورنہ ان مٹھی بھر مسلمانوں کی حیثیت ہی کیا تھی۔ ان کی اوقات کیا تھی ۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ یہودیوں کا ساتھ نہ دیتی اس کی قوم کے کچھ لوگ غداری کر کے مسلمانوں کے ساتھ جا ملے تھے جس پر وہ غصے اور انتقام سے پاگل ہو رہے تھے۔
اسے جڑی بوٹیوں سے خاصی دلچسپی تھی یہی دلچسپی اسے اس منصوبے تک لے آئی تھی ۔ ہوا بند تھی ۔ اس نے سورج کی طرف ہاتھ کا چھجا بنا کردیکھا ۔ چیزوںکے سائے سے اس نے اندازہ کیا کہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا۔
’’ جلدی آجائو سلام ۔ بڑا کام ہے ہو لا لائو ہو لا لائو لائو‘‘ اس نے اپنی عبادت کا آغاز کیا جو رقص سے ملتی جلتی تھی ۔ آج کی شام اگر وہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا تو وہ اپنی قوم کے آگے سرخرو ہو جاتی کاش اے کاش یہ ’’ عظیم‘‘ کام اس کے ہاتھوں ہی سر انجام پائے اس کے ہونٹوں پر پھیلی سفاک اور رنگین مسکراہٹ اسے بد نما بنا رہی تھی۔ اتنے میں دروازے کے باہر آہٹ ہوئی تو عبادت چھوڑ کر استقبال کو لپکی۔
’’ اوئے بلے ہی بلے۔ آج تو قتل کی پوری تیاری ہے ‘‘۔
’’ ہم توآپ کے ہی ہیں صنم‘‘ اُس نے مسکرا کر داد سمیٹی پھر
’’ ہم توآپ کے ہی ہیں صنم‘‘ اُس نے مسکرا کر داد سمیٹی پھر اشارے سے بھنویں اُچکا کر جڑی بوٹیوں کی بابت استفسار کیا۔ جواب اثبات میں پا کر وہ نہال ہوگئی۔
’’ آج وہ خصوصی خبر آجائے تو خصوصی ہلا گلا کریں گے ۔ ٹھیک ہے سلام ‘‘۔
’’ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ ساری قوم کی نظریں تمہاری طرف ہیں یہودی کی بیٹی ضیناب بنت ہارث ، ہارث کی بیٹی‘‘۔
’’ اچھا تو پھر میرے ساتھ آئو وقت کم ہے اور کام زیادہ ‘‘۔
’’ ہاں میں آتے ہوئے مدینہ والے نبی کے پاس سے ہو کر آیا تھا۔ وہ ہمارے گھر مہمان بن کر نہیں آ رہے تم ایسا کرو کہ ہدیہ بھیج دو‘‘۔
’’ جی اچھا‘‘
’’ مہمان… میرا مطلب ہے ہمارے خصوصی مہمان گوشت کی دستی کو خاص طور پر پسند کرتے ہیں ‘‘۔ اُس نے لفظ لفظ چبا چبا کر کہے ۔
ضیناب اپنا کام مہارت سے کر رہی تھی ۔ کھانے کے چند مراحل پر اس نے خصوصی توجہ دی ۔ دستی کو خوب بھونا اس پر تیز مہلک زہر لگا دیا اور توشہ اپنے میاں کے سپرد کر کے کہا ۔
’’ یہ لے جائو ۔ اُمید ہے کہ آج ہمارے دشمن کو قبر نصیب ہو گی‘‘۔
’’ اگر یہ نبی سچا ثابت ہؤا تو‘‘ اندیشے کا ناگ کلبلایا ۔
’’ یہ کیسے سچا ہو سکتا ہے جب کہ ہم اسے جھوٹا سمجھتے ہیں تم خدا لگتی کہنا کہ اگر یہ نبی ہوتا تو ہماری نسل سے نہ اٹھتا مگر یہ ہمارے مخالفوں کی نسل سے اٹھا ہے تو یہ جھوٹا ہی ہے سب دیکھاجائے گا ۔ کس کی ہمت ہے کہ مجھے ہاتھ لگا سکے ۔ تم فکر نہ کرو‘‘ وہ زہر خند ہوئی اور گنگنانے لگی۔
آج کی شام ، ہے تیرے نام
آج ہے نشہ جو ہے چھایا ہؤا
مہکا ہؤا ، بہکا ہؤا
آج کی رات ہونا ہے کیا ؟
آج کی رات کھونا ہے کیا؟
اُس کی سُریلی آواز کے ساتھ سلام بھی سر ملانے لگا ۔ ہوا جیسے تھم سی گئی ۔ زمین آسمان وحشت زدہ تھے ۔ وقت بڑی سست روی سے چل رہا تھا ۔ نہ جانے اب کیا ہونے والا تھا ۔
’’ حضورؐ! یہ یہ سلام بن مشکم کی طرف سے ہدیہ آیا ہے ‘‘۔
فتح خیبر کے بعد یہودیوں کی طرف سے تحفہ شاید صلح کا اشارہ تھا ۔
’’ یا رسول اللہ ؐ! کھانا تناول فرمائیں گے ؟‘‘
’’ جی بالکل !‘‘ کھانے کا دستر خوان بچھنے لگا ۔ سب لوگ مل جل کر کام کررہے تھے ۔ حضورؐ کے ساتھیوں میں براء ؓ بھی آ ن ملے وہ اپنے کسی معاملے میں اللہ کے نبی سے مشورہ کرنے آئے تھے ۔
’’ اچھا یا رسول اللہ ؐ! میری تشفی ہو گئی ہے ۔ میں چلتا ہوں ‘‘۔ صحابی چاہتے تھے کہ اللہ کے نبی آرام سے کھانا تناول فرما لیں ۔ اگر کوئی مسئلہ ہؤاتو بعد میں دریافت کر لیں گے ۔ وہ اجازت لے کر اُٹھنے لگے ۔
’’ کھانا تو کھا لو بشر بن براء‘‘۔
’’ یا رسول اللہ ؐ! اللہ آپ کو برکت دے ۔ میں اجازت چاہوں گا‘‘۔
’’ اچھا پھراپنا حصہ لے لو ‘‘۔
جب بھی کوئی ہدیہ آتا ہے تو اللہ کے نبی خود بھی کھاتے ہیں اورساتھیوں کو بھی شریک فرماتے ہیں لیکن صدقہ خود استعمال نہیں کرتے بلکہ مدینہ کے غریب ناداروںمیں تقسیم فرما دیتے ہیں۔
کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ ہاتھ دھو کر سب کھانا کھانے کے لیے بیٹھے۔ آنجنابؐ نے لقمہ توڑا اور بنا کر جب منہ میں ڈال تو ذائقہ بہت عجیب سا لگا ۔
’’ رُک جائو ! گوشت نے مجھے بتا دیا ہے کہ اس میں زہر ملا ہؤا ہے اسے نہ کھانا۔ اسے فوراً تھوک دو‘‘۔
’’ دھوکہ … یہودی … اُف اس مرحلے پر بھی نہ چوکے …اوہ بشر‘‘ انہوں نے قے فرما دی ۔
وہاں موجود صحابہ کرام نے تقلید کی ۔ اللہ کے نبی نے فوراً بشر کی طرف پیغام روانہ کیا کہ کھانے میں زہر ہے اسے فوراً تلف کردیں اور دوسرے دو صحابہ کو ضینا ب بنت ہارث کے ہاں روانہ کر دیا ۔ اس تاکید کے ساتھ کہ راستے میں یہودن فرار نہ ہونے پائے اور نہ ہی یہ جاننے پائے کہ اللہ کے نبی ؐ حیات ہیں۔
وہاں موجود صحابہ کرام نے تقلید کی ۔ اللہ کے نبی نے فوراً بشر کی طرف پیغام روانہ کیا کہ کھانے میں زہر ہے اسے فوراً تلف کردیں اور دوسرے دو صحابہ کو ضینا ب بنت ہارث کے ہاں روانہ کر دیا ۔ اس تاکید کے ساتھ کہ راستے میں یہودن فرار نہ ہونے پائے اور نہ ہی یہ جاننے پائے کہ اللہ کے نبی ؐ حیات ہیں۔
’’ کیا ہؤاہے ؟ کیوں بلایا جا رہا ہے ‘‘۔ وہ بظاہر پریشانی کا اظہار کر رہی تھی مگر دل بلیوں اچھل رہا تھا ۔ وہ بار بارپوچھ رہی تھی لیکن وہ تو جیسے گونگے کا گڑ کھا بیٹھے تھے ۔ اُن کی خاموشی اُسے تائو دلا رہی تھی کچھ فکر مند بھی تھی ۔ اگر یہ نبی سچا ہؤا تو۔
جب وہ بارگاہ رسالت میں پہنچی تو وہاں کئی صحابہ موجود تھے لیکن مدینے والا نبی نظر نہیں آ رہا تھا ۔ اگر وہ یہاں نہیں ہیں توکہاں ہیں ۔ وہ گم صم اللہ کے نبی کو دیکھے گئی جب وہ تشریف فرما ہوئے۔
’’ضیناب بنت ہارث! تم نے کھانے میں زہر ملایا تھا ؟ بار عب لہجے میں سوال ہؤا۔
’’ جج… جی‘‘ اس نے بے خوفی سے کہا ۔
’’ کیوں؟‘‘
’’ جی میں نے سوچا کہ اگر آپؐ سچے نبی ہوئے تو زندہ بچ جائیں گے اور اگر جھوٹے نبی ہوئے تو ہماری جان آپ سے چھوٹ جائے گی ‘‘۔ اس نے یہودیوں کے ارادوں کوشوگر کوٹڈ کیا۔
’’ اچھا تو اب کیا خیال ہے ؟‘‘ وہ دل نشینی سے مسکرائے ۔
’’ اب ‘‘ وہ سوچنے لگی۔ وہ کیسے کہے کہ اگر آپ ہماری نسل سے آئے ہوتے تو ماننے میں کوئی حرج نہیں تھا ۔ یہودیوں کے غرور کو توڑا گیا ہے اسی لیے وہ کبھی بھی آپ کی بات نہیں مانیں گے ، نہ ایمان لائیں گے میں بھی اپنی قوم کا ساتھ دوں گی۔
’’ میں سچا نبی ہوں ۔ مجھ پر قرآن مجید اترا ہے ۔ تم مجھ میں وہ تمام نشانیاں دیکھ رہی ہو جو میرے بھائی حضرت عیسیٰ ابن مریم نے بتائی تھیں ۔ دیکھ لو تمہارے زہر دینے کے باوجود میں زندہ ہوں ۔ جائو ضیناب میں نے تمہیں معاف کر دیا ۔ میں اپنی ذات کے لیے انتقام لینا پسند نہیں کرتا۔خدا تم پر رحم کرے۔ جائو چلی جائو ‘‘۔
ضیناب اب پتھرائی ہوئی آنکھوں سے عفو ودرگزر کے اس مجسمہ کامل کو دیکھ رہی تھی ،دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ جن کو قتل کرنے کی سازش کی گئی ہو ، وہ سینکڑوں خون بلی لے کر بھی مطمئن نہ ہوتے تھے ۔ اپنے مجرموں کو سخت سے سخت سزائیں دینے کے لیے نئے سے نئے طریقے ڈھونڈتے تھے اور پھر بھی ان کی آتشِ انتقام بجھتی ہی نہ تھی۔ یہ اس کے سامنے کیسا بادشاہ تھا ۔ اتنی فیاضی، ایسا حسن سلوک، ایسی معافی انسانیت کی مکمل معراج اس کے سامنے تھی ۔ تاریخ عالم میں کہیں کوئی ایسی مثال نہ ملے گی ۔ شاید اب تک نہ ملے گی ۔ یہود ن کی گردن میں غرور نفس کا سریہ ٹُھک گیا۔
’’ہنہ… یہ سب نفسیاتی حربے ہیں … میں یہودن ہوں ، مجھے کوئی بھٹکا نہیں سکتا ‘‘۔وہ پلٹ گئی۔
بار گاہ رسالت کی ایسی کھلی کھلی نشانیاں دیکھنے کے باوجود کوئی راہِ کفر پر ہی کھڑا رہے تو اس کی عاقبت خراب ہونے میں کس کو شبہ ہو سکتا ہے۔ ہدایت بے شک اللہ کی طرف سے ملتی ہے اور جو منہ موڑ کر کھڑا ہو جائے ، اسے ہدایت کی توفیق نہیں ملتی ۔ یہ اللہ کا پختہ اصول ہے ۔
اللہ کے نبیؐ کے چہرہ مبارک پر طنزیہ تبسم پھیلا مگر اس کی سر کشی نے دل رنجور کر دیا ۔
’’ یا رسول اللہ !‘‘ غضب ہو گیا۔ ہمارے ساتھی بشر بن براءؓ انتقال کر گئے ‘‘۔ اس افسوس ناک خبر نے ماحول مزید بوجھل کر دیا ۔
’’ کیسے ؟‘‘ کسی نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا ’’ انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ کی صدائیں آ رہی تھیں جو سنتا ، وہ اظہار افسوس کرتا ۔
’’ کیا بتاتے ہیں گھر والے ‘‘
’’ جی وہ کوئی ہدیہ آیا تھا یہودیوں کی طرف سے ۔گھر والے کھا چکے تھے انہوں نے پہلا نوالہ لیا اور پھر دل پکڑ کر بیٹھتے چلے گئے ۔ جب تک طبیب آیا تب تک ان کے منہ سے سفید سفید سا جھاگ نکل رہا تھا ۔ بشر بار بار اللہ کے رسول ؐ کانام لے رہے تھے اللہ کے نبی کو تو کچھ نہیں ہوگیا‘‘۔خبر دینے والے دُکھ ، اذیت اور بے چینی سے کانپ رہے تھے۔
’’ کیا آپ تک پیغام نہیں پہنچا؟‘‘
’’ جی … جی پہنچا تھا لیکن وہ اس وقت نزع کے عالم میں تھے‘‘۔
’’ اُف‘‘ ماحول افسردہ تھا ۔ ایک اور عظیم ساتھی کی شہادت … ایک اور قیمتی جان یہودیوں کی سازش کی بھینٹ چڑھ گئی۔ یہودن کی طلبی ہوئی تو سب لوگ خاموشی سے اگلی کارروائی کے لیے منتظر تھے مگر یہ خاموشی غضب کے شُوکتے طوفان لیے ہوئے تھی ۔ سب کی نگاہوں میں خون اُترا ہؤا تھا لیکن نگاہیں بارگاہِ رسالت پر جمی تھیں کہ اللہ کے قانون کا تقاضا کب اور کیسے پورا ہوتا ہے ۔ یہودن جی جان سے لرز گئی ۔ اسے مارا پیٹا جاتا ، اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تو وہ ان کی بے بسی پر قہقہے لگاتی لیکن یہ کیسی وقار ، تمکنت اور غضب سے بھری خاموشی تھی جو یہودن کو اندر تک سہما رہی تھی۔
اس عورت نے اپنی پوری قوم کی ہلا شیری پر ایک ریاست کے والی کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی ایک جرم اقدام قتل تھا اور دوسرا قتل تھا ۔ قصاص کی دیت ان لوگوں سے لی جاتی تو سود خوروں کے لیے یہ کوئی مسئلہ ہی نہ تھا ۔ اس سے یہودی قوم کی سر کشی میں اضافہ ہونا تھا ۔ یہ وہ قوم تھی جو اپنے پاس مذہبی صحیفے رکھتی تھی لیکن عمل نہ ہونے کی وجہ سے دنیا کی برائیوں میں اتنی ہی لتھڑی ہوئی ہوتی تھی جتنے عام عوام ۔ توریت میں بھی قتل کی سزا قتل ہی تھی۔
’’ تم نے کھانے میں کیا ملایا تھا ‘‘۔
’’ز… زہر ملایا تھا ‘‘ اس نے بڑی مشکل سے تھوک نگلا ۔
’’ کہاں سے لیا؟ ‘‘
’’ بس میں نے خود بنایا ہے ‘‘ وہ اُس نباتاتی طبیب کا نام نہیں بتانا چاہتی تھی ۔ ایک صحابی نے اُٹھ کر اس نباتاتی جڑی بوٹی کا نام لیا ۔
’’ تم نے زہر دے کر ہمارے بھائی کو مار دیا ۔ تمہیں بھی اسی طرح مارا جائے گا ۔ یہی قصاص ہے ۔ تم نے جس کرب سے ہمارے بھائی کو گزارا اسی کرب سے گزرنے کے لیے تیار ہو جائو ۔ یہی کھانا تم کو بھی کھانا پڑے گا ‘‘۔
یہودن نے بڑی جرأت کے ساتھ آگے ہاتھ بڑھایا مگر زہر کا خیال آتے ہی اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا ۔ شایدسلام آتا ہی ہو، شاید کوئی وفد آجائے ۔ اپنی قوم کے لیے وہ یہاں تھی اور وہ خود کہاں تھے۔
’’ جلدی کرو۔ تم سے نوالہ کیوں نہیں ٹوٹ رہا ؟ کھانا کھائو ناں نہیں تو اسی کمان سے تمہارا سر پھاڑ دوں گا ‘‘۔ شہید کا منجھلا بھائی چیخا ۔
اُ س نے جیسے ڈر کر نوالہ توڑا لیکن اُسے منہ میں رکھنا کارے دارد تھا ۔
’’ کھائو ناں … تم نے اس کا انجام کیوں نہیں سوچا‘‘
’’ انجام سوچا تھا میں نے …اپنا نہیں … تمہارا ‘‘ اس نے نفرت سے کہا۔
’’ ابھی تم اپنے انجام کو پہنچنے والی ہو‘‘۔
’’ تم یہ مت سمجھنا کہ یہ یہودیوں کی آخری سازش ہے ۔ یہودی تا قیامت تمہیں اسی طرح زک پہنچاتے رہیں گے اور اسلام کا نام و نشان مٹا دیں گے ‘‘۔
’’ اور خود اپنی موت سے دو چار ہوتے رہیں گے ۔ میری اُمت کے قابل قدر لوگ اللہ کے دین کوبچانے کے لیے اپنی جان کے نذرانے پیش کرتے رہیں گے ۔اسلام تا قیامت رہے گا ۔ البتہ تم لوگ اسے مٹاتے مٹاتے تھک جائو گے۔ یہ چراغ الٰہی ہے جو کبھی بھی نہیں بجھے گا ، سمجھیں ‘‘۔
’’ یا یہود تیرے لیے ‘‘ اس نے جوش جذبات میں بھر کر لقمہ منہ میں رکھ لیا ۔تیز زہر نے فوراً اس کے دل کی حرکت روک دی ۔ رگیں کٹ گئیں جب یہودن نے دم دیا تب انصاری صحابی کا جنازہ اٹھایا گیا۔
’’اس یہودن نے مجھے زہر دیا ۔ خدا گواہ ہے کہ میں نے اپنی ذات کے لیے انتقام لینا پسند نہیں کیا لیکن یہ معاملہ ایک انسانی جان کا تھا اللہ کا قانون قصاص کا مطالبہ کرتا ہے ۔ میں کسی قاتل کو معاف کرتا تو یہ قدم معاشرے کے لیے آئندہ فسادات کا مظہر بن جاتا لے جائو اس کی ناپاک لاش اور یہودیوں کے علاقے میں پھینک آئو اللہ کی لعنت ہو یہود پر جنہوں نے قانون الٰہی کو اپنی خواہشات نفس کے لیے بدل دیا آگاہ ہو جائو کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔انسانیت کو ایسے حیوانوں سے بچانے کے لیے جان کا بدلہ جان ہے جو معاشرہ قاتل کو معاف کرے گا وہ بہت جلد تباہی و بربادی سے دو چار ہوگا ‘‘۔
حکم کی تعمیل کی گئی ۔
ولکم فی القصاص حیوۃ یآولی الالباب
یہودن کے بعد یہودی وفد ملنے آیا تو اس نے پہلے تو لا علمی کا اظہار کیا پھر کہا۔
’’ اگر آپ جھوٹے نبی ہیں تو ہماری آپ سے جان چھوٹ جائے گی اور آپ سچے نبی ہیں تو آپ کو کچھ نہیں ہوگا ‘‘۔ اللہ کی اتنی بڑی نشانی دیکھنے کے بعد بھی وہ اسلام کی راہ راست پر نہ آئے ۔
حوالہ جات:
(۱) محسن انسانیت ، از نعیم صدیقی، الفیصل ، اردو بازار لاہور ، ص:310-309
(۲) الرحیق المختوم ، از مولانا صفی الرحمن مبارک پوری ،ص:115۔
نوٹ: میں نے یہودن کے نام زینب بنت حارث کا املا بدل دیا ہے تاکہ کوئی اس کے نام کے ساتھ( ؓ) نہ لگا دے۔
٭…٭…٭