نزہت وسیمروشنی کا سفر ...

روشنی کا سفر – نوردسمبر ۲۰۲۰

’’ڈیڈ! مجھے پانچ ڈالر چاہئیں ۔‘‘ سکپ گھر کے لان میں اپنے دوست محمد المصری کے ساتھ بیٹھا کاروبار سے متعلق ایک اہم مسئلہ پر گفتگو کر رہا تھا۔ عین اسی وقت اس کی دس سالہ بیٹی ماریا نے اس سے آ کر مطالبہ کیا۔
’’آپ اس ماہ کا جیب خرچ لے چکی ہیں۔“ اس نے نرمی سے جواب دیا:
’’ڈیڈ پلیز ! میں وہ خرچ کر چکی ہوں ، مجھے ایک خاص چیز خریدنے کے لیے صرف پانچ ڈالر درکار ہیں۔“ ماریا نے اصرار کیا۔
’’نہیں یہ اصول کے خلاف ہے ، ہم طے کر چکے ہیں کہ آپ کو جیب خرچ کے علاوہ مزید پیسے نہیں ملیں گے۔ آپ کو اپنے پیسے دھیان سے خرچ کرنا چاہئیں۔“ سکپ نے نرم مگر حتمی لہجے میں جواب دیا اور محمدکی طرف متوجہ ہوگیا:
’’ماریا سر جھکائے کھڑی تھی۔اچانک محمد اس کی طرف دیکھتے ہوے بولا: میں آپ کو پانچ ڈالر ادھار دے سکتا ہوں، شرط یہ ہے کہ آپ مجھے جیب خرچ ملتے ہی واپس کر دیں گی۔“
’’ٹھیک ہے ،میں ایسا ہی کروں گی۔“
محمدنے جیب سے پانچ ڈالر کا سکہ نکالا اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیا، خوشی سے ماریا کا چہرہ چمکنے لگا۔
سکپ نے حیرانی سے دیکھا لیکن پھرکچھ کہے بغیر بات چیت کی طرف متوجہ ہو گیا۔
ایک ہفتے بعد جب محمد لان میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا سکپ نے دیکھا ماریااسے پانچ ڈالر واپس کر رہی تھی۔ اس نے سوچا پانچ ڈالر بہت معمولی رقم ہے، محمد یہیں رہتا ہے اور اب ہمارا اچھا دوست بن چکا ہے، یقینا وہ کہے گا واپس کرنے کی ضرورت نہیں؛ لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا جب محمد نے پیسے لے کر جیب میں رکھ لیے اور مسکراتے ہوئے ماریاکا شکریہ ادا کیا۔ یہ بات سکپ کے لیے انتہائی عجیب تھی؛ بلکہ اس کے لیے تو محمد المصری کی ہر بات ، ہر عمل ہی عجیب تھا۔ اس نے محمدسے پوچھا؛
”تم نے پانچ ڈالر واپس کیوں لیے ؟“ اس کا جواب سن کروہ مزید حیران ہوا۔ اس نے کہا:” یہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، ہم اسی لیے اپنے بچوں کو قرض لینا اور ادا کرنا سکھاتے ہیں۔ “
امریکہ سے تعلق رکھنے والا سکپ پیدائشی عیسائی تھا۔ اس کے دوست اسے سکپ کے نام سے پکارتے تھے۔اس کا تعلق مڈویسٹ کے ایک کٹر مذہبی خاندان سے تھا۔ اس کے آبائو اجداد نے اس علاقے میں بے شمار چرچ اور مشنری سکول بنائے تھے۔ اپنی نوعمری میں ہی وہ ہیوسٹن ، ٹیکساس منتقل ہوگیا۔ وہ باقاعدگی سے چرچ جاتا اور عیسائیت کے مختلف فرقوں کی تعلیم حاصل کرتا۔ اسے عیسائیت سے محبت تھی اور وہ اپنے مذہب کے معاملے میں بہت حساس تھا۔ اس کے خیال میں اس دنیا میں صرف عیسائیت ہی امن و سلامتی کا مذہب ہے، اس لیے وہ ہر شخص کوعیسائی بنانا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے ہر جگہ عیسائیت کی تبلیغ کرتا تھا۔ دوسری چیز جس کا اسے بے انتہا شوق تھا وہ موسیقی تھی۔ عیسائیت میں موسیقی کی بہت اہمیت ہے اور عبادت کے وقت باقاعدہ موسیقی کے آلات استعمال کیے جاتے ہیں؛ چنانچہ اپنے اس شوق اور مہارت کی وجہ سے وہ چرچ میں میوزک منسٹر تھا۔
عیسائیت کے فروغ کے علاوہ وہ اپنے باپ کے ساتھ مل کر کئی قسم کے کاروبار بھی کرتا تھا جن میں ریڈیو ، ٹی وی کے لیے موسیقی کے پروگرام تیار کرنا ، نجی طور پر میوزیکل شو منعقد کرنا، آلاتِ موسیقی کی تربیت دینا، اور انہیں فروخت کرنا اہم کام تھے۔ وہ ہر سال لاکھوں ڈالر کماتے تھے، اس کے علاوہ جو بھی نیا کاروبار شروع ہوتا، دونوں باپ بیٹا اس میں رقم لگانے سے نہ گھبراتے۔ کاروبار کے سلسلے میں اسے ہر طرح کے لوگوں سے ملنا اور سامان خریدنا پڑتا تھا؛ لیکن وہ کبھی کسی مسلمان سے نہیں ملا تھا۔
ایک دن اس کے والد نے کہا انہیں مصر کے ایک شخص سے کاروبار میں شراکت کرنی چاہیے۔ اسے یہ تجویز بہت اچھی لگی۔ ایسا کرنے سے ان کا کاروبار عالمی سطح پر شناخت بنا سکتا تھا؛ لیکن جب اس کے باپ نے بتایاکہ محمد المصری ایک مسلمان نوجوان ہے،سکپ نے فورا جواب دیا؛
’’ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کروں گا۔ مسلمان قابلِ بھروسہ نہیں ، وہ دہشت گرد، ہائی جیکر اوراغوا کندہ ہوتے ہیں۔ خدا پر یقین نہیں رکھتے بلکہ صحرا میں موجود ایک سیاہ کمرے کی عبادت کرتے ہیں اور دن میں پانچ وقت زمین کو چومتے ہیں۔‘‘ اس کے لہجے میں حقارت تھی۔ وہ مسلمانوں کے بارے میں اتنا ہی جانتا تھا۔
اس کے باپ نے اصرار کرتے ہوئے کہا :
’’میں اس سے مل چکا ہوں وہ بہت عمدہ اور نفیس آدمی ہے، تم اس سے ایک بار مل لو! ‘‘
اسی وقت سکپ سکپ کو خیال آیاکہ کیوں نہ میں اسے اپنے مذہب کی دعوت دے کر اپنا ہم مذہب بنا لوں پھر کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔چنانچہ اس نے اپنے باپ سے کہا:
’’میں اس سے اپنے طریقے سے ملوں گا۔‘‘
المصری سے ملاقات کے لیے اس نے اتوار کے دن چرچ سے واپسی کا وقت مقرر کیا۔ اس نے عیسائی مبلغوں والا لمبا چوغہ پہنا، ہاتھ میں بائبل تھامی، گلے میں چمکدار صلیب لٹکائی اور سر پر پادریوں والی ٹوپی پہنی جس پر لکھا تھا( jesus is lord) اور انتہائی طمراق سے مکمل پادری کے روپ میں مسلمان نوجوان سے ملاقات کے لیے روانہ ہوا۔ اس کی بیوی اور دونوں بچیاں بھی مکمل مذہبی لباس میں ، اس کے ہمراہ تھیں۔گویا وہ ایک مسلمان کو متاثر کرنے کا پورا اہتمام کر کے چلا تھا ۔
جب وہ دفتر پہنچے تو اس کے باپ نے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’ان سے ملو یہ محمد المصری ہیں۔‘‘
اس کا خیال تھا کہ اس کا ملاقاتی عربی لباس میں ملبوس ہوگا، لمبی داڑھی ، بڑےبڑے گھنگھریالے بال، سر پر بڑا سا پگڑ باندھے، ماتھے پر بل ڈالے، کمر پر سیاہ نیام باندھے، یا کوٹ کے نیچے بم چھپائے، ذرا سا غصہ آنے پر جھٹ سے تلوار لہرانے لگے گا یا پھر بم نکال کر دھماکا کر دے گا ۔لیکن یہ دیکھ کروہ حیران رہ گیا کہ المصری سادہ لباس میں ملبوس ، ایک عام سا، سیدھا سادہ اور نفیس نوجوان تھا، نہ لمبی داڑھی ، نہ توپ، نہ عمامہ ، نہ تلوار اور تو اور اس کے تو سر پر بال بھی بہت کم تھے۔
محمد نہایت گرم جوشی سے مسکراتے ہوئے اٹھا اور سکپ سے ہاتھ ملایا۔ ابتدائی مختصر تعارف کے بعد اسکپ نے پوچھا:کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو؟ ‘‘
”ہاں “محمد نے جواب دیا۔
”کیا تم آدم اور حوا (علیھما السلام ) کو مانتے ہو؟ ”
” ہاں۔“
”اچھی بات ہے۔“ سکپ نے دل میں سوچا۔
”ابراھیم (علیہ السلام) کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، کیا تم انہیں مانتے ہو اور ان کا اپنے بیٹے کو الله کی راہ میں قربان کرنا تسلیم کرتے ہو؟ “
ہاں ! محمد نے اثبات میں سر ہلایا۔
”اچھا تو موسیٰ علیہ السلام ، ان کے دس احکام اور سرخ سمندر کا پانی روک دینے پر یقین رکھتے ہو؟ “
’’ہاں !‘‘
بہترین ، سکپ نے دل ہی دل میں کہا:
’’اور دوسرے پیغمبروں موسیٰ ، داود اور سلیمان (علیھم السلام ) کو بھی مانتے ہو؟ ‘‘
’’ہاں! محمد نے پھر سر ہلایا۔
اس کے خیال کے مطابق اب سب سے مشکل سوال کا وقت آ گیا تھا، اس نے کہا:’’ کیا تم بائبل کو مانتے ہو اور جیسس یعنی عیسٰی ( علیہ السلام ) کو بھی مانتے ہو کہ وہ الله کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔‘‘
’’ہاں ! ‘‘
’’اور یہ کہ ان کو سولی چڑھایا گیا تھا؟ ‘‘
’’ہاں ! ‘‘
’’اور کیا تم ان کے معجزاتی پرندوں کو بھی مانتے ہو؟ “
”ہاں ہاں ! میں مانتا ہوں۔ “
سکپ نے دل میں سوچا “ یہ تو اس سے کہیں زیادہ آسان ہے جتنا میں نے خیال کیا تھا، یہ عیسائیت قبول کرنے کے لیے بالکل تیار ہے کیونکہ یہ سب کچھ مانتا ہے۔ ‘‘
لیکن خود سکپ سکپ کے لیے یہ ایک دھماکہ دار خبر تھی کہ مسلمان بائبل کو بھی مانتے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اور اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) دوبارہ دنیا میں واپس آئیں گے۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ‘‘اس نے دل میں سوچا۔
اسے محمد المصری بہت اچھا لگا، اس کی طرف دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں خود سے شرط لگائی، وہ اس کو ضرور عیسائی بنائے گا۔
محمد نے مسکراتے ہوئے سکپ کو دیکھا اور کہا: ’’کیا اب ہم کاروبار کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ ‘‘
بالآخر کچھ شرائط طے کرنے کے بعد وہ دونوں کاروبار میں شراکت دار بن گئے۔ تقریبا ہر روز ان کی ملاقات ہونے لگی۔ یہاں تک کہ ان میں خوب دوستی ہوگئی۔ اکثر کاروباری دوروں میں بھی وہ اکٹھے ہوتے۔ دورانِ سفر وہ ایک دوسرے سے لوگوں کے مختلف عقائد کے متعلق گفتگو کرتے، خدا کے تصور پر بات کرتے ، انسانی تخلیق کا کیا مقصد ہے، زندگی سے کیا درکار ہے، پیغمبر دنیا میں کیوں آئے اور کیا پیغام لے کر آئے۔ وہ اپنے ذاتی تجربات و احساسات بھی ایک دوسرے کو بتاتے۔ سکپ اچھی طرح جان گیا کہ محمد نہایت نفیس ، کم گو اور کسی قدر شرمیلا نوجوان ہے۔ وہ دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ اسے ایک معصوم مسلمان کو عیسائی بنانے کا موقع مل رہا ہے۔
ایک دن اسے معلوم ہوا کہ محمد جہاں رہ رہا تھاوہاں اس سے کمرہ خالی کروا لیا گیا ہے اور اب وہ عارضی طور پر مسجد میں قیام پذیر ہے۔ سکپ نے اپنے باپ سے مشورہ کرکے محمد کو اپنے گھر رہنے کی دعوت دی لیکن محمد نے انکار کر دیا ۔سکپ نے سمجھا کہ شاید یہ مفت میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتا،اس لیے پندرہ ڈالر کرائے کا کہہ دیا اور ساتھ ہی کھانے کی سہولت بھی فراہم کردی۔ وہ محمد کو عیسائیت کی طرف مائل کرنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا ۔ سکپ کے لیےبے پناہ اصرار پر محمد نے یہ پیش کش قبول کرلی۔سکپ کا بڑا سا گھر شہر کے مضافات میں واقع تھا، جس کے پچھلے صحن میں ایک کمرہ محمد کو دے دیا گیا۔ رفتہ رفتہ وہ گھر والوں کے ساتھ گُھل مل گیا۔
سکپ محمد المصری پر خاص نظر رکھتا۔ اس کے ہر کام کو غور سے دیکھتا اور اس کی عادات کا مشاہدہ کرتا۔ محمد انتہائی کم گو تھا، ضرورت کے وقت نپی تلی بات کرتا ورنہ خاموش رہتا۔ لین دین کے معاملات میں بہت ایماندار اور اصول پسند تھا، خریدار کے ساتھ انتہائی تحمل سے بات کرتا، چیز کی خوبی اور خامی کھول کر بیان کرتا، ہر ایک سے نرمی اور مہربانی سے پیش آتا اور اپنے بہترین برتاؤ سے اگلے کا دل جیت لیتا تھا۔
ایک دن سکپ اپنے نئے سپر سٹور میں پہنچا جس میں محمد کی شراکت داری تھی تو اس نے دیکھا اس کے سامنے میز پر قیمتی دوائیوں کے بہت سے بنڈل پڑے تھے اور وہ ان کی انتہائی تاریخ دیکھ رہا تھا۔ ان دواؤں کے ایکسپائر ہونے میں پانچ دن رہ گئے تھے اس نے تمام دوائیں اٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دیں۔
کیوں ؟ تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ سکپ نے حیرت سے پوچھا: ’’اس طرح تو بہت نقصان ہو گا۔ “
’’ جب تک یہ دوائیں ہسپتال پہنچیں گی ان کی آخری تاریخ گزر چکی ہو گی۔ اس لیے یہ بے کار ہیں“۔محمد نے تحمل سے جواب دیا۔
ایسٹس نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا: ’’سو واٹ( پھر کیا!) ؟‘‘
” یہ دھوکا ہے میں ایسا نہیں کر سکتا۔ اسلام میں اس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ “
ایسٹس شرمندہ ہوگیا اور اس نے دل سے تسلیم کیاکہ واقعی یہ غلط ہے۔
ایسٹس کو محمد کی ایک اور عادت نے بہت متاثر کیا۔ پہلے دن سے جونہی نماز کا وقت ہوتا وہ ہر کام چھوڑ کر انتہائی مہذب انداز میں معاف کیجیے کہتا، وضو کرتا اور ایک طرف کپڑا بچھا کر نماز ادا کر لیتا۔ البتہ جمعہ کے دن دو گھنٹے کے لیے غائب ہوجاتا۔ نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد آکر دوبارہ کام کرنےلگتا۔
اتوار کی چھٹی گزار کر سکپ پیر کو سٹور پر موجود تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ کھانے کے وقفے کے دوران بھی محمد کام میں مصروف ہے۔ اس نے محمد سے کہا:
’’ آؤ لنچ کے لیے چلیں تو اس نے نرمی سے بتایا کہ آج وہ روزے سے ہے۔ ‘‘
تھوڑے عرصے میں ہی اسے معلوم ہوگیا کہ محمد المصری ہر پیر اور جمعرات کے دن روزے سے ہوتا ہے۔ ہفتے کے ان دو دنوں میں وہ کچھ کھاتا پیتا نہیں اور اگر کوئی اسے کھانے کی پیشکش کرے تو نرمی سے انکار کر دیتا ہے۔
سکپ ایسٹس اس کے معمولات کو نہایت دل چسپی سے دیکھتا، اکثر اس سے سوالات کرتا اور مختصر و مدلل جواب سن کر دل ہی دل میں اس سے متاثر ہوتااور سوچتا کہ یہ شخص کتنا نفیس ہے۔ اگر یہ شخص عیسائی ہوجائے تو سچ مچ ایک فرشتہ بن جائے۔
رفتہ رفتہ کاروباری گفتگو کے علاوہ سکپ اس سے مذہب کے متعلق بھی بات چیت کرنے لگا۔ کبھی بائبل سے کوئی بات پڑھ کر سنا دیتا، کبھی کوئی واقعہ سنانے لگتا۔ محمد المصری مسکراتے ہوئے سنتا رہتا، اس دوران اگر نماز کا وقت ہوجاتا تو اٹھ کر نماز ادا کر لیتا۔ اس کی ایک اور بات جو سکپ کو بہت عجیب لگتی کہ وہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر کچھ مانگتا اور اس کے آنسو بہنے لگتے ۔ سکپ حیرت کے عالم میں چپکے چپکے دیکھتا کہ آخر اسے کیا دکھ ہے جو دعا مانگتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہنے لگتا ہے۔
سکپ اس بات پر بھی حیران ہوتا رہتا کہ محمد المصری نے کبھی اسے اسلام کی دعوت نہیں دی، کبھی اس نے اپنے خدا یا اپنے نبی کے متعلق کُھل کر بات نہیں کی۔

(جاری ہے۔)

٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here