یہ تقریباًدسمبر2017ء کی بات ہے ، جب ہم لوگ کینٹ ایریا میں کسی تقریب میں شرکت کے لیے جا رہے تھے تو ہمارا گزر علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیر پورٹ کی پچھلی جانب سے ہوا۔وہ سارا علاقہ آرمی کا تھا۔ وہاں ہماری نظر ایک عمارت پر پڑی جس پر’’Army museum‘‘لکھا ہوا تھا، ساتھ میں بہت بڑا گرائونڈ تھا جس میں بہت سی چیزیں رکھی گئی تھیں مثلاً مختلف قسم کے ہیلی کاپٹرز، توپیں اور ٹینک وغیرہ ۔ جن پر چڑھ کر لوگ تصویریں بنوا رہے تھے ۔ یہ چیزیں باہر سے دیکھنے والوں کو اندر آکر میوزیم دیکھنے پر مجبور کررہی تھیں۔ پھر ہمارا بھی دل چاہا کہ ہم بھی آرمی میوزیم دیکھیں۔
اس دن سے ہماری دلی خواہش تھی کہ ہم بھی آرمی میوزیم ضرور دیکھیں ۔بلا ٓخر ہم 26جولائی 2018ء( جمعرات) کو بڑے جوش و خروش سے آرمی میوزیم گئے ۔ سب بہت خوش تھے ۔ جب ہم آرمی میوزیم کے گیٹ پر پہنچے تو گیٹ تو کھلا ہی ہوا تھا ۔ ادھر کوئی بھی نظر نہیں آ رہا تھا ہم بہت خوش ہوئے کہ آج رش نہیں ہے۔ جب ٹکٹ گھر کے قریب پہنچے تو ادھر ایک شخص اپنے بچوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ ٹکٹ گھر کے باہر آرمی میوزیم کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات لکھے ہوئے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہوا تھا آرمی میوزیم جمعرات اور جمعہ کو بند ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آرمی میوزیم کی ٹکٹس محدود ہوتی ہیں اس کے لیے جلدی آنا پڑتا ہے ۔ جب معلوم ہوا کہ آج تو میوزیم بند ہے ۔ پہلے تو سب افسردہ ہوئے اور جا کر گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ والد صاحب نے کہا کہ کوئی بات نہیں پھر کسی دن آجائیں گے اب کہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ یہ سن کر دل خوش ہو گیا۔
آخر کار ہم نے 31جولائی 2018ء( منگل) کو آرمی میوزیم کی سیر کی ۔جو کہ بہت یاد گار ہے ۔ٹکٹس لینے کے بعد ہم آرمی میوزیم کی عمارت کے داخلی راستے پرپہنچے جہاں پر بہت سخت چیکنگ کی جا رہی تھی ۔ اپنے ساتھ کوئی چیز لے کر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ پانی والی بوتل ، بیگ یا پین، پنسل کسی بھی قسم کی چیز اندر نہیں لے جا سکتے ۔ ہم توپہلے ہی خالی ہاتھ تھے ۔ اس لیے ہم تو آرام سے اندر چلے گئے ۔
خوب صورت عمارت میں داخل ہوتے ساتھ ہی سب سے پہلے ہماری نظر کچھ مجسموں پرپڑی ، قریب پہنچ کر دیکھا تووہ پاکستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف کے مجسمے بنائے گئے تھے اور ساتھ میں ان کے بارے میں معلومات درج تھیں۔ جن میں سے میں نے جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویزمشرف اورجنرل راحیل شریف کے بارے میںپڑھا۔اس کے بعد آگے چل پڑے ۔اب ایک بہت بڑا ہاتھی بنایا ہوا تھا جس کی سونڈ میں ایک آدمی تھا جو کہ لہو لہان تھا اورساتھ میں ہاتھی نے ایک آدمی کو اپنے پائوں کے نیچے دبایا ہوا تھا ۔ اس سے کچھ ہی فاصلے پر گھوڑوں کے مجسمے بنائے گئے تھے جن پر بیٹھے آدمی تیر چلا رہے تھے ۔ جب گھوڑوں اورہاتھیوں پرجنگ لڑی جاتی تھی تو کیا منظر ہوتا تھا یہ حیرت انگیز مجسمے وہ منظر پیش کررہے تھے۔
اس کے علاوہ کچھ ہالز بنائے گئے تھے ۔ جن میں سے سب سے پہلے ہم جس ہال میں گئے،وہاں ہماری نظر ایک بہت ہی خوب صورت لکڑی کے بنے ہوئے سٹیج پر پڑی جس پربہت ہی خوب صورت انداز میں فاطمہ جناح اور قائد اعظم کا مجسمہ بنا ہوا تھا ۔ ایک طرف فاطمہ جناح کرسی پربیٹھی تھیں اوردوسری طرف قائد اعظم کھڑے تقریر کر رہے تھے ۔ اس کے ساتھ چھوٹے سے بورڈ پر تقریر بھی لکھی ہوئی تھی ۔اسی ہال میں اور بھی بہت سی چیزیں تھیں جن میں پرانے شہروں کی تصویریں فریم کی گئی تھیں مثلاًموہنجو داڑو ، مہر گڑھ اور ہڑپہ وغیرہ۔اس کے علاوہ شیشے کے باکس میں پہلے زمانے کے ہتھوڑے ، پانسے اور وزن کے باٹ رکھے گئے تھے۔
اس کے بعد ہم اس کے ساتھ والے ہال میں گئے جہاں پر ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والوں کا منظربنایا گیا تھا ۔ یہ منظربہت حیران کن تھا۔ جسے دیکھ کریہ یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ کسی انسان کے ہاتھ کا بنایا ہوا ہے ۔ وہ بالکل اصل معلوم ہوتا تھا ۔ یہ منظر کچھ اس طرح تھا کہ ایک ٹرین بنائی گئی تھی جس کے اندر اوراوپر لوگ اپنے اپنے مختصر سامان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اورٹرین لاہور ریلوے سٹیشن پرپہنچی تھی۔ لوگ ٹرین سے اتر رہے تھے۔ لوگ ایک دوسرے کا سامان اتارنے میں مدد کر رہے تھے ۔ کچھ لوگ ٹرین سے باہرزمین پراپنے سامان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹرین کے باہر ایک شخص لہو لہان پڑا ہوا تھا ۔ اس کے قریب ہی ایک بورڈ پرلکھا ہوا تھا ’’ مہاجرین کی ریل گاڑی کا لاہور ریلوے سٹیشن پرپہنچنے کا منظر‘‘ جس میں بیان کیا گیا تھا کہ اگست 1947ء میں مسلم مہاجرین نے پاکستان ہجرت کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال کیا مثلاً بیل گاڑی، ریل گاڑی اورہوائی جہاز وغیرہ ۔مزید یہ بتایا گیا تھا کہ ہجرت کے وقت جب گاڑیاں ریلوے سٹیشن پر پہنچتیں تو زندہ لوگوں سے زیادہ لاشوں کی تعداد ہوتی اوران لاشوں کوریلوے سٹیشن کے سامنے اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا۔اس تحریراورمنظرنے دل میں پاکستان کی قدر پیدا کردی۔
اس کے بعد ہم war of1965والے ہال میں گئے ۔ جہاں پر 1965ء کی جنگ کے حوالے سے معلومات ملیں اور بہت فخر محسوس ہوا کہ 1965ء کی جنگ میں بھارتی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس ہال میں ایک جیپ کھڑی تھی جس میں پرلکھا تھا کہ 7اور8ستمبر کی درمیانی شب (رات) پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے حملے پر جوابی حملہ کیا اوریہ حملہ اتنی شدت سے کیا گیا کہ بھارت کے کچھ فوجی میدان چھوڑ کربھاگ گئے اورکچھ کوگرفتار کرلیا گیا اس دوران بھارت کی یہ ولیز جیپ (willy’s Jeep)قبضہ میں لی گئی اوردو بھارتی فوجیوں کو بھی جنگی قیدی بنا لیا گیا ۔ اس کے علاوہ اس ہال میں ایک چھوٹے سے کمرے کا ایک دروازہ تھا جس میں بالکل اندھیرا تھا ۔ہمیں ایک فوجی نے اس کمرے میں جانے کا کہا پہلے توہم بہت ڈرے اورسوچنے لگے کہ جائیں یا نہیں ۔ اتنی دیر میں اورمردو خواتین اس کمرے میں گئے ۔ ایک فوجی نے ہمیں دوبارہ اندر جانے کا کہا پھر ہم بھی ڈرتے ڈرتے اندرچلے ہی گئے۔ اندر بہت اندھیرا تھا ۔کچھ ہی دیر میں کمرے کا دروازہ بھی بند کردیا گیا اورایک دم سے ٹینک اورتوپیں چلنے کی آواز آنے لگی اور ساتھ ہی زمین بھی ہلنے لگی ہم بہت ڈر گئے ۔ لیکن یہ سب ایک سے دو منٹ کا تھا ۔ اس کے بعد کمرے کا دروازہ کھل گیا اورہم فوراًسے باہرنکلے ۔بعد میں معلوم ہوا کہ یہ آواز1965ء کی جنگ کے دوران ریکارڈ کی گئی تھی۔
اب ہم war of 1971 والے ہال میں گئے ۔جہاں پربھارت فضائیہ کے su-7طیارے کا پچھلا حصہ رکھا گیا تھا ۔در اصل بھارت کے su-7طیارے کوپاکستانی بٹالین نے 1971ء میں مارگرایا تھا۔
اس کے بعد ہم سیا چن والے ہال میں گئے جہاں پربہت خوبصورت انداز میں گلیشئر بنایا گیا تھا اسی ہال میں ان فوجی جوانوں کی تصویریں لگائی گئی تھیں جو برف کا تودا گرنے سے شہید ہوئے تھے ، یہ واقعہ 2012ء میں پیش آیا تھا جس میں بہت سے فوجی جوان تودے کی زد میں آکر شہید ہوئے تھے ، بہت سی لاشیں نکال لی گئی تھیں اورچند لاشوں کا ابھی تک کچھ پتا نہیں ۔
اس کے بعد ہم اگلے ہال میں گئے جس کے باہرلکھا تھا ’’ دہشتگروں کے حملے ‘‘ اس میں پاکستان میں ہونے والے دہشتگرد حملوں کے بارے میں بتایا گیا تھا ۔ جس میں مشہور حملہ ’’ سانحہ پشاور‘‘ سانحہ پشاورمیں شہیدہونے والے تمام بچوں کی تصاویر لگائی گئی تھیں ۔ ساتھ میں تھوڑا سا سکول کا منظر بھی کھینچا گیا تھا جس میں ایک کرسی اور بینچ پڑا تھا ۔ کرسی پر کوٹ پڑا ہوا تھا اور زمین پر بیگ ، کاپی، پنسل ، ربڑ ، شاپنر اور کچھ پیسے پڑے ہوئے تھے اور ایک طرف یونیفارم لٹکا ہوا تھا سفید قمیض پر خون لگا ہوا تھا ۔ یہ منظر دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ اسی طرح اوربھی بہت سے واقعات کے بارے میں تصاویروں کے ساتھ معلومات درج تھیں۔
اس ہال سے نکلنے کے بعد ہم ایک ایسے ہال میں گئے جہاں پر بہت ہی خوبصورت انداز میں نشان حیدر پانے والوں کے بارے میں لکھا ہوا تھا ۔یہ ہال بہت خوب صورت بنایا گیا تھا اس میں ان تمام شہداء کی تصاویر بھی لگی ہوئی تھیں جنھیں فوجی اعزاز ’’ نشان حیدر‘‘ ملا تھا۔
عمارت کے اندر بہت سکون تھا ۔ بالکل خاموشی تھی اورہر طرف فوجی جوان کھڑے تھے کسی بھی چیز کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں تھی ۔ تمام اشیاء کی تصویریں بنانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں تھی ۔ میوزیم کی ہر چیز چمک رہی تھی ۔گرد وغبار کا نام ونشان تک نہیں تھا ، عمارت کے اندر اے سی کی اتنی کولنگ تھی کہ سردی محسوس ہو رہی تھی۔
اس کے بعد ہم لوگ باہر آگئے جہاں پرمختلف قسم کے ٹینک، توپیں اورہیلی کاپٹرز رکھے گئے تھے ۔ یہ ہیں وہ اشیاء جنھیں دیکھ کرمیوزیم دیکھنے کی تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ ہم نے ایک دو ٹینکوں کے اوپرچڑھ کر تصاویر لیں ۔کیوں کہ ان کے اوپر چڑھنے کی اجازت تھی اس لیے ہم بھی چڑھ گئے۔
ہم نے کچھ ٹینکوں کے بارے میں بھی پڑھا تھا ، جس میں سے ایک ٹینک ’’ کوشاب‘‘ تھا جوکہ بھارتی فوج کا تھا اور اسے 1965ء کی جنگ میں پاکستانی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک ’’ بھارتی ٹی۔54ٹینک‘‘ جسے 3دسمبر 1971ء کومیجر شبیرشریف شہید ( نشان حیدر ) نے تباہ کیا تھا ، اس ٹینک کی مرمت کر کے اسے بھی میوزیم میں رکھا گیا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کا ’’ بوشائر‘‘ ٹینک رکھا گیا تھا ، جسے 1965ء کی جنگ میں پاکستانی فوج نے چونڈہ کے محاذ پر قبضے میں لیاتھا۔
اس کے علاوہ اوربھی بہت سے ٹینک اورہیلی کاپٹرز تھے، جنھیں ہم قریب جا کرنہیں دیکھ سکے کیونکہ دھوپ بہت تیز تھی، پسینہ بہت آ رہا تھا اوروقت بھی کافی ہوگیا تھا ۔ ہم نے کہا کہ اب اگلی دفعہ سردیوںمیں آئیں گے پھر ہر چیز کو قریب سے دیکھیں گے اور اس کے بارے میں پڑھیں گے ۔ اب ہم نے گھر جانا مناسب سمجھا ۔ یہ ایک بہت یاد گار دن ہے۔٭
٭…٭…٭