قارئین کرام!
ملک میں کرونا کی صورتحال تشویش ناک حد تک بگڑ گئی ہے۔روزانہ اموات کی تعداد ہر روز پچھلے دن سے بڑھ کر نیا ریکارڈ قائم کردیتی ہے۔ پابندیوں سے حالات کچھ بہتر بھی ہو گئے تو عید کے دنوں میں دوبارہ خرابی کا امکان رہے گا۔ آبادی کو دیکھتے ہوئے ویکسی نیشن کا عمل بہت سست رفتار ہے۔ ایسے میں احتیاط کے سوا کوئی چارہ نہیں۔کم از کم اتنا ہؤا ہے کہ ہمارے لوگوں میں کرونا کے وجود سے انکار کرنے کے رویے میںخاصی کمی آئی ہے، لہٰذااصولوں پر عمل درآمد کروانے کے لیے ہلکی پھلکی سختی بہتر نتائج دے سکتی ہے۔ مقامی ویکسین کی تیاری کی خبر بھی ہے جس سے یقیناًحالات بہت بہتر ہوں گے۔
رمضان المبارک کا چاند اس حال میں طلوع ہؤاکہ ملک گیر ہنگاموں اور احتجاج نے راستے بند کررکھے تھے۔ روزوں سے قبل مسافرت اختیار کرنے والے پھنس کررہ گئے۔ توڑ پھوڑ، ڈنڈے بردار ٹولیوں کی گردش، جلاؤ گھیراؤ، تشدد، اغوا، زبردستی، اس مبارک ماہ کے آغاز پر تحریک لبیک کا یہ رویہ ہرگزدرست نہیں کہا جا سکتا۔نبی اکرم ﷺ سے محبت ہم سب کے ایمان کا حصہ ہے اور ان کے ناموس کا مسئلہ ہم سب کا مسئلہ۔اس حساس مسئلے پرنہ تو قوم کو تقسیم کرنا عقل مندی ہے اور نہ فرانس کی گستاخی پر اپنے ہی شہریوں کو تکلیف دینا کوئی سمجھ میں آنے والا رویہ ہے۔مانا کہ مطالبات منوانے کے لیے احتجاجی سیاست اور حکومت کا ناک میں دم کرنا ہماراوہ نام نہاد جمہوری کلچر ہے جس کوخود اقتدارمیں رہنے والی جماعتوں نے بطور اپوزیشن اپنے اپنے وقت میںخوب رواج دیا ہے۔ مگر جب معاملہ دین کا ہو، خاص طور پہ رسول اکرمؓ کی ذات اقدس کا، تو بے اختیار یہ موازنہ اور حوالہ ذہنوں میں آتا ہے کہ کیا ایسے غیر مہذب اور جہالت پر مبنی رویوں کی کوئی نسبت انؐ کی ذات پاک سے ہو سکتی ہے اور کیا انؐ کا نام لے کر اس رویے کا اظہار کرنا بذات خود شانِ رسالت کے خلاف نہیں ہے؟
دوسری طرف حکومت کا رویہ بھی کچھ بہتر نہ تھا۔ طاقت کا غلط استعمال اپنے ہی شہریوں کے خلاف آمرانہ اور جابرانہ رویے کا مظہر ہے۔ ملک کے اندراحتجاجی عناصرسے معاملہ کرنے اور ان کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی قسم کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں، مذاکرات کیے جاتے ہیں۔ ریاست کو مظاہرین کی سطح پر آکر انتقامی رویہ اپنانا زیب نہیں دیتا۔ طاقت کا نشہ بری چیز ہے اور اس کے برے نتائج نکلتے ہیں۔ ماضی میںجنرل مشرف کے ہاتھوں جامعہ حفصہ اور شہباز شریف کے ہاتھوں سانحہ ماڈل ٹاؤن ان کے بڑے جرائم گنے جاتے ہیں ۔پھر یہ بھی طاقت کا نشہ ہی ہے کہ ایک سیاسی قوت پر حکومت کے خلاف ہنگامہ آرائی کرنے کی پاداش میں دہشت گردی کا الزام لگا کر پابندی لگا دی گئی جس نے حالیہ قومی انتخابات میں جمہوری عمل کا حصہ بنتے ہوئے قابل ذکر ووٹ لیے۔
ناموسِ رسالت کے ضمن میں ہمارے وزیراعظم جس طرح بین الاقوامی فورمز پر امت کے جذبات کی ترجمانی کرتے رہے ہیں، اس کے تناظر میں بھی حکومت کا حالیہ رویہ ناقابل فہم ہے۔اپنے عوام کے جذبات کے احترام میں کم از کم پارلیمنٹ میںتو فرانس کے خلاف قرارداد لائی جا سکتی تھی تاکہ بائیس کروڑ لوگوں کے جذبات کوزبان مل جاتی اور اس صورتحال کی نوبت نہ آتی۔افسوس کہ اس نازک معاملے میں ہماری حکومتوں نے ہمیشہ عوامی جذبات کو اہمیت دینے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
سیاسی قوتوں کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ حقیقی سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنائیں، استعمال ہونے سے بچیں ،اور مصنوعی طریقے اپنانے کی بجائے فطری اندازسے عوام میں اپنی جگہ بناتے ہوئے آگے بڑھیں ۔اپنا سوچا سمجھا پروگرام اور سیاسی ایجنڈا لے کر چلیںجو آئین کی بالادستی، عوام کے مسائل اور دنیا میں ہمارے باوقار مقام ک گہرے شعور کا آئنہ دار ہو۔پاکستان جیسے آئنی طور پر مسلم اور پچانوے فیصد مسلمان آبادی کے ملک میں دین سے وابستگی کے معاملات کو سیاست کاحصہ بنانے سے گریز کریں تاکہ قوم ان مسائل پر تقسیم نہ ہو۔
علما کے ایک وفد سے ملاقات کے نتیجے میںگورنر پنجاب نے سکولوں کے نصاب سے اسلام پر مبنی مضامین اور حمدو نعت نکالنے کے فیصلے کو کو منسوخ کردیا ہے۔یہ نوٹس جسے صہیب سڈ ل نامی شخص پر مبنی یک رکنی کمیشن نے تیار کیا، شعبہ انسانی حقوق اور اقلیت کی طرف سے شعبہ تعلیم کو بھیجا گیا تھا جس میں حکم دیا گیا کہ سکولوں کے نصاب میں شامل اسلامی موضوعات پر مبنی تحریریں بشمول حمدو نعت تمام مضامین سے خارج کردی جائیں کیونکہ یہ نصاب اقلیتی طالب علم بھی پڑھتے ہیںلہٰذا اس نوعیت کے مضامین صرف اسلامیات میں دیے جائیں۔
سرینہ ہوٹل کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے میں چار بے گناہ افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔ دھماکے میں وہاں ٹھہرے ہوئے چینی سفیر کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ بلوچستان میںایک بار پھر دہشت گردی کی کاروائیاں سر اٹھا رہی ہیں جن میں بھارت کی پشت پناہی سے چلنے والی علیحدگی کی تحریکیں ملوث ہیں۔ دہلی سے تعلق رکھنے والے مولانا وحید الدین خان کورونا کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے۔ مفسر قرآن اوراسلام پر دو سو سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔قدیم و جدید علوم پر گہری دسترس رکھتے تھے، دور حاضر کے مسائل کے تناظرمیں دین کی تفہیم و تعبیرمیں انہوں نے گرانقدر کام کیا۔ تشکیک و الحاد اور بے دینی میں مبتلا تعلیم یافتہ طبقے کودین کا فہم دینے میں ان کی تصانیف اور دروس کا بے مثال کردار ہے۔ خصوصاً ان کی راز حیات، کتابِ زندگی اور مذہب اور سائنس جیسی کتابیں بے حد معروف و مقبول ہیں۔ بھارت کے ہندو فاشسٹ معاشرے میں امن و سلامتی کے علمبردار تھے۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور بھارت کے مسلمانوں کو ان کا نعم البدل عطا کرے آمین۔
ہمارے وہ مہربان لکھنے والے اور عزیز پڑھنے والے جو کرونا سے گزرے یا گزررہے ہیں،یا ان کے اہل خانہ اس کا شکار ہیں، ان کے لیے خصوصی دعا ہے کہ رب تعالیٰ ان کو ہر قسم کی پیچیدگی سے محفوظ رکھے اورجلد مکمل صحت عطا کرے آمین۔عید الفطر کی مبارک باد اور خیرو عافیت کی دعا کے ساتھ اجازت اگلے ماہ تک بشرطِ زندگی ،ناصر کا ظمی کے چند اشعار سنتے جائیے۔
شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں
رات کتنی گزر گئی لیکن
اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں
یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں
جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں
ان اجالوں کی دھن میں پھرتا ہوں
چھب دکھاتے ہی جو گزر جائیں
رَین اندھیری ہے اور کنارا دور
چاند نکلے تو پار اتر جائیں
دعاگو، طالبہ دعا
صائمہ اسما