پروفیسر خواجہ مسعود۔راولپنڈی
ماہنامہ ’’چمن بتول‘‘ اپریل 2021ء کا شمارہ سامنے ہے۔ نیلے پانیوں، سفید برف، سبز و سیاہ درختوں اور افق پر تیرتے ہوئے اودھے اودھے بادلوں سے مزین ٹائٹل دل کو بھاتا ہے۔
مدیرہ صاحبہ نے کرونا کی تباہ کاریوں سے بجا طور پہ خبردار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے صدقے ہم سب کو اس وبا سے محفوظ رکھے اور عید کی پرمسرت گھڑیاں ہم سب کو نصیب ہوں (آمین)۔
بدنام زمانہ اور مسلمانوں کے قاتل مودی کی بنگلہ دیش یاترا پر آپ نے صحیح تبصرہ کیا ہے کہ اس ظالم کا یہ دورہ انتہائی ناخوشگوار رہا ہے۔
’’صیام اور قران‘‘ (ڈاکٹر میمونہ حمزہ)
رمضان کی برکتوں اور سعادتوں کے بارے میں ڈاکٹر صاحبہ نے ایک روح پرور مضمون تحریر کیا ہے۔ آپ نے یہ خوبصورت جملہ لکھا ہے۔ ’’قرآن اس دنیا کے لئے بہار ہے اور رمضان کا مہینہ موسم بہار اور یہ موسم بہار جس فصل کو نشوونما بخشتا ہے وہ تقویٰ کی فصل ہے۔‘‘
’’دعا عبادت ہے۔‘‘ (سید محمود حسن)
آپ نے اس مضمون میں وضاحت کی ہے کہ دعا بھی ایک عبادت ہے بلکہ عبادت کا مغز ہے۔ رسول پاکؐ کا فرمان نقل کیا ہے ’’تمہارا رب بڑا باحیا اور کرم والا ہے۔ جب بندہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہیں خالی لوٹانے میں اسے شرم آتی ہے۔‘‘
’’رمضان المبارک کیسے گزاریں۔‘‘ رمضان المبارک کے بارے میں محترمہ فریدہ خالد کا جامع مضمون بتاتا ہے کہ رمضان المبارک ہماری طرف اللہ کا خاص مہمان بن کے بہت سے فضائل لیے آتا ہے اس لئے اس کی تکریم ہم سب پر لازم ہے۔
عزیزہ انجم نے رمضان کی مناسبت سے بہت پیاری نظم کہی ہے۔
دعائے آخر شب ہے کہ ہم اس سے گزر جائیں
وہ ہے جنت کا دروازہ جسے ریان کہتے ہیں
حبیب الرحمن صاحب کی غزل سے خوبصورت شعر:
گائوں کے کچے رستوں پر سب کو ہنستے گاتے پایا
شہروں کی پختہ سڑکوں پر ہر سو افراتفری دیکھی
اسامہ ضیاء بسمل کی غزل کا خوبصور مقطع
اترتے ہوئے جھیل آنکھوں کے اندر
ہمیں اک سمندر دکھائی دیا ہے
حرا شفیق کی غزل کا ایک خوبصورت شعر جس میں پاکیزگی جھلکتی ہے۔
نگاہوں کو جھکا رہنے دوں عصمت کا تقاضا ہے
کہ ان کا کام تو ہر دن نئے سپنے سجانا ہے
’’گھروں کی جنت پکارتی ہے ۔‘‘ (اسماء صدیقہ)
مشرقی عورت کی عظمت پہ لکھی گئی ایک خوبصورت نظم:
بنا تمہارے اکیلی وہ کیسے چل سکے گی
مکاں کو کیسے وہ جنتوں میں بدل سکے گی
’’دولے شاہ کے چوہے‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ کو اچھی بات کہنے اور سمجھانے کا سلیقہ خوب آتا ہے۔ یہ مختصر افسانہ کیا ہے آج کی نوبیاہتا لڑکیوں کے لیے مشعل راہ ہے کہ سسرال میں کیسے نباہ کرنا ہے، عزت کے ساتھ رہتا ہے، دل جیتنا ہے۔
’’قبول ہے‘‘ (ڈاکٹر میمونہ حمزہ) کی یہ خوبصورت کہانی سمجھا رہی ہے کہ سادگی سے کی گئی شادی میں بڑی برکت ہوتی ہے۔ کہانی کے آخری خوبصورت جملے سے یہ گمان گزرتا ہے کہ یہ شاید ڈاکٹر صاحبہ کی اپنی کہانی ہے۔ ’’یہ تھی چھتیس برس پرانی ’’قبول ہے‘‘ کہانی جو اب بھی یادوں کی
چلمن پر لہراتی ہے تو چہرے پر سات رنگ بکھیر دیتی ہے۔‘‘
’’بزرگی‘‘ (طہورہ شعیب)یہ ہمارے اکثر گھروں کی تلخ کہانی ہے کہ بعض ساسیں، بہوئوں کے حق میں نہایت سخت گیر رویہ اختیار کرتی ہیں۔ کاش ساس سوچے کہ اس کی اپنی بیٹی بھی کسی کی بہو بنے گی۔
’’ساحر آنکھیں‘‘ (سید مہتاب شاہ، ترجمہ فرحت زبیر)
دلوں پہ گہرا تاثر چھوڑتی ہوئی ایک کہانی ہے۔ خوبصورت آنکھیں جو کسی کو بھاگئیں لیکن وہ دیکھ نہ سکتی تھیں۔
’’جنگی قیدی کی آپ بیتی‘‘ (سید ابوالحسن)
آپ کا مولانا مودودیؒ سے ملاقات کا دلچسپ احوال، اور یہ ذکر کہ مولانا کس طرح اپنے چاہنے والوں کا خیال رکھے تھے۔ فوراً ان کے لیے گرم کپڑے اور کمبل بھجوائے۔
ایک عزم و حوصلہ کی داستان، ایک مسلسل جدوجہد کی کہانی ہے۔
’’امیر بریانی، غریب بریانی‘‘ (سعدیٰ مقصود)بہت ہی دلچسپ مضمون، پڑھ کے مزہ آگیا۔ ایک شاہ خرچ مگر مخلص ملازم اور مہربان مالکہ کے نہایت ہی دلچسپ حالات۔ واقعی ایماندار ملازم مل جانا خوش قسمتی ہے۔
’’عورت بیچاری‘‘ فرحت طاہر صاحبہ نے ایک مغربی مصنفہ کے خیالات پر تبصرہ کیا ہے جو کہتی ہے کہ عورت کو لکھنے اور تخلیقی کاموں کے لیے کم وقت ملتا ہے اور وہ گھر کے کاموں میں الجھی رہتی ہے۔اسلامی معاشرہ تو عورتوں کو مساوی حقوق دیتا ہے اور فالتو وقت میںوہ تعمیری اور تخلیقی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔
’’بھول بجھولوں والے بوڑھے‘‘ (فریحہ مبارک)
یہ واقعی آج کے دور کی ٹریجیڈی ہے کہ بوڑھوں، بزرگوں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو آج سے دو یا تین نسلیں پہلے دی جاتی تھی۔ آج کل کے نوجوان اپنی دلچسپیوں میں کھوئے رہتے ہیں اور اپنے گھروں میں موجود دانش کے اس خزانے کی قدر نہیں کرتے۔
’’صحرا نورد‘‘ (نیر کاشف) صحرائے تھر کی سیر کا شاندار احوال۔ پڑھ کے خوشی ہوئی کہ الخدمت والوں نے صحرائے تھر میں بھی ایک بہترین ہسپتال بنا رکھا ہے جہاں غریب مریضوں کو ہر قسم کی سہولت میسر ہے۔ایک جین مت مندر اور ماروی کنویں کا بھی تفصیلی دلچسپ ذکر کیا ہے۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’دانیال میرے کندھے پر سر ٹکائے سوچکا تھا۔ صحرا کے سفر نے میری مامتا کی پیاس ایسے بھی بجھائی تھی۔ بچوں کے قریب ہونا، انہیں جذباتی طور پر ساتھ ہوتے اور پیار کا احساس دلانے کا مفید ذریعہ سفر ہے۔‘‘ یہ دلچسپ سفر ابھی جاری ہے۔
’’سرخ مالٹوں کی سرزمین‘‘ یہ مضمون میرا اپنا تحریر کردہ ہے۔ اس لیے آگے بڑھتے ہیں۔
’’سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ‘‘ (ڈاکٹر فائقہ اویس)
اب کے ڈاکٹر صاحبہ نے سعودی عرب کے مشہور اور مقبول ریستوران ’’البیک‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ واقعی ایسا ہی ہے ہم بھی اس ریستوران پر ایک دفعہ گئے تھے۔ بہت انتظار کے بعد مشکل سے ہمیں بیٹھنے کی جگہ ملی تھی۔ کرونا کی وجہ سے پاکستان آنے کے سفر کا احوال بھی دلچسپ لکھا ہے۔
’’گوشۂ تسنیم ’’فیصلہ انسان کا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر بشریٰ تسنیم)
انسان کی پیدائش کے مراحل کو نہایت باریکی کے ساتھ ڈاکٹر صاحبہ نے سمجھایاہے۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’گویا کہ مٹی سے (پیدائش سے) مٹی تک (موت) کے سفر کے درمیان جو وقت ہے وہ ایک مہلت ہے اور یہی مہلت اس لامتناہی جہاں کی ابدی زندگی کا راز ہے۔ اب فیصلہ اولاد آدم کا ہے؟ جنت یا جہنم؟‘‘
عید آنے والی ہے اس لیے سب قارئین کی خدمت میں پیشگی عید مبارک۔ اللہ تعالیٰ سب کو کرونا سے محفوظ رکھے (آمین)
٭…٭…٭
خورشید بیگم۔گوجرہ
دیدہ زیب رنگوں سے مزین سرِ ورق کے ساتھ اپریل کا ماہنامہ بتول جلد موصول ہو گیا ۔ مطالعہ کرلیا لیکن طبیعت کی خرابی نے تبصرہ لکھنے سے روکے رکھا ۔ 14تاریخ کو لکھ رہی ہوں اللہ کرے بر وقت پہنچ جائے۔
اداریہ حسب معمول مہینہ بھر کی معلومات کے ساتھ مدیرہ محترمہ
کی بصیرت کا عکاس ہے ۔( انوار ربانی) ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کی تحریر صیام اور قرآن کے باہمی تعلق کی بڑی اچھی وضاحت ہے قولِ نبیؐ’’ دعا عبادت ہے ‘‘ دعا کا سلیقہ سکھا رہا ہے کتنا مہر بان ہے ہم پر ہمارا پیار ارب کہ ہم اس کے آگے اپنی حاجات بیان کرتے ہیں اوروہ ہمارے اس عمل کو عبادت کا درجہ دے دیتا ہے ۔’’ رمضان المبارک کیسے گزاریں‘‘ فریدہ خالد صاحبہ کاجامع مضمون بابرکت مہینے میں ہمارے لیے مکمل رہنمائی کا ذریعہ رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجرِ عظیم عطا فرمائے (آمین)۔
’’دولے شاہ کے چوہے‘‘ کیسا انوکھا عنوان دیاہے قانتہ رابعہ نے اپنے افسانے کو ! لگتا ہے اللہ کی اس انوکھی مخلوق کا انہوں نے بغور مشاہدہ کیا ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ نصیحت کے طلب گار کے لیے چھوٹی سے چھوٹی چیز سبق آموز بن جاتی ہے ۔
’’ قبول ہے ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کی یہ کہانی واقعی چھتیس سال پرانی ہے ۔آج کے دور میں ایسی شادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔حد تو یہ ہے کہ کرونا وائرس کا شدید خطرہ بھی پاکستانی قوم کو شادی کی تین دن کی تقریبات سے نہیں روک سکا۔
’’ بزرگی‘‘ افسانہ ہمارے ہاں اس مشکل صورتحال کا عکاس ہے کہ بزرگ اپنے ہی خول میں بند رہتے ہیں ، اپنے چاہنے والوں کی بھی بات نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں ۔ اچھا ہے اپنی جوانی کے زمانے کو یاد کرلیںکہ کیا اس وقت ان کو اپنے بزرگوں کے ایسے رویّے ناگوار نہیں گزرتے تھے ؟ یہی بات ہے نا کہ جب میں بہو تھی میری ساس اچھی نہیں تھی، اب میں ساس ہوں تو میری بہو اچھی نہیں۔
جنگی قیدی کی آپ بیتی ایک اچھا سلسلہ ہے ۔ باہمت لوگوں کی سوانح حیات کا مطالعہ لوگوں کو با حوصلہ بناتا ہے مولانا مودودیؒ کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کا تذکرہ دلچسپ ہے ۔’’ امیر بریانی، غریب بریانی‘‘ سعدیٰ مقصود کی کہانی اپنے اندر ایک اہم سبق رکھتی ہے ۔ اللہ کریم کی قدرت دیکھیے کہ جس یتیم بچے کی پرورش و کفالت سے چچا نے ہاتھ اٹھا لیا وہ ایسی جگہ پہنچا کہ بے شمار بیش قیمت نعمتوں سے ساری زندگی فیض یاب ہو تا رہا۔
’’عورت بیچاری‘‘ فرحت طاہر صاحبہ کے اس مضمون پر میں انشاء اللہ تفصیلی تبصرہ پھر کسی وقت کروں گی ’’ صحرا نورد‘‘ نیّر کاشف صاحبہ کا شکریہ ہمیں صحرائے تھر کی سیر کروا رہی ہیں ۔ خوبصورت سبزہ زاروں کی سیر تو بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن یہ منفرد سیاحت ہے ۔
’’ سرخ مالٹوں کی سر زمین ‘‘ پروفیسر خواجہ مسعود صاحب نے اب کی بار بڑی خوب صورت سر زمین کی سیر کروائی ہے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے شمار رنگا رنگ نعمتوں سے نوازا ہے ۔
گوشہ ِتسنیم میں ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ نے انتہائی اہم موضوع پر اپنے انوکھے انداز میں بحث کی ہے ۔ حقیقت ہے کہ ماں کا پیٹ اور زمین کا پیٹ باہم بڑی مماثلت رکھتے ہیں لیکن ماں کے پیٹ میں قیام کی مدت معلوم ہے ، زمین کے پیٹ میں قیام کی مدت سے انسان واقف نہیں اسی لیے تو کہا جاتاہے :
جاگنا ہے ، جاگ لے افلاک کے سائے تلے
حشر تک سوتارہے گا خاک کے سائے تلے
٭…٭…٭