انسان طبعاً کمزور ہے (النسا ۸۲) اور سرشت میں عجلت پسند ہے (الانبیاء۷۳، اسراء ۱۱) اس لیے پائدار سکھ کے حصول کے لیے انتظار کی ختم ہوجانے والی اذیت برداشت کرنے کی بجائے عارضی دکھ اور ناکامیاں، پریشانیاں اولاد آدم کو زیادہ متاثر کرتی ہیں اور تا دیر یاد رہتی ہیں۔ انسان کے خمیر میں حاصل شے کی طرف سے عدم توجہی اور لا حاصل کا رونا موجود ہے۔ قرآنی زبان میں انسان کو تھڑ دلا یا کچے دل والا (ھلوعا) کہا گیا ہے(المعارج۹۱)۔ اسی لیے انسان کو تحمل، صبر و ضبط کے لیے کونسلنگ اور مضبوط سہارے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔
ہر انسان کو معاشرتی وسماجی زندگی میں انفرادی طور پر قدر و ناقدری کے احساسات سے لازما واسطہ پڑتا ہے۔ اپنوں کی طرف سے قدرناشناسی کے وقت جب جذباتی صدمے روح کو چھلنی کرتے ہیں تو دل جوئی کے لیے کوئی تو ہونا چاہیے جو صائب مشورہ دے کچھ تسلی اور دلاسہ دے کوئی مثالی کردار کا حوالہ دے کر مطمئن کردے۔ ان حالات میں کوئی ایسا سچا ہمدرد دوست ہو جو سمجھائے کہ ان حالات میں اپنی شخصیت کے وقار dignity کو مجروح کیے بغیر کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ اور دلائل سے قائل کرے کہ اسی شخصیت کی زندگی کو مثال بنانا ضروری ہے جس کو ہم اپنی پوری زندگی کے ہر پہلو سے کامل اسوہ حسنہ مانتے ہیں اور یہ ہی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو اسی سے مشروط کیا ہے (البقرہ )۔ ہم دنیا کے ہر موضوع پہ اور ہر رشتے اور ذمہ داری کے حوالے سے اسوہ حسنہ کے آئنے میں نکات تلاش کرتے ہیں۔کیا اپنی ذاتی زندگی کے انتہائی نجی معاملات کے دل شکن واقعات پہ ہم نے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لیے آئنہ بنایا ؟ کیا ہم نے کبھی غور کیاکہ جب پیارے نبی خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پہ انسان ہونے کے ناطے چوٹ لگتی تھی، دکھی ہوتے تھے تو ان کا طرز عمل کیا ہوتا تھا ؟ اور جب ہم دکھی ہوں تو اسی اسوہ رسول کی روشنی میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جب ہمیں تعلق داروں کی طرف سے بد گمانی، بد زبانی، الزام تراشی، حسد کی بنا پہ معاندانہ رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہم اپنے رنج کا اظہار یا معاملہ فہمی کرنا چاہتے ہیں تو لوگ اس پہ آمادہ ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے برے طرز عمل سے صاف مکر ہی جاتے ہیں اور اپنی چرب زبانی سے شکوہ کناں پہ ہی الزام دھرتے ہیں۔ اس دل شکستگی کے عالم میں کیا کبھی ہم نے سوچا کہ نبی برحق کو اللہ رب العٰلمین کی طرف دعوت دینے پہ جھوٹا، کاہن، جادوگر، رشتوں میں جدائیاں ڈالنے والا، کہہ کر زبان طعن دراز کی گئی، بدن پہ اونٹ کی اوجھڑی غلاظت سمیت حق پہ ہونے کی پاداش میں ڈالی گئی تو اس وقت ان کے مصفا و منزہ قلب مبارک کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی؟ اس اذیت پہ رد عمل کیا تھا؟
اپنوں نے جب قتل کے منصوبے بنائے، معاشرتی بائیکاٹ کیا، بستی سے نکال دیا، کیا ایسے دل شکن حالات میں کامل انسان نے اپنی ذات کے نجی دکھوں پہ کبھی واویلا کیا یا جرگے اور پنچائتیں بٹھائیں؟ جب اولاد نرینہ کی وفات پہ ہمدردی کی بجائے طعن و تشنیع، بد دعا دی گئی، اور دو پیاری بیٹیوں کو ناحق طلاق دلوا کر قریب کے رشتے نے جگر چھلنی کیا تو زبان مبارک نے جواب میں کیا کہا؟ کتنی مجلسوں میں جا کر اس پتھر دل، حقیقی چچا کی کہانی سنائی؟ یا چچی کی طرف سے بچھائے، راہ کے کانٹے دکھانے کے لیے بستی کے لوگ جمع کیے؟
اپنے ذاتی رنج و الم کے لمحات میں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سیکھا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’اپنے رب سے اجر کی امید پہ خاموش ہو جانا‘‘۔
جب ہم پہ کوئی زیادتی کرتا ہے تو ہمیں ہمارا نفس اور ہمارے نام نہاد خیر خواہ وہ نکتے سمجھاتے ہیں جن میں جواباً منفی رد عمل کا ’’شخصی حق‘‘ ثابت ہوتا ہو اور سب بدلہ لینے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے خود کو سب سے بڑا خیر خواہ ثابت کرتے ہیں تو کیا شخصی طور پہ بدلہ لینے کا حق استعمال کرنا بحیثیت انسان کے نبی کے لیے جائز نہیں ہوسکتا تھا؟ یا اس پہلو سے ہم اپنے لیے اسوہ رسول نہیں رکھتے؟ قرآن پاک میں جہاں بھی انفرادی تکلیف پہ بدلہ لینے کا حق بتایا گیا ہے تو تحمل، درگزر، خاموشی برائی کا جواب اچھائی سے دینے کو اس حق کا استعمال کرنے سے زیادہ بہترین طرز عمل بتایا گیا ہے۔ اور یہی تو موت و حیات کی تخلیق کا مقصد وحید ہے کہ ’’ایکم احسن عملا‘‘(الملک ) اور کون نیکیوں میں سبقت لے جانے کی سعی کرتا اور جنت کی طرف جلدی پہنچنے کے لیے پوری قوت سے ’’ففروا الی اللہ‘‘ پہ عمل کرتا ہے۔
سارے نجی، خاندانی، انفرادی اور اجتماعی تنازعات چھوٹے ہوں یا بڑے، انتقام لے لیے ہوں یا نہیں جن کے بظاہر تصفیے کر لیے گئے ہوں یا نہیں لازما ًاسی ’’مالک یوم الدین‘‘ کی طرف لوٹائے جائیں گے ’’و الی اللہ ترجع الامور ‘‘وہیں سب کے معاملات دوبارہ ربانی عدل کی بنیاد پہ نپٹائے جائیں گے۔ اللہ رب العزت سب تکلیف دہ معاملات کا ایک ایک لمحہ دونوں فریق کو دکھائے گا اور ان پہ صبر و تحمل کی روش اختیار کرنے والوں کو اجر عظیم سے نواز کر ان کا دل شاد کرے گا اور تکلیف دینے والوں کی حسرت میں اضافہ ہوگا۔
فرمایا مالک یوم الدین نے
اِنَّمَا یْوَفَّی الصٰبِرْونَ اَجرَھْم بِغَیرِ حِسَاب (الزمر۱۰)۔
ہم’’بدلے کے دن‘‘ اور اس دن کے’’مالک‘‘ کو بھول ہی جاتے ہیں کیونکہ انسان جلد باز ہے اس بڑے دن کا انتظار نہیں کر سکتا اور یہ بھی بھول جاتا ہے اس عارضی اور فانی دنیا میں حلم اور تحمل کا دورانیہ انتہائی قلیل ہے اور اس کا اجر کثیر دائمی اور لا متناہی مدت کے لیے ہے۔
کر ان نفعت الذکری (الاعلی 16)۔
یہ یاد رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ کسی فرد کے انفرادی منفی طرز عمل سے کسی بھی نوعیت کی اجتماعیت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو تو اس کا فوری سدباب ضروری اور فرض ہے لیکن صرف اپنی ذات کا معاملہ ہو تو بہترین ردعمل، درگزر تحمل اور خاموشی ہی ہے۔ اور یہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اس میں کوئی دوسرا کلام نہیں کہ بدگمانی اور غلط فہمی احسن طریقے سے دور کرنا واجب ہے اور صالح، عادل، غیر جانب دار شخصیت کی معرفت اپنے موقف کی وضاحت کروانا بھی دانشمندی ہے۔ لیکن جب کوئی معذرت ، اصلاح تو کجا غلطی تسلیم کرنا ہی اپنی تحقیر سمجھے اور فریق ثانی کی طرف سے وضاحت سنے، نہ ہی معاملے کے دوسرے پہلو کو سمجھنے پہ آمادہ ہو تو کسی بد دماغ کی کج بحثی کا حصہ بننے کی بجائے اپنی زبان کی حفاظت زیادہ اہم ہے۔
لوگوں کے منفی رویوں پر جب وہ معاملہ فہمی پہ جان بوجھ کر آمادہ ہی نہ ہوں، کج فہمی ان کا شعار ہو تو ’’قالوا سلاما‘‘ ہی بہتر جواب ہے۔ کج فہم سے جس قدر بھی مضبوط دلائل کے ساتھ بات کی جائے، اس نے معاملے کو مزید الجھانا ہے، اس لیے خاموشی بہترین علاج ہے۔ کیا ’’ھو م‘‘(الاعلیٰ۹) میں بھی یہی تعلیم نہیں ہے؟ کہ نصیحت یا تذکرہ اس وقت کرو جب اس کا فائدہ ہو۔
اور بے شک دنیا میں حقوق العباد کے پل صراط پہ قطع رحمی سے بچتے ہوئے تعلقات کو اعتدال کی روش پہ رکھنا صلہ رحمی کا تقاضا ہے۔ اس تقاضے کو ہر ممکن نبھانے کے باوجود جب کوئی انتہائی بے حس تعلق دار ناحق دل دکھائے توخاموش ہو جانا بہتر ہے۔ جس کو دوسرے کے دل ٹوٹنے اور عزت نفس کو ٹھیس لگنے کا احساس نہ ہو اس کے سامنے دل کی کیفیت کو ظاہر کرنا اپنے دل اور جذبات کی توہین ہے۔ کیا کہیں اسوہ رسولؐے مثال ملتی ہے کہ مکہ کے بے حس اعزہ و اقرباء سے جذباتی سماجی نجی حوالے سے دکھ ملنے پہ ان سے جا کر اپنے حساس دل کی کیفیت بیان کی ہو یا دو کی چار سنائی ہوں یا اپنے جاں نثار ساتھیوں کے ذریعے سے یہ کام لیا ہو۔ وہ جانتے تھے کہ جس کا دل پتھر ہو جائے اس سنگ گراں سے کیا سر پھوڑنا؟ جو دلوں کا مالک ہے اس سے ہی دلجوئی کے لیے فریاد کرنا بہتر ہے۔ جیسا کہ مسنون دعائیں ہمارے سامنے مثال ہیں۔ کیا طائف کے سفر میں قلبی، جسمانی، روحانی طور پہ پہنچنے والے دکھ ایک انسان ہونے کے ناطے فراموش ہو سکتے ہیں ؟ مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن مل جانے کے باوجود اپنی ساری تکلیفوں پہ صبر و ضبط اور تحمل کو پسند فرمایا اگرچہ دکھ کی یاد ہمیشہ باقی رہی۔ کسی تکلیف اور دکھ کی یاد دل میں باقی رہ جانے پہ کوئی بازپرس نہ ہوگی۔ اور یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ہر فرد کی زندگی میں کوئی ایک وقت ضرور ایسا سخت آ زمائش والا آتا ہے جب اس کی عقل وفہم اور باطنی شعور کا پیمانہ جانچا جاتا ہے۔
پوری مکی زندگی میں ابو لہب ابو جہل اورگلی کوچوں میں لونڈوں لپاڑوں کا معاشرتی رویہ نبی کے ساتھ، یاد کیجیے تین سال تک شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میں محصور رہنا بھی ذات اقدس کا ہی دکھ تھا ہر مشکل وقت میں نبی کریمؐ کی ذات کا ردعمل سامنے رکھئے تو سمجھ آتی ہے کہ کوئی بڑا شفقت سے پیش نہ آئے اور چھوٹا عزت نہ کرے۔ برابر کے رشتے حق سے زیادہ لے کر بھی مروت لحاظ چھوڑ دیں تو ہونٹوں پہ چپ کی مہر لگا لو۔ ’’ان اللہ بصیر بالعباد‘‘ اور یہ کہ شکستہ دل کو جوڑنے کے لیے’’اللہ الجبار‘‘ہی کافی ہے۔ ’’وھو معکم این ماکنتم‘‘ (الحدید) اور وہ تسلی دیتا ہے کہ ’’فانک باعیننا‘‘تم ہماری نگاہ میں ہو، اور ہم تمہیں بھولے نہیں ہیں۔
(فاصْبِر عَلیٰ مَا یَقْولْونَ وَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّکَ قَبلَ طْلْوعِ الشَّمسِ وَقَبلَ غْرْوبھاَ وَمِن ئٰ نایِٔ الَّلیلِ فَسَبِّح وَأَطرَافَ النَّھَارِ لَعَلَّکَ تَرضیٰ( ٰطہ130)۔
اس آیت مبارکہ میں لوگوں کی تکلیف دہ باتوں سے رنجیدہ دل کی ڈھارس کے لیے ایک محفوظ قلعہ صبح و شام اور رات کے مسنون اذکار پہ دوام ہے اور اسی عمل میں تشفی اور سکون دل کا سامان موجود ہے۔
سورہ النحل کی آخری آیات بھی شخصی جذبات کے حوالے سے یہی سکھاتی ہیں کہ
’’اے محمدؐ، صبر سے کام کیے جاؤ اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے اِن لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔ اللہ اْن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں‘‘ یعنی اخلاق عالیہ کا دامن پکڑے رکھتے ہیں۔
اور سورہ الحجر آیت 97 میں رب کائنات نے اپنے حبیب سے فرمایا
’’ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینہ ان کافروں کی باتوں سے تنگی محسوس کرتا ہے‘‘۔
اگلی آیت میں اس کا حل بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح اور اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونا ہی دل مہجور کا علاج ہے۔ اور فرمایا رب کریم نے کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں اس پہ صبر کرو اور بس ان کی مہلت ختم ہونے کا انتظار کرو
(مزمل 10)۔
اللہ رب العزت سے رشتہ اور تعلق قائم رہے تو ایسی بے مقصد باتوں کو حلم و صبر کی صفت دل تک پہنچنے ہی نہیں دیتی۔
حلم و برداشت ربانی صفت ہے جو اولو العزم انبیا کو عطا ہوتی ہے۔ فاصبر کما صبر اولوا العزم من الرسل (الاحقاف 35) اور انبیا کے نقش قدم پہ چلنے والے کو انعام میں صابرانہ روش والی صفت عطا کی جاتی ہے اور اس صفت کے حامل اللہ تعالیٰ کے ولی کہلاتے ہیں۔
مکی ومدنی دور کا سارا عرصہ ذہن میں لائیے تو اسوہ حسنہ سے یہی سبق ملتا ہے کہ ضبط نفس کا بنیادی نکتہ ’’زبان کو قابو میں رکھنا‘‘ ہے۔ کوئی حاسد آپ کے خلاف افواہوں کا بازار گرم کرے آپ کی ذات کو نشانہ بنائے آپ کے بارے میں غلط باتیں پھیلائے تو مسنون عمل یہ ہے کہ’’فرشتوں کو جواب دینے دو اور رب پہ چھوڑ دو‘‘ ۔
جب کوئی آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے، رازدارانہ معیار قائم نہ رکھے تو اس کو نہ جتایا جائے بس خاموش رہا جائے اور آئندہ اس پہ اعتماد نہ کیا جائے کہ ’’مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا‘‘۔
جب اذیّت ناقابل برداشت ہونے لگے، ماضی کے دکھ کسی بھی لمحے یاد آجائیں، یا کوئی اذیت پسند آپ کو آپ کی برداشت کی آخری حد تک ستائے، نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھائے، تب بھی خاموشی اور’’اشکوا بثی وحزنی الی اللہ‘‘(یوسف) میں پناہ تلاش کی جائے۔ کیونکہ ایسے لوگ آپ کو اپنے گرے ہوئے معیار پہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کی خاموشی ان کے اندر مزید بغض پیدا کرے گی۔ شخصی اذیت کینت نئے طریقے آزمائے جائیں تو بس آپ کا ایک ہی طریقہ جلد یا بدیر نیک انجام کے لیے کارگر ہوگا “خاموشی”۔
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے‘ اتنا ہی وہ خاموش ہے
(ناطقؔ لکھنوی)
منافقین کے برے طرز عمل کو سامنے رکھیں تو جواباً اسوہ کامل یہی ہے کہ اپنی ذات کے لیے کسی سے نہ انتقام لیا نہ بغض رکھا ایک باوقار خاموشی سے سب کو مرعوب رکھا۔
’’اِن کے دلوں میں اللہ سے بڑھ کر تمہارا خوف ہے، اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے‘‘ (الحشر ۳۱)
اپنی ذات کے خلاف معاشرتی سماجی منفی رویوں پہ احتجاج کرنا ہے یا احساس دلانا ہے تو دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے رازو نیاز کریں تاکہ آپ کی خاموشی میں اللہ تعالیٰ ایسی طاقت رکھ دیں یا کسی نیک خصلت فرد کے ذریعے ایسی سبیل پیدا کردیں کہ جلد یا بدیر دوسرے کو غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ معذرت و اصلاح پہ آمادہ ہوجائے۔
آپ کی اس حلم و تحمل کا اجر یقینا آپ کو آپ کا رب ایسے عطا کرے گا کہ آپ کی آنکھیں تشّکر سے بھیگ جائیں گی، آپ کا دل ان شکر کے سجدوں میں ہی کہیں اٹک کر رہ جائے گا اور اس لمحے آپ کو احساس ہو گا کہ واویلا کرنے کی بجائے تحمل سے کام لینا ہی حکمت و دانشمندی تھی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی اپنی ذات کے لیے کبھی ردعمل میں منفی طرز عمل اختیار نہیں کیا۔ ہم اپنے نجی جذبات، احساسات اور طرز عمل پہ اپنے نفس کو مالک اور حاکم بنا کر رکھتے ہیں۔ مگر جنت کے بدلے میں نفسِ ذات بھی تو فروخت کر رکھا ہے اور نفسِ ذات کو بھی اسوہ حسنہ کے آئینے سے روگردانی کی اجازت کہاں ہے؟
روح کو قرار، بدلہ لے کر بھی کہاں حاصل ہوتاہے نفس کی پکار تو’’ھل من مزید‘‘ہے۔ شدت غم میں اسوہ حسنہ کی پکار کیا ہوتی تھی؟ طائف کی پہاڑیاں اس کی گواہ ہیں۔ قرار حاصل کرنے کے لیے آپ کے ضمیر کا اور رب العزت کا ہم خیال ہونا ضروری ہے دونوں کو علم الیقین ہو کہ حقیقت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور بندے کا ضمیر دونوں جب’’راضیہ مرضیہ‘‘ہوتے ہیں تو بے قرار روح کو ’’لا خوف علیھم ایکم احسن عملاولا ھم یحزنون‘‘ والا قرار ملتا ہے۔
قرار شدت غم سے کشید کرتے ہیں
کمال ضبط سے گزرے تو یہ ہنر آیا
(قمر وارثی)
نجی تکلیف دہ رویے پہ تحمل اور خاموشی اتنی گہری اور پائیدار ہونی چاہیے، کہ ناقدری کرنے والے زبان دراز مبہوت ہو کر رہ جائیں اور آپ ’’ایک چپ سو سکھ‘‘محاورے اور قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم’’من صمت نجیٰ ‘‘ کی سچائی سے لطف اندوز ہوں اور حق پہ ہونے کے باوجود تحمل، درگزر کا رویہ اختیار کرنے سے جنت کے وسط میں گھر ملنے کی خوشخبری سے روح شاد رہے۔
کوئی ہے جو برداشت اور صبر وحلم کی ربانی صفت اپنا کر، اولو العزم رسولوں کی رفاقت کا طلب گار ہو؟
٭…٭…٭