ستمبر ۲۰۲۴بارود کا موسم - نادیہ احمد

بارود کا موسم – نادیہ احمد

”سینان! سینان!“
بابا مجھے آوازیں دے رہے تھے۔
(ماں کے بعد بابا نے مجھے کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی)
” بابا! میں اور مروان یہاں ہیں۔ اوپر….
ذوشی( بکری) کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا تھا۔ مرہم لگا دیا ہے۔ “
”اچھا اچھا!“
”مروان! میرے ساتھ ذرا عار عرہ تک چلو گے؟ “
”جی بابا!“
(ہمیشہ کا فرمانبردار مروان تیار تھا۔)
٭
مروان بابا کی بہن کا بیٹا تھا ۔ ”روحا بی“ ”شہید نضال“ کی بیوہ تھیں ۔ شہید نضال کی شہادت کے بعد سے وہ بابا کے ساتھ تھیں مگر کچھ عرصہ بعد ہی وہ بھی مروان کو تنہا کرکے اپنے خالق کے پاس چلی گئیں۔ میں اور مروان ڈائیٹنیا لیون ٹائن کی فضاؤں میں پلے بڑھے تھے ۔
ڈائیٹنیا لیونٹائن!!!!
یہ باغ کے اندر بنا چھوٹا سا ریسٹورنٹ ہے۔ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ، ایسا ریسٹورنٹ جہاں کچھ دیر کے لیے سکون اور تازگی میسر ہو اور لوگ فطرت کی سیر کریں۔ یہ چھوٹا سا باغ اور ریسٹورنٹ بابا نے اپنی خاندانی زمین پر بنایا تھا ۔ ہر کونے میں میز اور کرسیاں ، کچن میں لٹکتے پین اور برتن، زاتار اور پودینہ تک آسان رسائی جسے اپنے کھانے پر چھڑکنے کے لیے خود چنا جا سکتا ہے۔ شیڈ کے اوپر جانے کے لیے دھات کی سیڑھیاں جہاں زندہ مرغیاں اور بکریاں سائےمیں آرام کرتی ہیں۔ یہاں سے پہاڑی پر بسے فلسطینی قصبے عار عرہ کا نظارہ فطرت سے ہم آہنگ ہے۔
میں بابا کے ساتھ مل کر مانوشے( رات کی روٹی کوزیتون اورپانی میں بھگو کر تازہ کرنا) بناتی اور مروان مہمانوں کے لیے شکشوکا اور مانوس جلاتا تھا۔
ٹینگی ذاتار اور مینوشیز ہمارے مینیو کی خاص بات تھی جسے پنیر یا آلو کے ساتھ پیش کیا جاتاتھا۔ ایک اور چیز بھی تھی۔ ”مقلوبہ“
چاول ، گوشت اور فرائی سبزیوں سے بنی یہ ڈش رائس کیک کی طرح بنائی جاتی۔ مروان کو مقلوبہ پسند تھا، اور مروان کو پسند تھا تو مجھے بھی!
٭
”سینان!“
”جی بابا!“
” مروان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ “
پودینہ کی پتیاں چنتے میرے ارد گرد خوشبو نے بسیرا کر لیا۔
میں مسکرا دی۔
وہ رب سب جانتا ہے
دلوں میں چھپے خیال اور نیت بھی۔
یوں ایک چمکیلی صبح میں مروان کی دلہن بن گئی۔
زیتون کے پودے، بکریوں کا شیڈ ، پیچھے چلتا فوارہ… اور چلتی ہوا، ڈائیٹنیا کا چپہ چپہ ہماری محبت کا گواہ بن گیا۔
٭
فواروں کی ٹھنڈک، پانی کا جلترنگ، جڑی بوٹیوں کی ملی جلی خوشبو اور مکمل ہونے کی خوشی آج کل مجھے سرشار رکھتی تھی۔ ہم نے اپنے آنے والے مہمان کا نام بھی سوچ لیا تھا۔
”باسم“
یا
آئلہ
٭
ایسی ہی ایک صبح جب مروان کا جنم دن تھا۔ میں کچن میں مروان کے پسندیدہ مقلوبہ کی تیاری میں مصروف تھی۔
”صبح بخیر!“
”صبح بخیر“
میں مسکرائی۔
”کیا کر رہی ہو؟ “
”کچھ خاص بنا رہی ہوں“
”کس کے لیے؟ “
وہ انجان بنا۔
”اپنے دل سے پوچھو“
”ہم م م م م …“
اسکی گہری سرمئی آنکھیں مجھے پزل کر رہی تھیں۔
” اچھا ذرا یہ مصالحے تو مجھے پکڑ ا دو اور زیتون کا تیل بھی“۔
(میں نے اسے مصروف کرنا چاہا۔ )
اچانک ہی گولہ باری کی آوازوں نے اسے حواس باختہ کردیا ۔ وہ اوپر بھاگا کہ حالات کا اندازہ لگائے۔
بابا پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ پکارتے آرہے تھے۔
”حماس نے اسرائیل پہ حملہ کر دیا ہے۔ اب اسرائیل ہمارے علاقوں پہ بم باری کر رہا ہے۔ گھر ٹوٹ رہے ہیں سب تباہ ہو رہا ہے“۔
”خدا خیر کرے! پریشان نہ ہوں بابا“۔
مروان نیچے آیا۔
اس کے کاندھے پر رومال اور ہاتھ میں بیگ تھا۔
”اجازت ہے؟ “
اس نے بابا کا ہاتھ چوما۔
بابا نے اپنا کپکپاتا ہاتھ اس کے سر پہ رکھا۔
اس نے میری جانب دیکھا۔
’’القدس میرا منتظر ہےسینان!‘‘
”باسم کا کیا ہوگا؟ “
”وہاں بہت سے باسم میرے منتظر ہیں سینان!“
”الوداع“
”جلدی لوٹ آنا“
”جو خدا کی مرضی“
وہ چلا گیا۔
اس کی خیریت کی اطلاع ملتی رہتی تھی۔
آج جمعہ تھا ۔ اطلاع تھی کہ جمعہ کے مبارک دن کا آغاز ہوتے ہی تین بکتر بند گاڑیوں کو ان کے عملے کے ساتھ جبالیہ کیمپ کے مشرق میں گھسنے کی کوشش کے دوران سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی دوزخ شفٹ کر دیا گیا۔
٭
اسی اداس شام کو جب رات کے سائے بڑھ رہے تھے ، بابا عار عرہ تک گئے تھے۔
مجھے لگا قیامت آگئی۔
مجھے ہوش آیا تو میں ملبے کے نیچے زندہ تھی۔ کلمہ شہادت پڑھتے میں دعائیں مانگتی رہی۔ پھر انہوں نے مجھے نکالا۔
دہشتگردی نے امن کے کسی متلاشی کو نہ چھوڑا۔
میں ان کے ساتھ کیمپ میں چلی گئی۔ وہاں بابا مجھے مل گئے۔
بابا، مروان کا انتظار اور گود میں لیٹا باسم بھی ، اب میری طاقت تھا۔
ڈائیٹینا تباہ ہوچکا تھا۔ ذاتار اور پودینہ کی خوشبو پر بارود کی بو غالب آچکی تھی۔
بنا چھت کے کمرے، ٹوٹی دیواروں کی دکانیں اور اپنے پیاروں کے غم میں بلکتے سسکتے لوگ، سڑک پر ہی مل جل کر کھانا پکاتے اس دوران صیہونی فوجی کئی لوگوں کو گرفتار کر کے بھی لے گئے ۔
دن گزر گئے
پھر پتہ چلا کہ چار دن کے لیے جنگ بندی اور قیدیوں کی واپسی کا اعلان کیا گیا ہے۔
٭
قید سے رہا ہونے والے قیدی آچکے تھے۔ ابتر حالت میں اپنوں سے گلے ملتے، مائیں بیٹوں کے ماتھے چوم رہی تھیں۔ بیویاں اپنے خاوند کو دیکھ کر یا حبیبی کہتی شکرانے کے نفل ادا کرتیں۔
کچھ لوگ مل گئے تھے کچھ بچھڑ گئے تھے۔ جو مل گئے وہ خوش تھے اور جن کے اپنے بچھڑ گئے تھے وہ بھی خوش تھے کہ کسی اور مقام پر ایک ابدی ملاقات ان کی منتظر تھی۔
مروان کی کئی دن سے کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ وہ رفح چلا گیا تھا۔ مگر جو واپس آئے تھے ان کے لیےاپنے پیاروں سے ملنے کی خوشی میں سڑک کنارے ہی تندور بنا کر ، گھروں سے سے ملی جلی سبزیاں جمع کر کے اور بچ جانے والے ریوڑ میں سے ایک بکری ذبح کر کے خلیلہ اور بسمہ نے مقلوبہ تیار کیا تھا۔
٭
دسترخوان پر دعائیہ کلمات کے بعد خلیلہ نے ڈش رکھتے ہوئے کہا۔
”ہم اپنے واپس آنے والے ساتھیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور فتح کی علامت کے طور پر یہ آپ کے سامنے رکھتے ہیں ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں بیت المقدس کو آزاد کرائے جانے کے موقع پر تیار کی گئی یہ ڈش صیہونی وجود کے مقابلے میں فلسطینی خواتین کی جدوجہد کی علامت ہے ۔
”شروع کریں“
خلیلہ نے مرلین کو اشارہ کیا۔ اس نے چاولوں سے بھری پلیٹ میرے سامنے رکھ دی۔
”شروع کرو سینان“ ۔
“دل نہیں ہے“۔
” کھا لو سینان“
بابا نے باسم کو سینے سے لگایا۔
”بابا !مروان“
لبوں سے سسکی نکلی۔
مقلوبہ کی پلیٹ کو نظر بھر کر دیکھا۔
” وہ کہتا تھا جہاں جہاں مقلوبہ ہوگا وہاں میں ضرور آؤں گا۔“
” وہ نہیں آیا بابا!“
”وہ نہیں آیا۔ “
میں بھاری دل سے وہاں سے اٹھ گئی۔
٭
کھلے آسمان تلے، مکانوں کے کھنڈر پر
بیٹھے ، میں نےہاتھوں کو دیکھا۔ کچھ دیر پہلے مروان کا ایک ساتھی یہ پیکٹ دے گیا تھا ۔ پیکٹ کھولا تو اس میں مروان کا رومال اور ایک خط تھاجس میں لکھا تھا ۔
”مایوس نہیں ہونا ،یہ دنیا سب کچھ نہیں اس کے بعد بھی ایک دنیا ہے“
٭
”وہ رہا مروان “ بابا نے چمکتے ستاروں میں سب سے روشن ستارے کو ڈھونڈا۔
”دیکھو وہ آگیا“۔
بابا نے باسم کو گود میں دیا۔
ملبے سے چنی گئی لکڑیوں سے جلائی گئی آگ ، کب کی ٹھنڈی ہو چکی تھی مگرمجھےاب کسی کی پروا نہ تھی
موسم اپنی آب و تاب کھو چکے تھے۔ اب تو بس ایک ہی موسم تھا۔” بارود کا موسم“
دبی راکھ میں سے ایک چنگاری آسمان کی طرف لپکی ۔
سرد ہوا کے جھونکے کے ساتھ ہی دل میں انجانی لہر اٹھی۔
میں نے سردی سے بچانے کے لیے مروان کے رومال کو باسم کے گرد لپیٹا ۔
”مروان کی نشانی“ میں نے باسم کے ماتھے کو چوما۔ کشادہ پیشانی اور سنہری آنکھوں والا باسم۔
کچھ تو ہے میرے پاس ۔
(میں نے سوچا)
سرد ہوا نے چپکے سے سرگوشی کی۔
انجانے سےجذبے تھے۔ سرد ہوا تھی۔
کسی کا خیال تھا۔
خوشی تھی۔
ملال تھا۔
خوشی اس بات کی کہ مروان کی ایک نشانی تو میرے پاس تھی۔ صیہونی طاقت کے خلاف ایک اورمروان بنانے کے لیے۔
اور ملال!
ملال اس بات کا کہ بم گر رہے تھے
گھر تباہ ہوچکے تھے۔
کتنے ہی باسم یتیم ہو چکے تھے۔
ایک طرف انسانیت سسک رہی تھی مگر دوسری طرف بے حسی کی چادر اوڑھے دنیا ، ابھی تک بائیکاٹ اور مظاہروں میں ہی الجھ رہی تھی!
٭ ٭ ٭