بڑی پرخار ہیں راہیں مگر دامن بچانا ہے
کہ میر کارواں ہوں میںمجھے رستہ بنانا ہے
نگاہوں کو جھکا رہنے دوں عصمت کا تقاضا ہے
کہ ان کا کام تو ہر دن نئے سپنے سجانا ہے
زمانے کی نگاہیں ہیں بہت بےباک اے ساتھی
سنبھل کر چل اگر خود کو نگاہوں سے بچانا ہے
کبھی لگتا ہے تنہا ہوں اور اک عالم اکٹھا ہے
کوئی اپنا ملے جس کو کہ حال غم سنانا ہے
جگر چھلنی ہے اپنوں نےچلایا تیر کچھ ایسے
ہمیں بھی ضد ہے ہونٹوں پر تبسم کو سجاناہے
غزل
قیامت کا منظر دکھائی دیا ہے
ہمیں ایسا اکثر دکھائی دیا ہے
وہ کہتے ہیں جس کو فقط دوستی ہے
کوئی اور چکر دکھائی دیا ہے
یہ چٹھی ترے نام کی ہوگی لازم
احاطے میں پتھر دکھائی دیا ہے
سمجھتے ہیں باہر کی اوقات کیا ہے
جنہیں من کے اندر دکھائی دیا ہے
بتایا گیا ہے فلک بے کراں ہے
اور انسان محور دکھائی دیا ہے
حقیقت بتائی ہے اتنا جھجکتے
بہانے کا عنصر دکھائی دیا ہے
اترتے ہوئے جھیل آنکھوں کے اندر
ہمیں اک سمندر دکھائی دیا ہے